داعش کی دہشت اور لبیک تحریک ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں


مصر کی ایک مسجد میں 235 افراد کا قتل اس بات کا انتباہ ہے کہ دنیا میں دہشت گردی ایک نئی اور خطرناک صورت اختیار کر رہی ہے۔ شام اور عراق میں دولت اسلامیہ کی شکست اور پاک فوج کی طرف سے دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے ختم کر دینے کے دعوؤں کے باوجود یہ واضح ہو رہا ہے کہ عقیدہ، مسلک اور مذہبی سیاسی نظریات کی بنیاد پر نفرتوں اور ان نفرتوں کو انجام تک پہچانے کےلئے انسانوں کا خون بہانے کا رویہ شدید ہو رہا ہے۔ مصر کے صحرائے سینائی کی جس مسجد پر حملہ کرکے دو سو سے زائد لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے، اس کا تعلق صوفی مسلک رکھنے والے مسلمانوں سے بتایا جا رہا ہے۔ اسی علاقے میں داعش کے زیر اثر منظم ہونے والے گروہ ایسے عقائد رکھنے والے کو ’’شرک پھیلانے والا‘‘ قرار دیتے ہیں اور ماضی میں بھی صوفی مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملے کرتے رہے ہیں۔ فی الوقت سینائی کی مسجد الرعدۃ پر حملہ کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی لیکن اس میں داعش کے ملوث ہونے کا شبہ طاہر کیا جا رہا ہے۔ اس المناک تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان دوستی اور رواداری پر مبنی صوفی اسلام کو ماننے والے بریلوی مکتبہ فکر کے لوگ گزشتہ 17 روز سے اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ وہ نہ صرف وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ اپنے مقاصد کےلئے جانیں قربان کرنے کا اعلان بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ اعلان حکومت اور مملکت کے نظام سے تصادم اور بغاوت کا اعلان ہے۔

سینائی کے حملہ آوروں کی طرح فیض آباد کا دھرنا دینے والے بھی مسلکی بنیادوں پر شدت آمیز رویہ کا پرچار کرتے ہیں۔ دونوں کے نظریات اور عقائد مختلف ہو سکتے ہیں لیکن دونوں مسلمان گروہ ہیں اور دونوں درحقیقت سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہی رویہ دراصل دہشت گردی کو جنم دیتا ہے اور بعض گروہ دوسرے عقیدہ و خیال سے تعلق رکھنے والوں کو ہلاک کرنا ضروری خیال کرنے لگتے ہیں۔ داعش نے گزشتہ چند برس کے دوران مسلمان ملکوں کے علاوہ امریکہ اور مغربی ممالک میں مذہبی عقائد کی بنیاد پر دھماکوں اور خود کش حملوں کا آغاز کیا ہے۔ 2014 میں شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر کے خلافت قائم کرنے اعلان کیا گیا۔ لیکن اسلامی ریاست میں اس رحم، شفقت، محبت، قبولیت، احترام اور انسان کی قدر و قیمت کا کوئی نمونہ دیکھنے کو نہیں ملا جس کا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے کر آئے تھے۔ اس کے برعکس داعش کے لیڈروں اور اس کے جنگجوؤں نے انسان دشمنی، بربریت اور وحشت کی المناک مثالیں قائم کیں۔ دوسرے عقائد اور مسالک کے لوگوں کو قتل کرنا جائز قرار دیا گیا اور ان علاقوں سے اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یا تو اپنے گھروں کو چھوڑا پڑا یا انہیں ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور سے داعش نے یزیدی عقیدہ کے لوگوں کے ساتھ جو سلوک کیا اور ان کی خواتین کو جس طرح منڈیاں لگا کر بیچا اس سے قرون وسطیٰ کی وہ مکروہ روایت زندہ کی گئی جسے ختم کرنے کےلئے پیغمبر اسلام کی رہنمائی کے بعد مسلسل کام ہوتا رہا تھا۔

پاکستان میں خوں ریزی کو مباح قرار دینے والی لبیک تحریک کے لیڈر بھی دراصل اسی راستے کی طرف گامزن دکھائی دیتے ہیں جو داعش نے اختیار کیا تھا۔ داعش نے ابتدائی طور پر عراق میں شیعہ افراد کو ہلاک کرنے سے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا اور وہ بدستور اس دعویٰ پر قائم ہے کہ ان کے بیان کردہ اسلام کے علاوہ کوئی عقیدہ درست نہیں ہے۔ اور ایسے کسی بھی مسلک پر عمل کرنے والے لوگوں کو ہلاک کرنا جائز ہے۔ یہ گروہ صرف مسلمانوں کے مختلف العقیدہ لوگوں کا ہی دشمن نہیں ہے بلکہ اس نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف بھی جنگ کا آغاز کیا تھا۔ حالانکہ ابتدائی جنگ جوئی کے نتیجہ میں داعش کو شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر دسترس حاصل ہو گئی تھی۔ اگر وہ درحقیقت دین کے کسی الوہی پیغام کو عام کرنے کے خواہشمند ہوتے اور اسلام کو ایک مثالی معاشرہ تعمیر کرنے والا مذہب ثابت کرنا ہی ان کا مطمح نظر ہوتا تو ان کے پاس یہ نادر موقع تھا۔ ان کے پاس مالی وسائل تھے، وسیع علاقہ ان کے زیر نگیں تھا اور مسلمانوں کے ایک طبقہ کو وہ اپنے پروپیگنڈا کے ذریعے متاثر بھی کر چکے تھے۔ اسی لئے یورپ کے متعدد ممالک سے نوجوان مسلمان بڑی تعداد میں داعش کے زیر نگیں علاقوں میں آ گئے تھے۔ لیکن ان صلاحیتوں کو تعمیر کے لئے صرف کرنے کی بجائے داعش نے تخرب اور تباہی کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اسلامی ریاست قائم کرنے کا موقع ملنے کے باوجود ایسا معاشرہ پیدا کرنے میں ناکام ہوئے جو انسانوں کےلئے مثال کے طور پر پیش کیا جاتا۔ یا جسے دنیا میں جمہوری نظام کا قابل قبول متبادل سمجھا جا سکتا۔ ان کے رویہ نے صرف یہ ثابت کیا کہ مذہبی شدت پسند، سیاسی اقتدار تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ سیاسی معاملات طے کرنےاور انسانوں سے مساوی سلوک کرنے والا منصفانہ معاشرہ تعمیر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس طرح وہ اس خیال کو تقویت فراہم کرنے کا سبب بنے کہ ریاستی اور معاشرتی امور میں مذہب کی مداخلت نہ انصاف فراہم کر سکتی ہے اور ہی نہ امن کی راہ ہموار کرتی ہے۔

لبیک تحریک کے قائدین دوسری طرح کی شدت پسندی کا پرچار کرکے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس گروہ کے لیڈر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ 2018 کے انتخابات میں بھرپور حصہ لے کر ملک میں حکومت بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنے اس ارادے کی تکمیل کےلئے ملک کے مروجہ پرامن ذرائع اختیار کرتے اور عدالتوں اور ملکی قانون کا احترام کرنے کی روایت کو سامنے لاتے تو ان کے نظریات سے اختلاف کے باوجود ان کے اس جمہوری حق سے انکار ممکن نہیں تھا۔ لیکن فیض آباد میں ایک غیر واضح اور بے بنیاد معاملہ کو عذر بنا کر دھرنا دیا گیا ہے۔ لاکھوں شہریوں کی زندگی اجیرن کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس اجتماع میں تقریریں کرتے ہوئے جو لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے اور اپنے مسلک کی سربلندی کےلئے جو قدم اٹھانے کے عزائم بتائے گئے ہیں ۔۔۔۔۔ ان پر چلتے ہوئے یہ گروہ بھی مستقبل میں داعش ہی کی ایک شکل اختیار کر سکتا ہے۔ کیونکہ اس گروہ کے لیڈر اپنے سیاسی عزائم ظاہر کرنے کے علاوہ یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ ان کے پاس نہ عقل و شعور ہے اور نہ وہ امور حکومت و مملکت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ مذہب کی جذباتی تشریح اور نعرے بازی کے ذریعے بعض لوگوں کو گمراہ کرکے تشدد اور قانون شکنی پر اکسانے کے علاوہ کوئی سماجی یا سیاسی خدمت سرانجام دینے کی صلاحیت سے قطعی محروم ہیں۔

