شعیب منصور: ’ورنہ‘ بنانے میں توقعات سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا


فلم ورنہ

’ورنہ‘ میں مرکزی کردار اداکارہ ماہرہ خان نے ادا کیا ہے

پاکستان کے معروف فلمساز شعیب منصور نے بالآخر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں اپنی نئی فلم ‘ورنہ’ کے بارے میں توقعات سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک تحریری انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال محض اس فلم میں نہیں بلکہ ان کی ماضی کی دو فلموں میں بھی ایسی ہی تھی۔

‘اس مرتبہ یہ زیادہ رسکی تھا کیونکہ اس مرتبہ میں نے جان بوجھ کر ڈرامائی صورتوں میں جذبات کے اظہار کے لیے مغربی انداز اپنایا۔ یہ ظاہر تھا ہیروئن کی جانب سے اپنے والد کی موت پر مکمل خاموشی سے’۔

فلم ’ورنہ‘ کے بارے میں مزید پڑھیں

’ورنہ‘۔۔۔ سر پکڑ کر بیٹھیے

شعیب منصور اور ماہرہ کی ’ورنہ‘ کا انتظار

’ورنہ‘ کیا؟ سینسر بورڈ کو غصہ کیوں آتا ہے؟

‘ورنہ’ پر کی جانے والی تنقید کا انہوں نے براہ راست تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن انہوں نے اپنی سوچ اور کوشش کو واضح کرنے کوشش کی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ سماجی مسائل پر فلمیں بنانا کتنا اہم ہے، شعیب منصور کا کہنا تھا کہ یہ کسی بھی ڈائریکٹر کی ذاتی پسند یا ناپسند ہوتی ہے اور ایسا کوئی اصول نہیں کہ ہر ڈائریکٹر سماجی مسائل پر بات کرے۔

شعیب منصور کا کہنا ہے کہ ان کا مستقبل میں اس رجحان سے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

‘آرٹ فلموں کی بھی مختلف اقسام ہوتی ہیں اور میرا یہ ماننا ہے کہ ہر قسم کی فلم بننی چاہیے۔ جہاں تک میری بات ہے تو میں تفریحی فلم نہیں بنا سکتا ہوں۔ معنی خیز سینما میری پسند ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے فلمساز فارمولہ فلموں سے آگے بڑھیں۔

‘برِصغیر میں ایک ہی فلم میں کامیڈی، ایکشن، رومانس اور ڈرامہ ڈالا جاتا ہے۔ اسے تبدیل کرنا ہوگا جس کے لیے چند پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کو پہلا قدم اٹھانا ہوگا، اس خوف کے بغیر کہ ایسا کرنے سے انھیں معاشی نقصان برداشت کرنا ہوگا۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’میں اس کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہوں اور خوش قسمتی سے میں اکیلا نہیں ہوں۔ نوجوان فلم ساز جیسے کہ جامی، بلال لاشاری، مہرین جبار، سرمد کھوسٹ اور کچھ اور لوگ بھی، نئے طرز کی فلمیں بنا رہے ہیں اور یہ قابل تعریف عمل ہے‘۔

فلم ‘ورنہ’ کی کہانی کے بارے میں شعیب منصور کا کہنا تھا کہ اس کے پیچھے کوئی ایک واقعہ نہیں ہے لیکن ان کا کافی عرصے سے پاکستان میں ہر گھنٹے کھیلے جانے والے طاقت کے کھیل پر ایک فلم بنانے کا خیال تھا۔

فلم بول

شعیب منصور کی فلم ’بول‘ میں بھی ماہرہ خان نے کام کیا تھا

‘کراچی میں سال 2012 میں ایک بڑے وڈیرے کے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے اپنی بہن کو چھیڑنے کے الزام میں نوجوان شاہ زیب کو قتل کر دیا تھا۔ حکومت کی تمام مشینری شاہ رخ جتوئی کی حمایت میں کھڑی ہوگئی۔’

شعیب منصور نے کہا کہ اس کہانی سے بظاہر فلم کا کوئی تعلق نہیں لیکن اس کی وجہ سے ان کے اس عزم کو مزید تقویت ملی کہ وہ بتا سکیں کہ طاقت کا عام لوگوں کے خلاف غلط استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ فلم کی کہانی ریپ پر اس لیے بنائی گئی کیونکہ یہ عورت کے خلاف طاقت کے اظہار کا عام ترین طریقہ ہے۔

‘کئی لوگوں کی طرح میں بھی سمجھتا ہوں کہ ریپ جنسی بےراہروی سے زیادہ طاقت کا اظہار ہے’۔

پاکستانی سینما کے مستقبل کے بارے میں شعیب منصور کا کہنا ہے کہ وہ تابناک ہے۔

‘جن لوگوں کے نام میں نے لیے ہیں یہ مشعل آگے لے کر جائیں گے۔ یہ سب تربیت یافتہ، پیشہ ور فلمساز ہیں اور، وہ اسے ایک تحریک کی صورت میں آگے لے کر چلیں گے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp