بلیک فرائیڈے: معزز صارفین کے لئے لمحہ فکریہ



جوں جوں دنیا اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے خریداری کا جنون لوگوں کو پاگل کیے دے رہا ہے جیسے بس آج کی سیل میں نہ خریدا تو دنیا ہی ختم ہو جائے گی۔ یہ فری مارکٹ اور سرمایہ داری نظام کی بدترین شکل ہے جب لوگ بچت کی طرف دھیان دیے اپنی خون پسینے کی کمائی یوں لٹانے پر تل گئے ہیں ہر وقت کپڑے اور دوسری اشیائے ضرورت جو کچھ ہی دنوں میں ڈسٹ بن میں چلی جائیں گی اور دنیا کو ایسا کچرے کا ڈھیر بناتی چلی جا رہی ہیں جو فطرت کے نظام سے بری طرح ٹکرا رہا ہے مشینوں کے فالتو پرزے، پلاسٹک، ربر، سیسہ، کاربن اور دوسری خطرناک دھاتیں فضاء، زمین اور سمندر میں آلودگی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جنگلی حیات کی تباہی کے ساتھ ہی انسانوں کی نسل کو ختم کر دے گا۔

چونکہ میں دنیا کے دو بڑے سمندروں یعنی بحر الکاہل اور بحیرہ تسمان کے درمیان خشکی کی ایک چھوٹی سی لکیر پر رہتی ہوں تو اکثر و بیشتر ایسے خواب دیکھتی رہتی ہوں جنھیں نائٹ میئر یعنی بھیانک خواب کہا سکتا ہے آج بھی ایسا ہی ایک خواب دیکھا کہ سمندر ہمارے گھروں کو اپنے ساتھ بہائے لئے جا رہا ہے لیکن یہ پانی کا نہیں بلکہ کچرے کا سمندر بن چکا ہے ہر طرف پلاسٹک کی بوتلیں، تھیلیاں، گندے ڈائپرز، اور دوسرے نان ڈی گریڈ ایبل اشیا جو زمین میں ہزاروں سال بھی دبی رہیں تو مٹیں گی نہیں چلی آ رہی ہیں ابھی یہ طوفان تھما نہیں کہ مشینیں آپس میں ٹکراتی ہم پر چڑھائی کیے دے رہی ہیں سر فہرست پرانے کمپیوٹرز، مانیٹرز اور سیسے اور کاربن کے جہازی سائز ٹکڑے ہمیں نگلنے کو آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم کہیں بھاگ نہیں سکتے بس ایک سیال مادہ کے ساتھ بہہ رہے ہیں

کوئی کہہ رہا ہے یہ وقت ہے جو کبھی شفاف اور پرسکون ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ کالی کیچڑ نما دلدل بن چکا ہے۔ تو محترم صارفین اگر آپ میری اور اپنی آنے والی نسلوں کو دوبارہ صاف ستھرا اور شفاف وقت دینا چاہتے ہیں تو میرے اس خواب کو مستقبل کی ایک پیش گوئی سمجھ کر دھیان دیں اور شاپنگ مالز میں لگنے والی بلیک فرائیڈے کی سیل میں سے صرف وہی خریدیں جو واقعی بہت ضروری ہے۔

اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں تو فرائڈے کبھی بلیک نہیں ہوسکتا تو آپ کی بات ایک طرح سے درست ہے کیونکہ یہ امریکا کا تہوار ہے جو ان کی قوم کو خریداری کی لت کی شکل میں لاحق ہے اس کی بھی ایک تاریخ ہے جو کچھ یوں ہے 24 ستمبر 1869 کو جمعہ کے دن جیمز فسک جونیئر اور جے گولڈ نے نیو یارک کی سونے کی مارکیٹ پر اپنا تسلط قائم کر لیا یہ وہ دور تھا جب امریکا بدترین مالی بحران سے دوچار ہوا۔ وال اسٹریٹ لڑائی کا میدان بن گئی اور کافی خونریزی کے بعد کہتے ہیں کسانوں نے سود خور بینکاروں کو مار بھگایا اس دن کی یاد کے طور پر تھینکس گیونگ کے اگلے دن بلیک فرائڈے کو امریکا کے تاجر سستی اشیا بیچ کر مناتے ہیں۔ یعنی یہ جمعہ مبارک کی توہین کس طرح نہیں بلکہ ان کی ایک یاد اس سے وابستہ ہے لیکن خیر ہمیں اس سے کیا امریکن جانیں اور ان کا بلیک فرائیڈے۔

ذرا سوچیں برانڈڈ کپڑوں کی سیل پر ہمارے یہاں بھی کیا ایسی ہی لوٹ مار نہیں مچتی جبکہ وہ کپڑے خرید کر ہم کچھ بچت نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اگر چار جوڑوں کی ضرورت تھی مگر ڈسکاونٹ کے دھوکے میں دس جوڑے خرید لئے اور اب درزیوں کے گھر کے چکر لگا لگا کر اپنا قیمتی وقت جو کسی تخلیقی کام میں صرف ہو سکتا تھا وہ ضائع کر دیا جاتا ہے اور یہ جوڑے چند بار پہننے کے بعد ہی گھر میں کام کرنے والی مائی کو تحفہ کے طور پر دے دیے جاتے ہیں جو ناک بھوں چڑھا کر ان کے جھاڑن اور پوچے بنا لیتی ہے کیونکہ وہ خود تازہ ترین سیل میں سے نئے فیشن کے دس جوڑے لے کر آئی ہوتی ہے تو بھلا پچھلے سال کے ڈیزائن وہ کیوں پہنے، گویا یہ سب ایک دوڑ کے طور پر ہو رہا ہے فیشن کی دوڑ مگر اصلی دوڑ میں شریک ہونے کی تو کیا سوچنے کی بھی ہمت نہیں ہو گی کیونکہ سارا اسٹیمنا کپڑے بنانے میں جو صرف ہو گیا۔ باہر پارک میں جا کر چہل قدمی کون کرے۔ گھر میں رکھی ٹریڈ مل اور ا یکسر سائکل بھی الگنی کے طور پر کپڑے ڈالنے کے کام آ رہی ہیں۔ تو کیا ایک بار بھی نہیں سوچیں کہ کچرے کے سمندر جو ہمیں نگلنے کو چلے آ رہے ہیں تھوڑی دیر کو تھم جائیں اور ہم کوئی میٹھا سا پرسکون خواب ہی دیکھ لیں جہاں چڑیاں درختوں پر چہچہا رہی ہوں اور صاف شفاف وقت کا سمندر دھیمے دھیمے سروں میں گاتا ہوا کاغز کی کشتی میں لئے اپنی پرسکون لہروں پر بہاتا چلا جا رہا ہو۔ شاپنگ مالز کے بکھیڑے اور خریداروں کی دھکم پیل سب کہیں دور بہت دور رہ جائے۔

حوالہ:
www.history.com/news/the-black-friday-gold-scandal-145-years-ago


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).