کہانیوں پہ یقین کرو، زیادہ موج ہو گی!


اچھا خاصا ہمیں معلوم تھا کہ بھئی زمین کے بہت نیچے ایک بیل کھڑا ہے ، اس کے دو سینگ ہیں اور وہ دونوں زمین کو بیلنس کیے رکھتے ہیں۔ وہ جب تھک جاتا ہے تو تھوڑا ہلتا جلتا ہے ، سینگوں کی جگہ بدلنا چاہتا ہے ، اب جو زمین ایک سینگ سے دوسرے سینگ پر ٹکانے لگتا ہے تو اس بیچ ادھر زلزلہ آ جاتا ہے ۔ زمین ٹکی نہیں اور بھونچال ختم۔ سادہ سی بات تھی، لاجک سمجھ بھی آتی تھی، بیل کس نے جا کے چیک کرنا تھا۔ پھر معلوم ہوا کہ نہیں یہ زمین کے نیچے ، بہت نیچے ، گہرے سمندروں کے بھی نیچے کوئی چٹانوں کی طرح کی پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں، رگڑ کھاتی ہیں تو اس ایک دو منٹ کے عمل میں اوپر تباہی پھر جاتی ہے اور اصل میں یہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے زلزلہ آتا ہے ۔ او کے ، ٹھیک ہو گیا۔

چاند پر داغ نظر آتا تھا، روز صحن میں چارپائی بچھتی اور سونے کا سین سٹارٹ ہوتا تو دادی کہانی وغیرہ بھی سنایا کرتیں۔ کئی دفعہ ان سے پوچھا کہ وہ کیا ہے چاند میں گڈھا سا، وہ یہی کہتیں کہ چندا وہاں ایک بڑھیا بیٹھی ہے اور چرخہ چلاتی رہتی ہے ۔ پھر دادی سے چرخے کی ڈیفینیشن پوچھی جاتی تو اور مزے مزے کی کہانیاں بیچ میں آ جاتیں، وہ اپنے بچپن کا ذکر کرنے لگتیں، ناگ پور میں کپاس کی فیکٹریوں اور پتہ نہیں کہاں کہاں سے روٹ بنتا چلا جاتا اور سفر چاند کی منزل مارنے لگتا تو بچے ہمیشہ سو چکے ہوتے تھے ۔ بچے اس جسٹی فکیشن پر مطمئن تھے ! بالکل راضی تھے ، انہیں کوئی ٹینشن نہیں تھی کہ یار جائیں جا کر واقعی میں پتہ لگائیں کہ یہ بڑھیا ہے بھی یا نہیں ہے ، بس دادی نے کہہ دیا کہ ہے تو ہے ، انہیں ان کی اماں نے کہا ہو گا اور ان کی اماں کو کسی اور بزرگ نے بتایا ہو گا، جب اتنی ٹائم ٹیسٹڈ بات ہے تو اس کی جانچ پرکھ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یقین کرو اور سو رہو۔

ابھی کل پرسوں ایک جگہ پڑھا کہ ریل کی پٹڑی پر سکہ رکھا جائے اور ٹرین اوپر سے گزر جائے تو وہ کم بخت مقناطیس نہیں بنتا، بس چپٹا ہو جائے گا اور کچھ بن سکتا ہے تو پولیس کیس بن سکتا ہے کہ تخریب کاری کا ارادہ تھا اور چلتی گاڑی الٹانے کا پروگرام تھا۔ قسم بہ خدا بڑی مایوسی ہوئی۔ چھتیس برس اگر غور نہیں کیا اور یہ متھ ایسے ہی قائم دائم تھی تو پتہ نہیں کیوں ایسے بیدردی سے اسے بھی لکھنے والے نے توڑ ڈالا۔ کئی برسوں تک یہ فینٹیسی ہوتی تھی کہ یار کبھی سٹیشن جائیں گے اور پٹڑی پہ دس پیسے کا سکہ رکھ کے ضرور دیکھنا ہے کہ مقناطیس کتنا پاور فل بنتا ہے ۔ بھینس پوری کی پوری پانی میں چلی گئی۔ ایک اور خواب ادھورا رہ گیا۔

ہم لوگ جب کھانا کھاتے ہیں تو کبھی حساب نہیں رکھتے کہ ہائیڈروجن کے دو اور آکسیجن کے ایک مالیکیول سے بنا پانی پی رہے ہیں تو اندر جا کر کیسے اس کے مالیکیول ٹوٹیں گے ۔ سوڈیم اور کلورائیڈ کے ملنے سے تیار ہونے والا نمک کھایا تو وہ پانی والے ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ساتھ کیا سر مارے گا۔ بارہ کاربن، بائیس ہائیڈروجن اور گیارہ آکسیجن کے ایٹموں سے بنی چینی جو ہے وہ چائے میں کتنی ڈالنی ہے کہ ذائقہ اپنے مطلب کا ہو جائے ۔ جتنا بھی سنکی آدمی ہو کھاتے وقت شاید ہی یہ سوچ کسی کے دماغ میں آئے ۔ نہ چلتے ہوئے کوئی دیوانہ اپنی اناٹومی پہ غور کر رہا ہوتا ہے کہ یار اگر میری واک ہو رہی ہے تو کتنی ہڈیاں حرکت کر رہی ہیں، اگر میں ہاتھ ہلائے بغیر چلوں تو شاید اوپر کے جسم میں ہڈیوں کی رگڑ کچھ کم ہو جائے ، ان کی لائف بڑھ جائے ، کیوں سوچے گا، بالکل نہیں سوچے گا۔ گاڑی چلاتے ہوئے انجن کی ساخت اور پرزوں پہ غور نہیں کرتے ، گھر میں اگے پودوں کے فوٹو سیتھ یسس کو نہیں پرکھتے تو بھائی، ہر چیز میں عقل کو زحمت دینے کی ضرورت کیا ہے ؟ بلکہ کیوں ہے ؟

اگر زندگی سے سادگی غائب ہو جائے ، دیومالائی، سپرنیچرل یا عجیب و غریب باتیں چھین لی جائیں، الٹے سیدھے خوش ہونے کے مواقع نہ رہیں، سارا وقت علم بگھارنے پر زور دیا جائے ، ہر وہ بات جو عقل میں نہ سمائے اسے جہالت کہہ دیا جائے ، جذبات پر دلائل کو برتری حاصل ہو جائے تو پوری کائنات کے رنگ آدھے بھی نہیں رہ جاتے ۔ جو دماغ موٹی باتیں سوچتا ہے اور چھوٹی خوشیوں میں خوش رہتا ہے اسے زبردستی الجبرا پڑھائے جائے گا تو اس کے ساتھ ظلم ہے عین اسی طرح ہر انسان کی زندگی میں موجود چھوٹی چھوٹی کلچرل چیزوں، توہمات اور دیو مالائی کہانیوں کو اگر آہستہ آہستہ نکال دیا جائے گا، انہیں پنپنے کے مواقع نہیں ملیں گے تو بے چینی، خالی پن اور آخر میں سالڈ تشدد جنم لے گا۔

اگر کوئی بچہ آ کر بتائے کہ اس نے کیاری میں پھول کے پاس ایک پری دیکھی تھی تو ماننے میں کوئی حرج نہیں، اگر اسے منع کیا جائے گا کہ ابے گدھے، بھاگ جاؤ یہاں سے ، کوئی پری شری نہیں ہوتی، سب کہانیاں ہیں تو گدھا بھاگ تو جائے گا لیکن اس کا ننھا سا دماغ کبھی مانے گا نہیں، اس کا اصل ولن ساری عمر وہی رہے گا جس نے ڈانٹا تھا۔ اسی طرح اگر کوئی بزرگ کوئی پینڈو دوست کبھی کسی پیر کی کرامتیں سنا دے یا کوئی مافوق الفطرت واقعہ بیان کرے تو اسے ٹوک کر اور اس کی سائنس کو درست کرنے سے ہمیں کیا سکون حاصل ہو جائے گا؟ اگر وہ بے ضرر سی بات ہے تو بہتر ہے کہ اس کی ہاں میں ہاں ملائی جائے اور اسے وہ لمحہ انجوائے کرنے دیا جائے ۔ یہی رویہ کسی ایک جگہ رہنے والے دوسروں کے عقاید کے لیے بھی اپنا سکتے ہیں۔ جب تک کوئی دوسرے انسان کو تنگ نہیں کر رہا دوسرا اسے کیوں چھیڑے ۔ آپ کیوں ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ سامنے والے کا فلاں واقعہ نری کہانی ہے اور اس کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں۔
زنداں نامہ کے دیباچے میں سجاد ظہیر لکھتے ہیں، “فیض کی ان نظموں کو مجموعی حیثیت سے دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک ان اقدار کا تعلق ہے ، جن کو شاعر نے ان میں پیش کیا ہے ، وہ تو وہی ہیں جو اس زمانے میں تمام ترقی پسند انسانیت کی اقدار ہیں، لیکن فیض نے ان کو اتنی خوبی سے اپنایا ہے کہ وہ نہ تو ہماری تہذیب و تمدن کی بہترین روایات سے الگ نظر آتی ہیں اور نہ شاعر کی انفرادیت، اس کا نرم شیریں اور مترنم انداز کلام کہیں بھی ان سے جدا ہوا ہے ۔” یعنی ترقی پسندوں کے خیالات کی پریزینٹیشن میں کوئی ایسا چکر موجود تھا جسے وہ خود بھی سمجھتے تھے کہ ہماری تہذیبی روایات سے لگا نہیں کھاتا۔ کوئی دوسری رائے نہیں کہ فیض صاحب نے وہ تمام باتیں ایسے کہہ دیں جس طرح کہنے کا حق تھا لیکن ہر کوئی فیض نہیں بن پایا، نتیجہ کیا نکلا کہ وہ ذہن جو زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا، وہ اس تحریک سے ڈیٹیچ ہوتا چلا گیا۔

اس وقت جتنی بنیاد پرستی اور تشدد ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے اس کے پیچھے ایک بڑا فیکٹر کمیونسٹ تحریک کا شدت سے اٹھنا اور بتدریج ناکام ہونا ہے ۔ بھٹو دور کے آخری برسوں میں جتنے بھی اقدامات ہوئے وہ بائیں بازو کی اٹھائی منطقی بحثوں کا ردعمل تھے ۔ یہ ہونا ہی تھے ، اس لیے کہ فکری طور پر جو تربیت پہلے وہ لوگ کیا کرتے تھے اس کی جگہ دائیں بازو والے آ گئے ۔ سکولوں میں، کالجوں میں ہر جگہ ان کا ہولڈ تھا۔ اگر پہلے والے نصابی سوچ کو رد کرنے میں انتہا پر تھے تو یہ لوگ اپنی جگہ پر شدت پسند تھے ۔ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے لیکن اس کے نتیجے میں جس سوچ کو فروغ ملا وہ یہ تھی کہ ہم اپنے قلعے سے اٹھیں اور پوری دنیا پر چھا جائیں۔ اسی چکر میں پورے جوش و جذبے کے ساتھ ہم روس کے خلاف افغان جنگ کے شریک ہوئے ، وہاں سے فراغت ملی تو ہم پورے مغرب کے خلاف ہو گئے ، ساری دنیا ہمیں اپنے خلاف سازشیں کرتی نظر آنے لگی اور اب تو شاید کرنے بھی لگی ہے ۔ وہ کسی عقلمند نے کہا بھی تھا کہ جب آپ پوری سنجیدگی سے کچھ حاصل کرنا چاہیں تو کائنات کی ہر قوت اس خواہش کے حصول میں آپ کے ساتھ شریک ہو جاتی ہے اور وہ چیز مل کر رہتی ہے ۔ تو بھئی جو کمانا تھا وہ تو کما لیا، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں کہانیاں زیادہ راس تھیں یا خالص پن کے چکر میں ہر چیز رد کرنا ہمارے لیے بہتر ہوا؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain