شانتو بھٹیاری


 

پشاور کے طرف جاتے ہوئے جی ٹی روڈ پر ہمارا گائوں ہے ـ’’کالو خورد‘‘۔ کیونکہ ایک اور گائوں بھی اسی طرف ہے جس کا نام کالو کلاں ہے۔ نجانے اِس علاقے کے لوگوں کو لفظ کالو کیوں پسند ہے۔ امی بتاتی تھیں کہ یہ لفظ دراصل ’’قالو‘‘ ہے جو قرآن کا لفظ ہے اور جب ہمارے بزرگ عرب سے ملتان آئے پھر یہاں آکر آباد ہوئے تو انہوں نے گائوں کا نام ’’قالو‘‘رکھ دیا۔ مگر باقی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ’’کالو‘‘نامی ایک بزرگ کے نام پر ہے جس نے گائوں کو آباد کیا اور جس کی قبر بھی گائوں میں موجود ہے۔ واللہ علم! بہرحال بچپن میں سہیلیوں کو اپنے گائوں کا نام بتاتے ہوئے میں سوچتی کہ گائوں والے اس کا نام بدل کیوں نہیں لیتے اور کوئی خوبصورت سا نام کیوں نہیں رکھتے۔ مثلاً نورپور۔

بچپن میں ہم چھٹیوں کا بیتابی سے انتظار کرتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں چھٹیاں اپنے گائوں میں گذارنا ہوتی تھیں۔ بھائی کو تو اس بات کی خوشی ہوتی کہ اب اسے صبح سکول جانے کیلئے جلدی اٹھنا نہیں پڑے گا اور مجھے اپنی ایک خوشی سب خوشیوں پر بھاری لگتی کہ میں اپنی سہیلی شانتو سے ملوں گی۔

میں چھ ماہ تک شانتو کے لیے اپنے پرانے کپڑے اکٹھے کرتی بلکہ آتے وقت امی کی نظر بچا کر اُس گٹھڑی میں کچھ نئے کپڑے بھی رکھ لیتی۔ شانتو کو جو کپڑا زیادہ پسند آتا وہ اسی وقت پہن لیتی۔ اس کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر مجھے جو خوشی ہوتی وہ آج تک اپنے نئے اور قیمتی کپڑے پہن کر بھی نہیں ہوئی۔

 شانتو کا اصل نام سلامت جان تھا مگر کثرتِ استعمال سے شانتو ہوگیا تھا۔ وہ لوگ بھٹیارے تھے۔ بھٹی تپانے کے علاوہ اُن کا کام یہ بھی تھا کہ لوگوں کی شادیوں پر دلہن کو لانے کیلئے ڈولی لے کر جاتے۔ شانتو کے گھر بھی ایک ڈولی پڑی تھی مگر اب وہ اتنی پرانی ہوچکی تھی کہ اُس میں شانتو کا چھوٹا بھائی سویا کرتا تھا۔

یہ دونوں کام شانتو کے گھر والے اَب نہیں کرتے تھے کیونکہ شانتو کا باپ پردے کا بہت پابند تھا۔ جب کہ اُن کی باقی برادری میں اِس کا رواج نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اُن کے گھروں کی عورتیں برابر کا کام کرتی تھیں۔ شانتو کی ماں کو اتنی بھی اجازت نہ تھی کہ وہ برقع اوڑھ کر بھی کھیتوں سے بالن (سوکھی لکڑیاں اور تنکے) چن کر لاتی۔ چولہا جلانے کیلئے بالن شانتو لاتی۔ بھٹی بھی پردے کی وجہ سے اُن کے گھر نہ تپتی۔ نہ ہی شانتو کی ماں بیاہ شادیوں میں کسی کے گھر کام کر سکتی۔

سنا ہے شانتو کی ماں بہت خوبصورت ہوا کرتی تھی شادی سے پہلے۔ مگر اب تو اس کے چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ سی تھی وہ۔ اُس کے چہرے پر عجیب افسردگی سی ہر وقت طاری رہتی۔ میں نے اُسے کم ہی ہنستے دیکھا تھا۔ ہنستے وقت بھی لگتا کہ اُس کے چہرے کی وہی کیفیت ہے۔

شانتو کے گھر میں ایک ہی کمرہ تھا جہاں اُس کے ماں، باپ، چار بھائی اور دادی کے علاوہ ایک گدھا بھی ہوتا تھا۔ عجیب سی سٹراند آتی رہتی اُس کمرے سے۔

شانتو کا باپ افیمی تھا۔ مزدوری کیا کرتا تھا۔ کسی دن دیہاڑی لگتی اور کسی روز گھر میں ہی دیہاڑی لگتی۔ جس روز وہ گھر ہوتا اُس دن گھر کا عجیب نقشہ ہوتا۔ شانتو اور اس کی باقی بہن بھائی سہمے ہوتے بیٹھے ہوتے۔ اُن کی اتنی جرات نہ ہوتی کہ ماں سے پوچھتے کہ آج کھانا بھی پکے گا یا نہیں بلکہ پوچھنے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ آٹا پیسوں سے آتا ہے اور پیسے اُس روز کہاں۔

صرف ایک فرد اس گھر میں ایسا تھا کہ جو احتجاج کرنے کی ہمت کرتا اور وہ تھا شانتو کا ڈیڑھ سالہ بھائی۔ وہ اتنا کمزور تھا کہ جب روتا تو اُس کی پسلیاں اندر کو دھنس جاتیں۔ اُس کی پھٹی ہوئی قمیض میں سے ہمیشہ ہڈیاں نظر آتیں، زرد سا، پتلے پتلے نقوش والا اور ٹیڑھی ٹانگوں والا شا نتو کا بھائی۔ شانتو اُس کو بے تحاشا چوما کرتی اور گود میں اٹھائے پھرتی۔

اُس کا رونا شانتو کے باپ کو بہت برا لگتا اور وہ چیخ کر کہتا کہ کھلائو اس حرامی کو افیم کی ایک چٹکی اور بند کرو اس کا منہ۔ اُس روز شانتو کو بھی گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ ملتی۔ میں بھی زیادہ دیر اُس سہمے ہوئے ماحول میں نہ رہ سکتی اور گھر آجاتی۔

شانتو کی دادی ہمیشہ چارپائی پر لیٹی رہتی۔ نجانے کیا بیماری تھی اُس کو۔ چہرہ عجیب سا تھا۔ ہر قسم کے تاثرات سے عاری۔ سنا ہے وہ ایک ہی موقع پر خوش ہوتی تھی جب اُس کے اکلوتے بیٹے کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا تھا۔ شانتو اسے بہت بری لگتی، پہلوٹی کی لڑکی جو تھی۔

اُس کی برادری کی ایک عورت کہا کرتی تھی کہ اس عورت کے ’’ست ساہ‘‘ (لمبی عمر) ہیں کہ اتنی بیماری کے باوجود نہیں مرتی۔ مگر ایک روز وہ مرگئی اسی طرح چپ چاپ۔ بغیر دوا دارو کے۔

شانتو کے ساتھ میں کبھی کبھی سودا خریدنے جاتی۔ سودا کیا ہوتا۔ ایک آنے کی پتی کا پیکٹ جو دکاندار ایک لمبی تار میں سے شانتو کے دیکھتے ہی کھینچ کر اُس کے ہاتھ میں دے دیتا۔ آدھ پائو دودھ اور گڑ کی چار ڈھلیاں۔ یہ پورے دن کے استعمال کے لیے تھا۔ اُس کے بعد شانتو کیتلی اٹھائے لوگوں کے گھر لسی لینے نکل کھڑی ہوتی کہ دوپہر کی روٹی اُسی سے کھاتے تھے۔

اُس زمانے میں گائوں کے لوگوں کو دودھ بیچنے کا اتنا شوق نہ ہوتا تھا۔ اکثر لوگ روزانہ لسی، مکھن اپنے لیے رکھتے او ر باقی لسی دوسروں کو بانٹ دیتے۔ اب تو سنا ہے گائوں میں لسی ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ اب نجانے وہاں کے لوگ دوپہر کی روٹی کس سے کھاتے ہیں۔ شانتو کے گھر اس کے علاوہ ساگ پکتا اور کبھی کبھار کوئی سبزی یا دال۔ گوشت بھی ایک دن پکاتے وہ لوگ۔ بڑی عید والے دن۔

 شانتو جب کبھی اپنی ماں کو آواز دیتی تو دنیا جہان کا پیار اس کے اِس لفظ میں سمٹ آتا ’’بے بے‘‘۔ اُس کی ماں ہمیشہ جواب میں کہتی، مہور(لعنت )، نجانے کیوں؟ یوں تو شانتو اس کی ماں کو بھی اچھی نہ لگتی تھی۔ مگر جس روز شہر سے شانتو کی پھُپھی آتی تو شانتو کی شامت ہی آجاتی اور خاص طور پر اگر وہ غلطی سے کھانے کے وقت بغاوت کرتی یعنی ساگ کھانے سے پس و پیش کرتی تو شانتو کی پھپھی اپنی دھلی ہوئی ریشمی قمیض کے بازو چڑھا کر شانتو کی ماں سے کہتی کہ اُس نے بچوں کو کوئی تمیز نہیں سکھائی اور یہ کہہ کر وہ شانتو کو تمیز سکھانے لگتی، چارپائی سے باندھ کر وہ ساوی چھمک (سبز ٹہنی ) سے اس کو خوب مارتی۔ شانتو کے ماں دبے لفظوں میں احتجاج کرتی مگر اس کی پھپھی یہ کہہ کر اُسے چپ کرا دیتی کہ

 “یہ تمہارے اسی پیار کا نتیجہ ہے کہ یہ اتنی بگڑ گئی ہے۔ ”

شانتو اتنے زور زور سے روتی کہ ہمسائیوں کے گھر سے کسی کو آکر اُسکی ظالم پھپھی سے چھڑانا پڑتا۔

 ان دنوں کے علاوہ شانتو اور میں سارا دن کھیلتے رہتے۔ نجانے کیا باتیں ہوتی تھیں کہ دوپہر کا سونا بھی مجھے یاد نہ ہوتا۔ ہم سارا دن کڈکڑے لگاتے رہتے۔ اسی طرح شام ہو جاتی۔ امی سے ڈانٹ پڑتی کہ اس لڑکی کو پڑھائی بھی یاد نہیں ہے۔ یہ تو شانتو کے ساتھ شانتو ہوگئی ہے۔

شانتو درختوں پر بڑی آسانی سے چڑھ جاتی۔ ایک دن میں بھی اُس کی نقل میں بیری پر چڑھ گئی۔ اپنی دھن میں کافی اوپر پہنچ گئی۔ اوپر پہنچتے ہی احساس ہوا کہ اب نیچے اترنا اپنے بس میں نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیری کے کاٹنے بھی چبھنے لگے۔ میں شور مچانے لگی۔ شانتو نیچے کھڑی ہنس رہی تھی اور ساتھ ساتھ وہ بیر کھا رہی تھی میں نے اوپر سے اپنے لیے پھینکے تھے۔ مجھے پہلی دفعہ وہ بہت بری لگی۔ میں نے رونا شروع کر دیا تو وہ سہارا دے کر مجھے نیچے اتار لائی۔

شانتو مجھے ہمیشہ فخر سے بتایا کرتی کہ آگ کے ساتھ اس کی دوستی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اُسے کچھ نہیں کہتی۔ ثبوت کے طور پر وہ انگارے اپنی ہتھیلی پر رکھ کر کافی دیر تک اچھالتی رہتی۔ میں اُس کے اس ہنر پر بہت حیران ہوتی۔ ایک روز میں نے بھی دیکھا دیکھی ایک انگارہ ہتھیلی پر ر کھ لیا۔ سخت جلن ہوئی اور آبلہ پڑ گیا۔ میں اس کو شہر کے عجیب و غریب قصے سناتی جن میں سے زیادہ من گھڑت ہوتے۔ اُس زمانے میں سوراخ والا پیسہ گورنمنٹ نے ختم کیا تھا۔ میں نے شانتو کو بتایا کہ شہر میں لوگوں کے پاس اتنے پیسے تھے کہ لوگوں نے گھروں سے باہر پھینک دئیے تھے اور ہر گھر کے آگے اُن پیسوں کے بڑے بڑے ڈھیر لگ گئے تھے۔ شانتو کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور پہلی بار اُس نے میرے ساتھ شہر جانے کی خواہش ظاہر کی۔

شانتو کو جب میں اپنے گھر لے کر آتی تو وہ ہماری دہلیز پر آکر رُک جاتی اور اندر جھانکتی رہتی۔ سب گھر والوں کو اُس کی یہ عادت بہت بری لگتی۔ میں اُسے اندر گھسیٹتی تو وہ بڑی مشکل سے اندر آنے پر آمادہ ہوتی،وہ بھی چند لمحوں کے لیے۔ اس نے کبھی مجھ سے کچھ نہیں مانگا تھا۔ مگر ایک روز میں فیوز ہوا بلب پھینکنے لگی تو وہ کہنے لگی کہ میں اس کو دے دوں۔ میں نے دے دیا مگر دل میں حیران سی ہوئی کہ ان کے گھر بجلی نہیں تھی۔ ویسے بھی فیوز ہوا بلب تو جلتا بھی نہیں ہے۔ اگلے روز میں نے دیکھا کہ وہ بلب ’ان کے کمرے کے کارنس کے اوپر پرانے گلدان کے ساتھ سجاوٹ کے طور پر لٹکا ہوا تھا۔

ایک بار جب میں چھٹیوں میں گھر آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ شانتو تو پردہ کرنے لگی ہے اور وہ اب گھر سے باہر نہیں نکلتی۔ میں اُس سے ملنے کے لیے سخت بے چین تھی۔ جونہی میں گھر سے باہر نکلنے لگی تو نانی جان نے مجھے سخت سرزنش کی کہ اب میں بڑی ہو گئی ہوں اور میرا گلیوں میں پھرنا ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن میں اپنی سہیلی شانتو کو دیکھے بغیر کیسے رہ سکتی تھی۔

میں چُھپ چُھپ کر اس کے گھر پہنچ گئی۔ وہ سر پر دوپٹہ اوڑھے اپنی ماہواری کے گندے کپڑے دھو رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ بیتابی سے میری طرف دوڑی۔ مجھے اچانک اُس کے ہاتھوں کے گندے ہونے کا احساس ہوا اور میں پیچھے ہٹ گئی۔ وہ بھی شاید سمجھ گئی اور کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہوئے ہاتھ دھونے لگی۔

پھر میں میڈیکل کالج میں پہنچ گئی۔ اب تو جب میں گائوں آتی تو موٹی موٹی کتابوں کے ساتھ وقت گذرتا۔ ایک روز معلوم ہوا کہ شانتو کی منگنی ہوگئی ہے ایک ٹانگے والے کے ساتھ، وہ بھی شانتو کے باپ کی طرح افیمی ہے۔ پھر سُنا کہ وہ منگنی کے بعد نظر ہی نہیں آیا۔ اِس لیے پھپھی نے اس کی بات کسی مولوی سے طے کر دی ہے۔

پھر ایک روز سنا کہ شانتو کی شادی ہو رہی ہے۔ کسی نے مجھے آکر بتایا کہ اُس کی شادی والے دن عجیب قصہ ہوا۔ دو باراتیں آگئیں۔ ٹانگے والے نے بھی کہیں سے شانتو کی شادی کا سن لیا تھا وہ بھی بارات لے کر پہنچ گیا۔ اُس نے خوب شور مچایا کہ شانتو اُس کی منگ ہے اور اسے کوئی دوسرا نہیں لے جا سکتا۔ بڑی مشکل سے بیچ بچا ہوا اور شانتو کا نکاح مولوی سے پڑھا دیا گیا۔

شادی کے ساتویں دن وہ میکے آئی۔ گائوں کی رسم کے مطابق سب سہیلیاں دلہن کو ملنے جاتی ہیں۔ اُس روز میرے اندر نجانے کیا ہلچل مچی کہ میں بیتابی سے اٹھی، چادر اوڑھی، کام کرنے والی عورت کو ساتھ لیا اور شانتو کے گھر چل پڑی۔

مجھے دیکھتے ہی شانتو کے چہرے پر عجیب مرعوبیت سی چھا گئی، وہ آگے بڑھ کر مجھے ملنے کی بجائے چارپائی پر چادر بچھانے لگ گئی۔

جس طرح کسی عزیز کے بچھڑنے کے وقت اداسی چھا جاتی ہے میرے دل کی ویسی کیفیت ہوگئی۔ میں چپ چاپ چارپائی پر بیٹھ گئی۔ اس روز پہلی دفعہ میں نے شانتو کے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے پی، چینی والی چائے۔

 جب میں اٹھنے لگی تو شانتو نے مجھے بیٹھنے کو کہا مگر نجانے اس کا وہ بے تکلفانہ انداز کہاں گیا تھا کہ جس کی وجہ سے میں گھنٹوں اس کے گھر بیٹھی رہتی تھی۔ وہ شاید مجھے ڈاکٹر سمجھنے لگی تھی۔

مجھ سے مزید وہاں نہیں بیٹھا گیا۔ اٹھتے وقت میں نے جو جملہ بولا، مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ جُملہ کیسے میرے منہ سے نکلا۔

“سلامت جان، کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا”

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi