مدارس کے مائیکل جیکسن مولوی


میرے سامنے اس وقت ایک کم عمر لڑکے کی تصویر ہے جس نے اپنا چہرہ ماں کی آغوش میں چھپا رکھا ہے۔ ماں کے ہاتھ بچے کے سر پر ٹوٹنے والے آسمان کو تھامنے کی ناکام کوشش میں ہیں۔ کلسی ہوئی زندگی میں غربت سے زیادہ بے بسی عیاں ہے۔ دونوں سسک رہے ہیں۔ لیکن، یہ کس کو رو رہے ہیں! ماں تو شاید اس ساعت کو رو رہی ہے جب وہ اس معصوم کو دنیا میں لانے کی گناہ گار بنی تھی اور بچہ یقیناً انھی مولویوں کے چہرے یاد کرنے میں غلطاں ہے جنہوں نے گرہن لگایا بھی تو اس کو، جو کبھی چاند تھا ہی نہیں؟ یہ تو نتیجہ تھا چند لمحوں کی غفلت کا، باپ کی بے کاری کا، ماں کی بچہ جننے کی صلاحیت کا، کم علمی اور نادانی کا۔ اخلاقی قدروں کے آگے مولوی کا ہاون دستہ ہمیشہ سے فتح یاب ہوتا چلا آیا ہے۔ سڑکوں پر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ڈنڈے برسانے والے، دینی شعائر کے لیے جانیں لٹانے کا دعوی رکھنے والے، سماج کو اسلامی انقلاب سے رنگنے کا بیڑا اٹھانے والے، عقیدے کے پاسبان گردانے جانے والے مولویوں کی اکثریت جب معاشرے کے زخموں پر نمک پاشی کر کے مدرسوں کو لوٹتی ہے، تو یہی دعویٰ پارسائی ان کے گھر کی لونڈی بن جاتا ہے۔ اور لونڈیوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے، یہ مذہب کے ان ٹھیکے داروں سے زیادہ تو کوئی جان ہی نہیں سکتا۔

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی مدارس میں تیزی سے ابھرتا ہوا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں رجسٹرڈ بائیس ہزار مدارس میں پڑھنے والے بچوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ اکثر غربت سے تنگ آکر والدین اپنے بچے مدرسوں کو سونپ دیتے ہیں جہاں عموماً بلامعاوضہ قرآن کی تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ رہائش، کھانے اور لباس جیسی بنیادی ضروریات پوری کرنے کا وعدہ بھی کیا جاتا ہے۔ والدین کے لیے اپنے دگرگوں حالات سے نمٹنے کا اس سے بہتر حل کوئی نہیں ہوتا، لہذا وہ اپنا بوجھ مدارس کے حوالے کرکے اس وقت کے انتظار میں چین سے بیٹھ جاتے ہیں جب بیٹا جوان ہو کر گھر لوٹے گا اور ان کو پالے گا۔

ان بچوں کو مدارس میں معمولی معمولی لغزشوں پر جسمانی ہی نہیں بلکہ جنسی سزائیں دیے جانے کا گھناؤنا چلن عام ہوچکا ہے۔ ظلم کا شکار بچوں کو جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر زبان بند کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ ان کا بچپن اور معصومیت نچوڑ کر مدارس میں کون سا مذہب کشید کیا جاتا ہے، یہ تو خدا ہی جانے۔ دنیا تو بس یہ جانتی ہے کہ بچپن داغ دار کروا کے مدرسے کی تعلیم سے فارغ ہوکر نکلنے والا بچہ مذہب کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا لگانے کو خود ایسا ہی ایک مولوی بن جاتا ہے۔ یہ معاملہ نہایت سنگین ہے، لیکن زبان کون کھولے گا؟ چیخے گا کون؟ اور پھر ایسے معاشرے میں سنے گا بھی کون، جہاں مولوی اندھی طاقت کی علامت ہو اور عوام اندھے اور گونگے مقلد ہوں۔ آواز اٹھانے والوں کو بہت آسانی سے موت کی نیند سلا دیا جاتا ہو۔ توہین مذہب کا الزام لگا کر یا کچھ نہیں تو مرتد ہی قرار دے کر مولوی اپنے بدلے کی آگ کو ٹھنڈا کر لیں گے۔ چنگاری لگا کر ایک طرف بیٹھ کر صرف تماشا دیکھیں گے، باقی کا سارا کام تو عقل بیچ کر کھا جانے والے عوام خود ہی کر لیں گے، کیوں کہ دین کی خدمت کرنے کا ایسا شان دار موقع بار بار نصیب ہی کہاں ہو تا ہے!

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں وہ بدترین سال بھی دیکھے گئے جب سالانہ چار سو سے پانچ سو بچوں کا مدارس میں مولویوں کے ہاتھوں ریپ ہوا۔ لیکن کس کو پتا چلا؟ کہاں احتجاج ہوا؟ کس تھانے میں پرچہ کٹا؟ کتنے مولویوں کو سزا ملی؟ کتنے مدارس کی رجسٹریشن منسوخ ہوئی؟ سب سے اہم بات تو یہ کہ کتنے متاثرہ بچوں کے خاندان والے اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے؟ چند ایک جو اٹھے بھی، ان کا مقدر تو تھانے کچہریوں میں ہی رُل گیا۔ اس ملک کے نظام انصاف کے ہاتھوں وہ خواری اور ذلت انہوں نے اٹھائی جسے دیکھ کر دیگر مظلوموں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے، اور انصاف کی آس لٹا کر خود کو معمول کی زندگی میں مصروف کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ رہا۔

اہم سوال تو یہ ہے کہ ان مولویوں کے پاس اتنی طاقت آئی کہاں سے؟ اتنا با اختیار انہیں بنا کس نے دیا؟ کون سی قوتیں ان کی پشت پناہ ہیں؟ پاکستان میں اسکولوں سے زیادہ مدارس بننے کی وجوہات کیا ہیں؟ اور سب سے اہم تو یہ کہ والدین کو کب یہ شعور آئے گا کہ جو انہوں نے پیدا کر دیے ہیں وہ کُتے اور بِلّی کے بچے نہیں ہیں کہ انہیں کبھی شاہ دولہ کے چوہے بنانے کے لیے کسی مزار کو سونپ دیا جائے، کبھی جنسی ہوس کی تسکین کے لیے ایسے مولویوں کے حوالے کر دیا جائے جو اس معاملے میں بدنام ہیں یا کبھی جن اتارنے کے لیے کسی عامل سے ان کی درگت بنوائی جائے۔

مولویوں کے ہاتھوں ریپ کا شکار بچوں کے بارے میں پڑھتے پڑھتے مجھے نہ جانے کیوں مائیکل جیکسن یاد آگیا۔ جی ہاں وہی مائیکل جیکسن جسے امریکی قوم نے ہی نہیں پوری دنیا نے پلکوں پر بٹھایا تھا۔ جس کے لائیو کنسرٹ کے لیے لوگ شدت سے انتطار کرتے تھے۔ اس کی گائیکی پربے اختیار ہوکر تھرکتے، جھومتے، ساتھ ساتھ گاتے۔ عالمی سطح پر وہ کون سی کامیابیاں تھیں جو اس نے سمیٹی نہیں، لیکن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا اسکینڈل اس کو لے ڈوبا۔ جس سرزمین سے مائیکل جیکسن کی شہرت کا سورج چڑھا، وہیں اس کو سر سے اتار کر عدالت اور قید خانے کے راستے دکھا دیے گئے۔ انسانیت کو اس کے فن سے برتر قرار دیا گیا۔

اس اسکینڈل سے اس کی ساکھ اور مالی حالت بہت خراب ہو گئی جس سے دلبرداشتہ ہو کر اس نے موسیقی کی دنیا سے ایک خاص وقت کے لیے کنارہ کر لیا۔ بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات نے اس کی مقبولیت میں واضح کمی کردی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں بچوں کے ساتھ ظلم اور جبر کی کوئی بھی صورت قبول ہی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن افسوس ہمارے ملک میں اس کی بھی کوئی شنوائی نہیں ہے۔ قومی سطح ان واقعات کو نظرانداز کرکے بہت بڑی معاشرتی آفت کو دعوت دی جا رہی ہے۔ ریاست اور مدارس اپنی ذمہ داری تو نہ جانے کب ادا کریں گے، کریں گے بھی یا نہیں، لیکن میری گزارش تو والدین سے ہے کہ اپنے بچوں کو تربیت کے لیے کسی کے بھی حوالے کرنے سے بہتر ہے کہ انہیں اپنے پاس رکھ کر سنوار لیں۔ بچے صرف اپنے لیے پیدا کریں، اور فقط اتنے جو آپ خود پال سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).