اس گروہ کا یہ مکروہ چہرہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے گروہوں کے مقابلے میں صوفی اسلام کو اعتدال کا راستہ بتانے والے ماہرین اور دانشوروں کےلئے بھی شدید مایوسی کا سبب بنا ہے۔ عام طور سے یہ قیاس کیا جاتا تھا کہ سلفی عقائد شدت پسندی اور عقائد کی رجعت پسندانہ تشریح پر یقین رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تشدد اور زبردستی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اسلام کے اس روپ کی نمائندگی کرنے والوں نے انسانوں کے قتل کو جائز قرار دیا کیونکہ اس طرح انہیں شہرت اور توجہ حاصل ہوتی تھی۔ ان کےلئے یہ دراصل پروپیگنڈا کی جنگ تھی جس کے ذریعے وہ زیادہ سے زیادہ مسلمان نوجوانوں کو متاثر کرکے اپنی قوت میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔ اس کے برعکس صوفی مسلک کے ماننے والوں کے بارے میں قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ وہ محبت اور وسیع المشربی کا درس دیتے ہیں اور سب مسالک اور عقائد کے ساتھ شیر و شکر ہونے کی روایت کے امین ہیں۔ فیض آباد میں دھرنے نے اس سوچ کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ صوفی مسلک کے ماننے والے اپنی طرز کی شدت پسندی کو عام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی جب داعش جیسے رویے اختیار کریں گے تو اس مقصد کی تکمیل کےلئے ہتھیار اٹھاتے بھی دیر نہیں لگے گی۔

داعش ہو یا لبیک تحریک، ان کے لیڈروں کے عزائم میں انا پرستی، ذاتی شہرت اور طاقت کا حصول اور سیاسی مقاصد کی تکمیل شامل ہوتے ہیں۔ داعش کے تجربہ سے ہم سیکھ چکے ہیں کہ جب ایسے ارادے رکھنے والے گروہ کو ریاستیں اور بااثر لوگ اپنے اثر و رسوخ یا مقاصد کی تکمیل کےلئے آلہ کار بناتی ہیں تو وہ یہ مقصد تو حاصل نہیں کر سکتیں لیکن اس کے نتیجے میں ایسے خونخوار لوگوں کو ضرور طاقت ملتی ہے جو انسانوں کو قتل کرکے اہمیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شام اور عراق میں داعش کو عملی طور پر شکست دینے کے باوجود اس گروہ کی گمراہ کرنے کی صلاحیت کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس کا ایک مظاہرہ آج صحرائے سینائی کی دور دراز مسجد میں انسانوں کے خون سے ہولی کھیل کر کیا گیا ہے۔ اسی قسم کے نعروں کی گونج گزشتہ اڑھائی ہفتوں سے اسلام آباد کی فضاؤں میں سنائی دے رہی ہے۔ پاکستان کے معاملات میں دسترس رکھنے والی سب قوتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ نیا گروہ بھی اگر منظم ہونے اور قوت پکڑنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ مزید اہمیت حاصل کرنے اور مطالبات منوانے کےلئے تحریک طالبان پاکستان یا داعش کا ہی دوسرا روپ بن کر سامنے آئے گا۔

پاکستان میں ابھرنے والی انارکی کی اس تصویر کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں سامنے آنے والی سیاسی تقسیم بھی قابل توجہ ہے جو دراصل مذہبی گروہوں کو آلہ کار بنانے اور طاقت فراہم کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اس کے مظاہر شام، عراق اور یمن میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسے میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کو مشرق وسطیٰ کا ہٹلر قرار دیا ہے۔ ایک مسلک کے رہنما کے بارے میں ایسا تند و تیز لب و لہجہ اگرچہ علاقے میں اثر و رسوخ کی جنگ کا حصہ ہے لیکن اس سے مسلمانوں کے مختلف گروہوں اور عقائد کے ماننے والوں کے درمیان محاذ آرائی کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ سعودی رہنما ہوں یا ایرانی رہنما یا ان کا تعلق کسی دوسرے ملک سے ہو، انہیں غور کرنا چاہئے کہ ان کی پالیسیوں کے نتیجہ میں اگر عقیدہ و مذہب کو ہتھیار بنایا جائے گا تو اس سے سوائے خوں ریزی اور تشدد کے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔

ماضی میں ایسے ہی مقاصد حاصل کرنے کےلئے مختلف مذہبی گروہوں کو متحارب ممالک نے پراکسی وار میں استعمال کیا۔ اب بھی اگر یہ رویہ ترک نہ کیا گیا تو مسلمانوں کا خون مسجد الرعدۃ کے بعد دیگر عبادت گاہوں، شہروں اور گلیوں میں بھی بہایا جاتا رہے گا اور دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کو دہشت اور تشدد کی علامت کے طور پر متعارف کروایا جاتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali