ایف آئی آر نمبر 671/17


ایف آئی آر نمبر 671/17 وہ ایف آئی آر ہے جو والدین کی طرف سے جمع کروائی جاتی ہے اور پھر والدین ہی اس کو خارج کروانے کی سعی میں لگ جاتے ہیں۔ ایف آئی آر نمبر 671/17 وہ قسم ہے جس میں مقصد سزا نہیں راضی نامہ ہوتا ہے۔ ایف آئی آر نمبر 671/17 جب داخل کی جاتی تو سانحے کی نشاندہی کرتی ہے اور جب خارج ہوتی ہے تو مجبوری کی داستان بیان کرتی ہے۔ ایف آئی آر نمبر 671/17ایف آئی آر کی وہ قسم ہے جس میں ایف آئی آرکروانے والا بھی سولی پر لٹکا رہتا ہے۔ یہ نظام کی کمزوری کا پتہ دیتی ہے۔ ہماری بے حسی دلیل بنتی ہے۔

سولہ نومبر کو سیالکوٹ کی تحصیل سنبھڑیال میں ایک روح فرسا واقعہ ہوا۔ گورنمنٹ اسپیشل ایجوکیشن اسکول سنبھڑیال کی بس طلبہ وطالبات کو اسکول سے واپس لا رہی تھی۔ یہ پنجاب اسپیشل ایجوکیشن کا ایک بہتر اسکول ہے۔ سول اسپتال سنبھڑیال سے چند قدم آگے ہی اس کی عمارت ہے۔ جو کشادہ اور نہایت صاف ستھری ہے۔ بورڈ بھی واضح لگا ہوا ہے۔ طلبہ و طالبات یونیفارم کی پابندی بھی کرتے ہیں۔یہ اسکول بچوں کو میٹرک تک تعلیم مہیا کرتا ہے۔ زیادہ تر بچے سماعت و گویائی سے محروم ہیں۔ اس اسکول کی پرنسپل کا نام رفعت جمیل ہے جو اس شعبے میں ایک نیک نام اور رحم دل خاتون آفیسر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ وقوعے کے روز بس کو ڈرائیور مختار چلا رہا تھا اور کنڈیکٹری مظہر حسین کے سپرد تھی۔ سوشل میڈیا پر ایک وڈیو سامنے آئی جس میںکنڈیکٹر مظہر حسین بچوں پر تشدد کرتے دیکھا گیا ہے۔اس نے پہلے ساتویں جماعت کی بچی نمرا سے بستہ چھین کر اسے دھکا دیا پھر اس کے ساتھ کی سیٹ پر بیٹھی بچی صبا کے منہ پر تھپڑ مارنے کی کوشش بھی کی اسی وڈیو کلپ کے دوسرے حصے میں وہ طالبعلم فیاض کی جانب بڑھا۔ اس کو تشدد کا نشانہ بنایا اور مار پیٹ بھی کی۔معذور طالبعلم فیاض اور کنڈیکٹر مظہر حسین کی دھینگا مشتی پر یہ وڈیو ختم ہو جاتی ہے۔یہ وڈیو دراصل دو مختلف دنوں کی ریکارڈنگ پر مشتمل ہے اس لئے کہ ایک ہی کنڈیکٹر مختلف لباس میں بچوں کے ساتھ تشدد کر رہا ہے۔بس میں زیادہ تر طلبہ و طالبات قوت سماعت و گویائی سے محروم ہیں اور اس وڈیو میںمعذور بچے کنڈیکٹر کے بہیمانہ رویئے کو دیکھ کر خوف سے چیخ رہے ہیں۔ یہ وڈیو جب سوشل میڈیا پر آئی تو پہلے اسے لاہور کا قصہ بتایا گیا پھر پتہ چلا کہ یہ واقعہ سنبھڑیال کا ہے ۔ سارے میڈیا میں طوفان مچ گیا ۔اسسٹنٹ کمشنر توقیر الیاس نے نوٹس لیا اور سیکرٹری ایجوکیشن نے فوری طورپر پرنسپل ، ڈرائیور اور کنڈیکٹر کو معطل کر دیا۔ پرنسپل صا حبہ کو بھی تھانے لے جایا گیا مگر کچھ دیر بعد گھر بھیج دیا گیا ۔ واقعہ کی فوری طور پر ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ اس واقعہ پر پنجاب کے وزیر برائے اسپیشل ایجوکیشن چوہدری شفیق کا بیان بھی سامنے آیا ۔ان کا تعلق سائوتھ پنجاب سے ہے ۔وزیر موصوف اس سے پہلے انڈسٹریز کے وزیر تھے پھر جانے کسی سزا کے طور پر ان کو اسپیشل ایجوکیشن کا وزیر بنا دیا گیا۔ جنہوں نے اس واقعہ کی مذمت نہیں کی بلکہ ایک ٹی وی پر بتایا کہ کنڈیکٹر بچوں پر تشدد نہیں کر رہا تھا بلکہ ان کو بٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔بالکل اسی طرح کا واقعہ چار اکتوبر دو ہزار سترہ کو لاہور میںپیش آیا۔ تب اسکول گنگ محل گلبرگ نمبر دو لاہور کا تھا۔ اور اس وقت کنڈیکٹر عثمان اور اکرام شاہ نے بچوں پر تشدد کیا تھا۔ دونوں کو گرفتار کر لیا گیا اور ایف آئی آر بھی درج کر دی گئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ایف آئی آر کو بچوں کے والدین نے واپس لے لیا تھا۔گر صرف قانون سازی کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہر دفعہ والدین جانے کس مجبوری میں ایسی ایف آئی آر کو واپس لے لیتے ہیں ۔جس طرح غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے پرچہ واپس نہیں لیا جا سکتا اسی طرح معذور افراد کی ایف آئی آر کی قانون سازی کی بھی ضرورت ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایسا واقعہ جب میڈیا میں آتا ہے طوفان مچ جاتا ہے۔ جب گرد تھمتی تو پتہ چلتا ہے والدین کا سب سے بڑا نقصان ہو اہے۔ معذور بچوں کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا ہے۔ اسکول والے انتقام لیتے ہیں۔ گھر وں میں کوئی سہولت ہوتی نہیں ہے ایسے میں جو چند گھنٹے سکون کے نصیب ہوتے تھے وہ بھی ہاتھ سے جاتے ہیں ۔ پھر معذور بچوں کے والدین تھانے جاتے ہیں ، ناکردہ گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور ایف آئی آر واپس لیتے ہیں۔ کہانی وہیں پر ختم ہوتی ہے جہاں سے شروع ہوئی ہوتی ہے۔

معذور افراد میرے لئے بہت جذباتی موضوع ہیں ۔ لیکن میں پوری کوشش کروں گا کہ اس موضوع کو غیرجذباتی انداز میں زیر بحث لائوں ۔ معذور افراد کی پورے پاکستان میں حالت ابتر ہے۔ یہ موضوع صوبوں کا نہیں لیکن مختلف صوبوں میں اس ابتری کی صورت حال مختلف ہے۔ مندرجہ بالا واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پنجاب میں اسکول بھی اچھے ہیں ۔ اسکولوں میں بسیں بھی ہیں ان کے لئے کنڈیکٹر بھی ہیں اور ڈرائیور بھی۔ صرف کنڈیکٹروں کی تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ معاملات اتنے حساس ہیں کہ ان بچوں کے آنے جانے کی ذمہ داری ہم صرف ایک درجہ چہارم کے ملازم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ یا تو کسی ٹرینڈ ٹیچر کو اس بس میں ساتھ جانا چاہیے یا پھر کنڈیکٹرز کی تربیت کا انتظام ہونا چاہئے۔یہ واقعات تسلسل سے ہونے کی وجہ تربیت کی کمی ہے اور اس کا فوری سدباب ہو نا چاہئے۔
آپ سب کو اس بات کا علم ہو گا کہ اس ملک میں معذور افراد کے سب اعداد و شمار غلط ہیں۔مردم شماری میں بھی یہ گنتی نہیں ہو سکی۔ کہا یہ گیا تھا کہ اس مقصد کیلئے ایک فارم دوبارہ بھرا جائے گا لیکن اس کی نوبت کبھی نہیں آئے گی۔ہم اندھیرے میں ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔درست منصوبہ بندی نہیں کر سکیں گے۔ معذور افراد کو ہمیشہ معاشرے کے منفی رویئے کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ لیکن اگر وہ پڑھ لکھ کر ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو معاشرے کا یہ رویہ مثبت ہو جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے تعلیم کا حصول انتہائی اہم ہے۔ آپ کو شاید علم ہو پورے کے پی میں معذور افراد کے لئے ایک بھی اسکول میٹرک تک نہیں ہے۔ سلیبس بھی پنجاب سے جاتا ہے۔ سندھ میں حالات بہتر ہیں اس کی وجہ کچھ سماجی تنظیمیں ہیں جنہوں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔پنجاب حکومت کا پروجیکٹ خدمت کارڈ ایک بہت اچھا پروجیکٹ تھا لیکن بہت دنوں سے اس کی کوئی خبر نہیں سنائی دی ۔ بلوچستان کے معذور افراد کے بارے میں درست معلومات انکے اسپیشل ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے پاس بھی نہیں۔ اس معاملے پر جتنی محنت اور چھان بین کی ضرورت ہے اتنا کام نہیں کیا جاتا۔ ساری دنیا میں جب ان بچوں کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ سازی ہوتی ہے تو ان بچوں کے والدین، عزیز و اقارب کو اس فیصلہ سازی کا حصہ بنایا جاتا ہے۔سرکاری عہدے بھی ان بچوں کے اقارب کی مشاورت سے دیئے جاتے ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو سنبھڑیال والے واقعہ میں دو افراد کا قصور ہے۔ ایک تو کنڈیکٹر اور دوسرا وزیر موصوف جن کو جانے کس بات کے شاخسانے پرا سپیشل ایجوکیشن کی وزارت دے دی گئی۔ جو اس بہیمانہ ظلم کو تشدد ماننے سے منکر ہو گئے۔ ہماری دعا ہے کہ کوئی کنڈیکٹر انکے بچوں سے بھی اسی شفقت سے بس میں بیٹھنے کی ضد کرے تو انکو پتہ چلے کہ ماں باپ کے کلیجے پرچوٹ کیسے لگتی ہے۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سزا کے طور پر بنائے جانے والے منسٹر اکثر اپنی لاعلمی اور جہالت کی بنا پر معذور بچوں کے لئے سزا بن جاتے ہیں۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar