مذہبی حمیت کب خطرے میں پڑتی ہے؟


آئیے مذہبی حمیت پر کھل کر بات کر ہی لیں۔ اب ایسا ہے کہ محبت اور عشق پر کسی کی اجارہ داری تو ہے نہیں۔  دلوں میں جھانک لینے والی ایم آر آئی مشین ابھی ایجاد ہوئی نہیں اور نہ ہی نیت ماپنے والا بیرومیٹر کسی نے بنایا ہے۔ تو نیک نیتی اور پاک دل کے فیصلے ایک طرف رکھتے ہیں بس عمل کی دنیا پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں تاکہ پتہ چل جائے کہ عاشقان دین کے دل پر سچ میں چوٹ  لگتی کب ہے۔ حمیت کب کانچ کے گلدان کی طرح لرزتی ہے کہ ہاتھ اسے تھامنے بے تاب ہو جاتے ہیں۔ سازش کا  ڈول کون سے کنویں میں ڈالا جاتا ہے۔ محافظوں کی آنکھ کب کھلتی ہے اور سرفروشی کی تمنا کیونکر سر پر کفن کی صورت بندھتی ہے۔

سائنس اور فلسفہ دونوں ایک اصول استعمال کرتے ہیں جسے اوکم ریزر کہا جاتا ہے۔ اس کی رو سے  کسی بھی مظہر کی اگر بہت سی تشریحات موجود ہوں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ سادہ ترین تشریح ہی درست ہوگی۔ ہم یہ جان چکے ہیں کہ ملک ضیاداد میں حمیت اسلامی خطرے میں ہے اور ہزاروں پروانے مذہب پر نثار ہونے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ جان دینے کے بجائے یہ پروانے جان لینے کے لیے زیادہ مضطرب ہیں پر چھوڑیے، کون دلاں دیاں جانے ہو (یاد رہے کہ دلاں میں د پر زیر ہے – یہ وضاحت اس لئے ضروری سمجھی گئی کہ ہمارے زیر زبر پیش بتانے والے عالم فاضل اس وقت منہ پر ماسک لگائے بیٹھے ہیں)۔ ہم تو سادہ تشریحات کی بات کرتے ہیں۔ ایک اور سائنسی اصول کے تحت اگر آپ ایک ایک کر کے تشریحات کو رد کرتے چلے جائیں تو آخر میں بچ رہنے والی تشریح ہی درست ہو گی۔ تو آئیے ان ساری تشریحات کا جائزہ لیتے ہیں جس سے حمیت اسلامی پر حرف آنے کا امکان ہو سکتا تھا یا ہے۔ ظاہر ہے محافظان مذہب ہر اس عمل پر باہر نکلے ہوں گے، دھرنا دیا ہوگا، اپنی جانیں نچھاور کی ہوں گی جس سےامت نے مذہب کی عزت میں کمی کا گناہ کیا ہوگا۔ غلام آقا کے حکم سے روگردانی کرے، اس سے بڑھ کر باعث تشویش اور کیا ہو سکتا ہے۔

حضورؐ نے جھوٹ بولنے سے منع کیا پر اس ملک میں ہر شخص حتی المقدور ہمہ وقت جھوٹ بولتا ہے۔ مقتدر حلقوں کے نمائندے ہوں یا منبر و محراب کے پاسبان، کوئی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ حضورؐ کے اس فرمان کے انکار سے کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انکاری حضورؐ کی عزت کرنے سے ہی منکر ہے کہ ان کے ایک سادہ حکم کی پاسداری بھی ان کو قبول نہیں۔ لیکن ستر سال میں کسی نے چونکہ اس حوالے سے نہ کوئی ریلی نکالی نہ دھرنا دیا اس لیے اس تشریح کو مسترد کر کے آگے چلتے ہیں۔ جھوٹ بولنے سے حضورؐ کی اور حضورؐ کے احکام کی آبرو پر کوئی فرق نہیں آتا۔

حضورؐ کو ملاوٹ ناپسند  تھی پر بظاہر دودھ میں زہریلے کیمیکل ملانے، خوراک میں اینٹوں کا برادہ شامل کرنے، جعلی دوائیاں بنانے، پھلوں پر رنگ کرنے اور مردار کا گوشت بیچنے سے بھی حضورؐ کی عزت میں کوئی کمی نہیں ہوتی نہ ہی یہ ان کے واضح احکامات کا انکار سمجھا جاتا ہے۔

حضورؐ رشوت سے نفرت کرتے تھے اور رشوت کا بازار گرم کرنے والے کو جہنم کی وعید انہی کے توسط سے پہنچی پر ہر دفتر، ہر چوک، ہر بازار میں رشوت لیتے اہلکار بھی شاید ان کی اس نفرت سے واقف نہیں ہیں یا ان کا جہنم پر اعتبار نہیں۔ دونوں صورتوں میں ان کی یہ روش کسی بھی طرح آبروئے امت کی نفی نہیں سمجھی جا سکتی

