بلیک فرائیڈے اور خلافتِ بغداد کے عباسی شہزادے


آپ میں سے بہت سے حیران ہوتے ہیں کہ بلیک فرائیڈے کا یہ نام کیوں پڑا ہے حالانکہ اس دن تو غریب لوگ بھی بہت زیادہ ڈسکاؤنٹ پر وہ چیزیں خرید سکتے ہیں جو باقی سال میں خریدنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا، اور تاجر بھی اس ایک دن میں ہی اتنا منافع کما لیتے ہیں جو سال کے باقی دنوں کے برابر ہوتا ہے۔ پھر اسے بلیک کیوں کہا جاتا ہے؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کو ریلیف دینے کے لئے مسلمانوں کے مقدس دن جمعے کا دن کیوں منتخب کیا گیا ہے جبکہ مسیحیوں کا مقدس دن تو اتوار اور یہودیوں کا ہفتہ ہے؟

بات شروع ہوتی ہے جب 1258 میں بغداد پر منگولوں نے حملہ کر کے اسے برباد کر دیا۔ اس دور ابتلا میں عباسی شہزادہ معتصم بن وائل اپنی جان بچا کر اندلس کی طرف بھاگا اور اسے غرناطہ کے امیر محمد بن یوسف بن نصر ابن الاحمر نے اپنے دربار میں اعلی منصب دیا۔ ابن وائل کا خاندان غرناطہ کے دربار میں مختلف مناصب پر فائز رہا لیکن بدقسمتی نے اس خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ دو جنوری 1492 کو قشتالیہ کی ملکہ ازابیلا اور آراگون کے بادشاہ فرڈینینڈ کی فوجوں نے غرناطہ کے امیر ابو عبداللہ کو شکست دے دی اور مہلب ابن وائل العباسی کو بھی غلام بنا لیا۔

جب شاہ فرڈینینڈ نے کرسٹوفر کولمبس کی مہموں کے نتیجے میں امریکہ دریافت کیا تو مہلب بن وائل ان غلاموں میں شامل تھے جو امریکہ بھیجے گئے۔ وائل خاندان کے سپوت امریکہ میں غلامی کی زندگی بسر کرتے رہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ شمالی افریقہ کے دیگر مسلم غلاموں کی طرح ان کو بھی زبردستی مسیحی بنا دیا گیا۔ سنہ 1865 میں امریکی خانہ جنگی ختم ہوئی اور غلاموں کو آزادی ملی تو وائل خاندان کے یہ عباسی شہزادے بھی دوبارہ آزاد شہری بنے۔ اس وقت تک ان کا خاندانی نام ابن وائل سے بگڑ کر پہلے وال اور اس کے بعد والٹن ہو چکا تھا۔

ایلفریڈ والٹن نے نیویارک میں ایک چھوٹی سی دکان سے کاروبار کا آغاز کیا۔ وائل خاندان کا مذہب اور زبان تبدیل ہو گئے، امتداد زمانہ سے نام بھی بگڑ گیا، مگر دو چیزیں اس خاندان میں قائم رہیں۔ پہلی یہ کہ وہ عباسی شاہی خاندان اور فوج کا پسندیدہ کالے رنگ کے لباس پہنتے رہے۔ ہمیں علم نہیں ہے کہ عباسی خلفا نے سیاہ رنگ کو کیوں ترجیح دی۔ کچھ مورخ کہتے ہیں کہ امویوں کا تختہ الٹنے والے عباسی جرنیل ابومسلم خراسانی نے اپنے لشکر کے لئے اس رنگ کا پرچم اختیار کیا تھا۔ بہرحل مسیحی ہونے کے باوجود ایلفریڈ والٹن کا خاندان اس کالے رنگ کو خود سے جدا نہ کر پایا۔ لیکن اب وہ امریکی ثقافت کے مطابق عبا کی بجائے سیاہ بزنس سوٹ پہننے لگے تھے۔

دوسری چیز جس سے ایلفریڈ والٹن کا خاندان جڑا رہا، وہ اپنی دولت و عزت کی شکرگزاری کے طور پر جمعے کے دن صدقہ و خیرات کرنے کی روایت تھی۔ کاروبار شروع کرتے ہی وال خاندان نے یہ کوشش کی کہ جمعے کو لوگوں کو کچھ رعایت دی جائے۔ اس کی برکت ان کے خاندان پر اتنی پڑی کہ والٹن خاندان کا کاروبار بڑھتا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد والٹن خاندان کے سربراہ سام والٹن نے یہ دیکھا کہ امریکی قوم نومبر کی چوتھی جمعرات کو یوم شکرانہ یعنی تھینکس گوینگ ڈے مناتی ہے جس کے ایک مہینے بعد کرسمس کا تہوار آتا ہے لیکن اس تہوار پر غریب کچھ خرید نہیں پاتے بلکہ حسرت سے دکانوں میں سجے نئے کپڑوں اور کھلونوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔

سام والٹن نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا یوم شکرانہ اس جمعرات کی بجائے جمعے کو ہی منائیں گے جو کہ ان کے خاندان کی ایک ہزار برس پرانی روایت تھی۔ سام والٹن نے 1952 میں امریکہ بھر میں اپنی مارکیٹ ”وال مارٹ“ میں اسی نوے فیصد تک کی رعایت پر مال بیچنا شروع کر دیا۔ سیاہ لباس پہنے ہوئے عباسی شہزادے معتصم بن وائل کے یہ سپوت جب غریبوں کو اتنی زیادہ رعایت پر مال بیچنے لگے تو ان کے حریف ان پر خوب ہنسے کہ یہ اپنا کاروبار ڈبو رہے ہیں۔ لیکن ہوا یہ کہ پہلے وہ دس ڈالر منافع پر دس چیزیں بیچتے تھے اور سو ڈالر گھر لے جاتے تھے تو اب وہ ایک ڈالر منافع پر دس ہزار اشیا بیچ کر دس ہزار ڈالر منافع پانے لگے اور ان کے کاروبار میں بے تحاشا برکت پڑی۔ نومبر کے چوتھے جمعے کو عوام جوق در جوق ان کی وال مارٹ پر آنے لگے اور ان سیاہ پوش عباسی شہزادوں کی مناسبت سے اس دن کو بلیک فرائیڈے کہنے لگے۔

سام والٹن کی وال مارٹ کی اس کامیابی کو دیکھ کر امریکہ کے باقی تاجروں نے بھی نومبر کے آخری جمعے کو یہ ڈسکاؤنٹ دینا شروع کر دیا اور عوام میں مشہور بلیک فرائی ڈے کا نام ان کو بھی اختیار کرنا پڑا۔ یوں ایک ایسے ملک میں جہاں ہفتے کو مقدس دن ماننے والے یہودی تجارت کو کنٹرول کرتے ہیں اور اتوار کو مقدس دن ماننے والے مسیحیوں کی اکثریت والے شہری رہتے ہیں، جمعے کا دن غریبوں اور سفید پوشوں کے لئے راحت کا پیغام لانے لگا۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar