ڈاکٹر شاہد مسعود جھوٹے الزامات لگانے کے بعد جواب سے خوفزدہ ہیں


زمانہ طالب علمی سے ہی صحافت اور سیاست سے دلچسپی رہی۔ ابھی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا کہ والد محترم کے قتل کی افسوسناک خبر ملی۔ والد محترم کی جمہوریت اور پیپلز پارٹی سے وابستگی قابل رشک تھی۔ ہم لوگ درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ والد محترم کے دیے ہوئے سیاسی شعور اور پیپلز پارٹی کی مزدوروں کسانوں کے ساتھ وابستگی نے مجھے بھی ٹریڈ یونین سیاست کی جانب مائل کردیا اور ہوں میں نجی بینکوں کی یونین کا عہدہ دار منتخب ہوگیا۔ عملی سیاست میں حصہ بلدیاتی سطح سے لیا اور دو دفعہ بلدیاتی نمائندہ منتخب ہوا۔ کراچی کی سیاست میں میری دلچسپی وفاقی اور قومی سطح پر تھی میں لسانیت اور لسانی تعصب کو کراچی کے شہریوں کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہوں۔

پیپلز پارٹی نے کراچی اور صوبائی سطح پر مختلف ذمہ داریاں سونپی جو کہ میں نے اپنی بساط کے مطابق پورا کرنے کی کوشش کیں۔ مجھ جیسے درمیانے طبقے اور محدود وسائل رکھنے والے سیاسی کارکن کو پیپلز پارٹی نے سینٹ کا ممبر بنوایا، صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا اور عوام نے اعتماد کرتے ہوئے میرے مقابلے میں باوسائل دولتمند امیدواروں کے مقابلے میں مجھ جیسے عام آدمی کو کراچی سے رکن اسمبلی منتخب کروایا۔ سینٹ میں مختلف کمیٹیوں کا ممبر رہا۔ مختلف مالی بدعنوانیوں کے سکینڈل میں ملوث لوگوں کی جانب سے مختلف ترغیبات دی گئی لیکن میں نے ہمیشہ عوام کے حقوق کی ترجمانی کی الحمدللہ میرے سیاسی کیریئر میں مجھ پر کرپشن کا کوئی داغ نہ لگ سکا۔

ڈاکٹر شاہد مسعود نیوز چینل ون پر ایک ٹاک شو کرتے ہیں۔ انہوں نے دوران پروگرام مجھ پر اور میری قیادت پر من گھڑت اور جھوٹے الزامات لگائے۔ مجھے قاتل بد عنوان اور نہ جانے کیا کچھ کہتے رہے۔ میرے پوشیدہ اثاثوں کا بھی ذکر کرتے رہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میں خود اپنے ان اثاثوں سے واقف نہیں۔ میں نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کرنے کی متعدد بار کوشش کی لیکن انہوں نے میری کال وصول نہیں کی۔

پروگرام کے بعد اگلے روز میں نے چینل ون انتظامیہ سے رابطہ کرکے ان سے درخواست کی کہ میں اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب دینا چاہتا ہوں لیکن چینل انتظامیہ نے بھی یہ درخواست تادم تحریر رد کردی۔

ڈاکٹر شاہد مسعود چینل ون پر پروگرام اسلام آباد سے کرتے ہیں۔ میں فورا کراچی سے اسلام آباد پہنچا۔ اس دوران ڈاکٹر شاہد مسعود نے ٹوئیٹر پر یہ بھی دعویٰ کیا کہ میں نے انہیں کوئی کال نہیں کی۔

ان کا پروگرام رات نو بجے نشر ہوتا ہے لہذا میں رات آٹھ بجے ہی بلیو ایریا میں واقع ان کے چینل کے دفتر کے باہر پہنچا اور رات آٹھ سے دس بجے تک مسلسل دو دن متواتر حاضر ہوتا رہا۔ لیکن آفرین ہے اس زرد صحافت کی کہ وہ ڈھیٹ بن کر ٹس سے مس نہ ہوئی۔

جنرل ضیاء کا دور صحافت پر کڑا تھا۔ نظریاتی تفریق کے باوجود سلیم احمد، محمد حسن عسکری، کمال اظفر، منہاج برنا، محمد صلاح الدین اور جون ایلیا مرحوم ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ سماجی مراسم میں گرمجوشی برقرار رہتی تھی۔ آج کہنے کو میڈیا آزاد اور ترقی یافتہ ہے لیکن کیا یہ آزادی بغیر ثبوت کے دوسروں کی پگڑی اچھالنے کردار کشی اور فتوی بازی کی آزادی ہے۔ آج صحافت کی آڑ لے کر چند جعلی صحافی نفرتوں کے بیوپاری اور اپنے مذموم مقاصد کو پروان چڑھانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طرف سیاست دانوں کو اخلاقیات کے درس دیے جاتے ہیں پوری دنیا سے چن چن کر مثالیں دی جاتی ہیں۔ لیکن کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ کیا دنیا میں صحافتی اقدار اور اصول بغیر ثبوت اور تحقیق کسی بھی شہری پر الزامات لگانے کی اجازت دیتے ہیں۔

آپ اینکر ہیں۔ آپ کو کسی بھی فرد کے بارے میں رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن جن حقائق کی بنیاد پر آپ رائے قائم کر رہے ہیں وہ قابل تصدیق اور حقائق پر مبنی ہونے چاہئیں۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں آپ تبصرہ فرما رہے ہیں اس کا موقف طلب کریں۔ اگر اخبارات میں کسی رپورٹر کی خبر شائع ہونے کا یہ معیار ہے تو ٹی وی پروگرام کے لئے یہ صحافتی اصول کیوں قابل تقلید نہیں ہو سکتے۔

بقول شاعر
دلیل تھی نہ کوئی حوالہ تھا ان کے پاس
عجیب لوگ تھے بس اختلاف رکھتے تھے۔

شیشہ کے گھروں میں بیٹھ کر یہ جعلی صحافی اپنے آپ کو عقل کل اور پارسا گردانتے ہیں۔ یہ جب چاہیں آزاد صحافی کا روپ دھار لیں اور جب چاہیں صحافت کی آڑ لے کر سرکاری عہدے حاصل کر لیں۔

کیا ڈاکٹر شاہد مسعود قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ برطانیہ میں سیاسی پناہ کے حصول کے لئے ان کی دی گئی درخواست میں انہوں نے پاکستان کے کن اداروں کی جانب سے اپنی جان کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا اور برطانیہ کے ہوم آفس نے ان کی درخواست کیوں مسترد کی اور انہیں کن القابات سے نوازا؟

اور یہ کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے بھائی کی آف شور کمپنی کن مقاصد کے لئے بنائی گئی اور اس کے ذریعے کتنی رقم بیرون ملک منتقل کی گئی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).