حضورؐ بیٹیوں سے محبت کرتے تھے۔ عورتوں  کی عزت، عورتوں کے حقوق اور عورتوں کے احترام کے حوالے سے حدیث کے دفتر کے دفتر ہیں پر بچیوں کو ماں کے پیٹ میں مار دینا، قرآن سے بہنوں اور بیٹیوں کی شادی کرنا، گھر کی عورتوں کا ونی اور سوارا کرنا، غیرت کے نام پر عورتوں کو زندہ دفن کرنا، جائیداد میں بہنوں کا حصہ غصب کر جانا، گلیوں میں بچیوں کو برہنہ پھرانا اور پنچایت کے فیصلوں پر ملزم کے گھر کی عورتوں کی اجتماعی عصمت دری کرنا شاید ان احادیث سے غیر متعلق ہے اس لیے ان سے بھی ناموس دین کو جوڑا نہیں جا سکتا۔

حضورؐ پاکیزہ اخلاقیات کے داعی تھے۔ نجانے وہ کیا سوچتے جب ہر روز نوعمر بچیوں اور بچوں کے ریپ کی خبر سنتے، جب بازار میں اوباشوں کو سیٹیاں بجاتے دیکھتے، جب لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے باہر لفنگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ ان کے مشاہدے میں آتے، جب جنسی ہراسانی کو جنس ارزاں کی طرح عام  اور  گالم گلوچ اور مغلظات کو نہ صرف روزمرہ کا چلن بلکہ منبر کی شان بڑھانے کے آلات کی صورت پاتے۔ حضورؐ کے متوالوں کے لیے ان باتوں میں سے کچھ بھی اتنا قابل اعتراض نہیں ہے کہ اس سے ان کے آقاؐ کی شان پر حرف آتا ہو۔

حضورؐ صفائی کو نصف ایمان جانتے تھے۔ ابلتے ہوئے گٹر، گلیوں میں لگے کچرے کے ڈھیر، غلاظت سے اٹے پانی کے ذخائراور ہر سو گندگی پھیلاتے ان کے امتی پتہ نہیں ایمان کے کون سے درجے ہر فائز قرار پاتے پر ایمان کی اس کمی کا بھی شاید حضورؐ کی عزت سے کوئی واسطہ نہیں سمجھا جاتا۔ امتی غلیظ ہوئے تو کیا ہوا، بقیہ آدھا ایمان تو رکھتے ہیں۔

حضورؐ نے ایک بے گناہ کے قتل کو انسانیت کا قتل سمجھا پر بازاروں میں بم دھماکے میں بکھرے اجسام، مسجدوں اور عبادت گاہوں میں گولیاں کھاتے نمازی، شناختی کارڈ سے پہچانے جانے والے شیعہ مقتول، خدوخال پر تہہ تیغ ہونے والے ہزارے اور عقیدے کی تفہیم کی سولی چڑھتے احمدیوں کو شاید کوئی بے گناہ نہیں سمجھتا وگرنہ پوری انسانیت کو قتل کر دینے والے لشکروں اور جماعتوں کے ترجمانوں اور سربراہوں کے خلاف بھی ناموس دین کے محافظ کسی دن سینہ سپر ہوتے

تو سندھ میں زبردستی مسلمان کی جانے والی لڑکیاں ہوں، اینٹوں کے بھٹوں میں غلام بنے خاندان کے خاندان ہوں، جھوٹے بہتان اور الزامات کے شکار جیل کی سلاخوں کے پیچھے سسکتے قیدی ہوں، پولیو سے معذور ہوتے بچے ہوں، تھر میں پیاس اور بھوک سے ہارتی زندگیاں ہوں، تشدد کا نشانہ بنتی بیویاں ہوں، بازار میں فروخت ہونے والے بچے ہوں، زہر کھا کر خودکشیاں کرنے والے خاندان ہوں، ان سب سے ناموس دین کے پہرے داروں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اس میں سے کسی عمل سے امت مرحومہ کا نام بدنام نہیں ہوتا۔ ان میں سے کوئی خبر رسول اللہ کے پیروکاروں کے طرز زندگی کا حوالہ نہیں بنتی۔ یہ سب ہوتا رہے۔ یہ تماشا جاری رہے، یہ کھیل یوں ہی رچتے رہیں، اس سے نہ حضورؐ کے کسی حکم کا انکار ہوتا ہے نہ ان کی کسی تعلیم سے روگردانی اور نہ ہی اس سے ان کی عزت پر کوئی انگلی اٹھتی ہے۔ تو آخر میں سادہ ترین تشریح یہ بچی کہ  حلف کو اقرار یا اقرار کو حلف کہہ دیا جائے تو ناموس مذہب کو ایسا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے کہ اس کے لیے جان لے لی جائے یا دے دی جائے تو بالکل جائز ہے۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad