جمعیت کے خلاف اساتذہ کی غنڈہ گردی کے چند واقعات


عدنان خان کاکڑ کی تحریر، پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کی غنڈہ گردی بند کی جائے، پڑھ کر مجھے بھی پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے خلاف غنڈا گردی کے کچھ واقعات یاد آ رہے ہیں جن میں میری اپنی ذات ملوث تھی۔ 1994 کا سال تھا۔ میری بوائز ہوسٹل نمبر 14 میں بطور سپرنٹنڈنٹ تعیناتی کو ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ یونیورسٹی میں ایک بہت المناک اور خوں ریز واقعہ پیش آیا۔ محرم کے مہینے میں فائرنگ ہوئی اور چار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اس سانحے کے چند ماہ بعد ایک ہوسٹل میں سالانہ عشائیہ تھا۔ اس بلاک کے دیگر ہوسٹلوں کے وارڈن اور سپنرنٹنڈنٹ صاحبان بھی مدعو تھے۔ اس عشائیہ میں جمعیت کے ناظم نے تقریر کرتے ہوئے ایک استاد، جو اس سانحہ کے وقت امور طلبہ کے ڈائریکٹر تھے اور اب جمعیت کے مورد عتاب تھے، کے خلاف تقریر شروع کر دی۔ مجھ سے یہ برداشت نہ ہوا۔ میں نے اسے کہا کہ یہاں اساتذہ بھی بیٹھے ہوئے ہیں اس لیے آپ ایک استاد کے خلاف بات نہ کریں۔ اس نے جواب دیا میں استاد نہیں, انتظامیہ کے خلاف بات کر رہا ہوں۔ اس پر میں نے غصے میں بلند آواز سے کہا۔ آپ ایک استاد کے خلاف بات کر رہے ہیں، مت کریں۔ خیر اس طالب علم نے معذرت کر لی کہ اس کا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا۔

جن طلبہ نے گزشتہ صدی کی آخری دو اور اس صدی کی پہلی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹلوں میں قیام کیا ہے وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ہوسٹل پر جمعیت کے اختیار اور اثر و رسوخ کا کیا عالم ہوتا تھا۔ ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا تھا۔ چنانچہ ناظم جامعہ کی تقریر میں مداخلت کرنے اور اسے بات نہ کرنے دینے کو میری غنڈا گردی پر محمول کیا گیا اور اس کی سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

 ہوسٹلوں میں روایت یہ تھی کہ جب وارڈن کی سیٹ خالی ہوتی تھی تو وہاں موجود سپرنٹنڈنٹ کو وارڈن بنا دیا جاتا تھا، لیکن جمعیت نے اعلان کیا کہ وہ مجھے وارڈن نہیں بننے دیں گے۔ حالانکہ اس وقت یونیورسٹی میں ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب وائس چانسلر تھے۔ جب ہال کونسل کی میٹینگ میں مجھے وارڈن نہ بنانے کا فیصلہ ہوا تو میں وائس چانسلر صاحب سے ملا اور انھیں تمام صورت حال سے آگاہ کیا۔

میری گزارشات سننے کے بعد انھوں نے کہا میں مانتا ہوں کہ آپ نے جو کچھ کیا, تن تنہا کیا ہے۔ اس میں ادارے کی طرف سے آپ کو کوئی مدد نہیں ملی۔ ان کا سوال تھا اب آپ کیا چاہتے ہیں ۔ میرا جواب تھا کچھ نہیں۔ میں نے کہا جن صاحب کو وارڈن بنایا جا رہا ہے وہ مجھ سے بہت جونیر ہیں۔ لیکن میں اسے اپنی انا کا مسئلہ نہیں سمجھتا۔ میں آپ کو صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ جمعیت نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ وہ مجھے وارڈن نہیں بننے دیں گے۔ مجھے وارڈن نہ بنانے کا مطلب یہ ہو گا کہ یہاں فیصلے آج بھی جمعیت کی مرضی اور منشا سے ہوتے ہیں۔ انھیں یہ جان کر شاید مایوسی ہوئی کہ میں ان سے کسی احسان کا طلب گار نہیں تھا۔ چنانچہ ہوا وہی جو جمعیت نے اعلان کیا تھا۔

لا کالج کے استاد، چودھری جاوید اختر صاحب وارڈن مقرر ہوئے۔ چودھری صاحب بہت دبنگ انسان ہیں اور وہ جمعیت کے آگے سرنگوں کرنے کو تیار نہ تھے۔ ہمارے تعلقات انتہائی خوش گوار اور دوستانہ رہے۔ ہر کام ایک دوسرے کے مشورے سے کرتے تھے۔ اس لیے جمعیت کو میرے وارڈن نہ بننے سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔

ہوسٹل کے تمام معاملات ہم نے اپنی تحویل میں لے لیے تھے اور ان میں جمعیت کا عمل دخل مکمل طور پر ختم کر دیا تھا لیکن ایک مسئلہ ایسا تھا جہاں ہم کچھ بے بسی محسوس کرتے تھے۔ ہوسٹل کے سالانہ فنکشن کا انعقاد ایک مسئلہ تھا۔ کئی برس تو اسی جھگڑے کی وجہ سے اس کا انعقاد ممکن نہ ہو سکا۔ اس کے چند اسباب یہ تھے:

ہر ہوسٹل میں سٹیج سیکریٹری جمعیت کا ناظم ہوتا تھا چاہے وہ دو جملے درست طور پر بولنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ میں نے انھیں بتایا کہ مائک پر غلط تلفظ اور غلط شعر برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ہم لڑکوں کا انٹرویو کر کے جو اس کی صلاحیت رکھتے ہوں گے، انھیں یہ ذمہ داری تفویض کریں گے۔ چنانچہ ہمارے ہوسٹل میں جتنے بھی فنکشن ہوئے، ہم نے ان کی کمیٹی ہمیشہ خود تشکیل دی اور ان لڑکوں نے بہت عمدگی سے اس ذمہ داری کو ادا کیا۔ اس وجہ سے ہمارے ہوسٹل میں ہونے والے پروگراموں کے معیار کو بہت سراہا گیا۔

دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ہر فنکشن کے بینر جمعیت کی طرف سے لگائے جاتے تھے۔ ہمارا اصرار تھا کہ اس میں سب طلبہ حصہ لیتے اور ادائیگی کرتے ہیں اس لیے کسی ایک تنظیم کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنا بینر لگائے۔ بالآخر اس بات پر سمجھوتہ ہوا کہ جمعیت والے کوئی بینر نہیں لگائیں گے لیکن ہم جمعیت کے ناظم کو بطور مہمان بلا لیں گے۔ فنکشن سے ایک دن پہلے مجھے چودھری صاحب کا فون آیا کہ آپ نے شیلڈیں دیکھی ہیں؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔ انھوں نے بتایا ان پر جمعیت کا انسگنیا بنا ہوا ہے۔

میں نے ہوسٹل کے ناظم کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ اس کا جواب تھا سب جگہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ میں نے کہا یہاں ایسے نہیں ہو گا۔ میں فنکشن ملتوی کرنے کا اعلان کرنے لگا ہوں اور یہ شیلڈیں دوبارہ بنیں گی۔ اس پر مذاکرات کا ایک طویل دور شروع ہو گیا لیکن ہم اپنی بات پر قائم رہے۔ رات ایک بجے کے قریب دو سینیر اساتذہ میرے پاس تشریف لائے اور مجھے بتایا کہ یہاں کی یہی روایت ہے اس لیے میں اس بات پر ضد نہ کروں۔ میں نے انھیں بتایا کہ یہ ایسی بات ہے جس پر میں نے طالب علم ہوتے ہوئے بھی کبھی سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔ اس لیے جس شیلڈ پر جمعیت کا انسگنیا ہو گا وہ سرکاری طور پر تقسیم نہیں کی جا سکتی؛ یہ غیر قانونی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ بالآخر اس بات پر سمجھوتہ ہوا کہ یہ شیلڈیں جمعیت والے خود تقسیم کریں گے اور ان پر اٹھنے والے اخراجات بھی خود ہی ادا کریں گے۔ اوروہ رقم ان سے وصول کی گئی تھی۔

ڈنر کے موقع پر ایک اور مسئلہ یہ پیش آیا کہ جمعیت نے کیمپس پر کوکا کولا اور پیپسی جیسے کافرانہ مشروبات پر پابندی عاید کر رکھی تھی۔ اس زمانے میں ایک “اسلامی مشروب” شینڈی کی سرپرستی کی جا رہی تھی اور کیمپس پر صرف اسی کی فروخت کی اجازت تھی۔ میں نے جمعیت والوں سے کہا کہ ڈنر کے موقع پر پیپسی یا کوک آئے گی ورنہ سادہ پانی پلایا جائے گا۔ میں شینڈی کی اجازت کسی صورت نہیں دوں گا۔ اگر طلبہ نے پوچھا تو میں بتا دوں گا کہ آپ نے منع کیا ہے۔ اس پر وہ کسی قدر پریشان ہوئے اور مجھے کہا کہ وہ مرکزی نظم سے پوچھ کر اگلی صبح جواب دیں گے۔

اگلی صبح انھوں نے بادل نخواستہ مجھے بتایا کہ آپ کوک یا پیپسی منگوا لیں ہم اس پر اعتراض نہیں کریں گے۔ ان کی تسلی کے لیے میں نے انھیں یقین دلایا کہ جمعیت کے مہمانوں کی تواضع کے لیے ہم شینڈی کا ایک کریٹ منگوا لیں گے۔ اس موقع پر کچھ طلبہ نے شرارت کی۔ جونہی ناظم جامعہ کی شینڈی ختم ہوتی وہ اسے ایک اور بوتل تھما دیتے۔ نہیں معلوم بعد میں اس کے پیٹ کا کیا حشر ہوا ہو گا۔ اگلے برس ہم نے لان کی تنگی کے پیش نظر مہمانوں کے کھانے کا بندوبست میس میں کیا۔ ایک لڑکے نے مجھے توجہ دلاتے ہوئے کہا سر دیکھیں سب جمعیت والے کوک پی رہے ہیں۔ کھانے کے بعد جب ہمارا فنکشن ابھی جاری تھا تو ایک بار پھر طلبہ کو کوک کی بوتلیں دی گئیں لیکن اس وقت ناظم صاحب نے سب طلبہ کے سامنے کوک پینےسے انکار کر دیا۔ ایک طالب علم کچھ بولنے لگا تو میں نے اسے اشارہ کیا کہ وہ ان کی احتیاط اور تقوی کے احترام میں خاموش رہے۔

اب آپ خود ہی سوچیے کہ ایک نیک صالح جماعت کی اصلاحی اور تبلیغی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے کو وہ غنڈہ گردی کیوں نہ کہیں۔ جمعیت کے کارکنان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے دینی فریضے پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ اگر وہ ایک دینی فریضے کی ادائیگی میں کچھ لوگوں کی منکرات پر تادیب یا سرزنش کرتے ہیں تو اس پروہ توقع رکھتے ہیں ان کی تحسین کی جانی چاہیے نہ کہ انھیں طعن و تشنیع کا ہدف بنایا جائے۔


اسی بارے میں

پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کی غنڈہ گردی بند کی جائے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).