میرا عقیدہ کیا ہے؟


میں کون ہوں؟ میرا عقیدہ کیا ہے؟ ہر شخص اپنے بارے میں ان دو سوالوں کے تسلی بخش جواب دے سکتا ہے۔ اور اس جواب پر یقین بھی کیا جاتا ہے۔ مگر مجھے یہ آزادی حاصل نہیں؟ پوچھئے کیوں! جناب اس لیے کہ میرا نام سیدہ تحسین فاطمہ ہے۔ مجھ سے پہلی بار میرے عقیدے کے بارے میں جب پوچھا گیا تو میری عمر دس گیارہ سال کے درمیان ہو گی۔ نارتھ ناظم آباد کے کاسموپولیٹن اسکول کی چھٹی جماعت کی وہ معصوم سی طالبہ جسے گھر میں نماز روزے کی تاکید کے ساتھ بس یہ سکھایا گیا تھا کہ کسی کو تکلیف نہ دینا۔ تمیز کو اپنا شعار بنانا۔

بچوں کی کتابوں کی دنیا میں جینے والی اس لڑکی کو اب ایک انوکھے سوال کا سامنا تھا۔ پوچھنے والے اس کے ہم عمر تھے۔ ”تم شیعہ ہو نا؟” ہاں یا نہ کے بجائے میرے منھ سے نکلا کیوں؟ تم سید ہو نا۔۔۔۔تو؟ پھر جو کچھ سنا، اس نے داستان امیر حمزہ کے عمرو عیار، افراسیاب بادشاہ، ملکہ حیرت، عالی پر کیا گزری، محمود پر کیا بیتی۔۔۔۔ سب کو بھلا دیا۔

وہ دن ہے اور آج کا دن، میں نے اتنی بار اس سوال کا سامنا کیا ہے کہ اب اس سے ڈر بھی نہیں لگتا۔ اس وقت بھی نہیں لگا جب مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے ہزاروں لوگ دینی فریضہ انجام دیتے ہوئے مجھے ‘ الف ننگی’ گالیاں دے رہے تھے۔ میرا قصور صرف یہ تھا کہ میں اس ایف ایم چینل پر نیوز ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ تھی، جس سے رات کے کسی تفریحی پروگرام میں مولانا فضل الرحمان کی پیروڈی کی گئی تھی۔ جس سے میرا کوئی تعلق تھا اور نہ ہی مجھے اس پیروڈی کے نشر ہونے کی خبر تھی۔ کوئی مولانا صاحب میرے ذاتی نمبر پر میرے ناکردہ گناہ کی تفصیل بتا رہے تھے کہ میں۔۔۔۔ میں نے رسان سے انھیں سمجھانا چاہا کہ میرا اس پروگرام سے کوئی تعلق نہیں ہے تو وہ نہیں مانے۔ بار بار سمجھانے پر جب وہ باز نہیں آئے تو میں نے بھی سچ بولنا مناسب سمجھا اور انھیں بتایا کہ چینل سے نشر ہونے والا پروگرام علمائے کرام کے خلاف نہیں بلکہ سیاست دانوں سے “چھیڑ چلی جائے” کے ضمن میں آتا ہے۔ لہذا مولانا کو بھی اسے برداشت کرنا چاہئیے۔ جواب آیا، بالکل گالی دینے کے لہجے میں۔۔۔۔ ہاں ہاں تمہارا تو کوئی نقوی، کوئی جعفری عالم ہوگا، تمہیں علمائے کرام کے بارے میں کیا پتا ہو گا۔۔۔۔ یعنی میرا عقیدہ اپنی مرضی سے طے کر لیا گیا اوراس کے بعد اگلے دو دن میں ساڑھے چار سو غلیظ ایس ایم ایس بھگتے، جانے کتنے فون جو رنڈی کے لفظ سے شروع ہوتے تھے اور سارے ان سنے فحش لفظ انتہائی نفرت سے کہے جاتے تھے۔ مولانا کی جماعت سے بار بار رابطہ کیا۔ ہر بار ایک ہی جواب ملا، جی ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آخر تیسرے دن خیر چھوڑئیے کسی طرح وہ قصہ بھی نمٹ ہی گیا۔۔۔۔۔ مولانا کے تربیت یافتہ دینداروں کی دینداری کی تکلیف اتنی نہیں جتنی یہ فکر کہ میرے عقیدے کو جس کا جی چاہتا ہے اپنی مرضی سے طے کر کے اپنی نفرت کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔۔ گو کہ میں صرف نام کی شیعہ ہوں ، اور اگر فی الواقع ہوتی تو کسی کو کیا۔۔۔ کیا شیعہ ہونا جرم ہے؟ ایسا جرم جس کی سزا غلاظت زدہ ذہنوں سے ابلنے والی نفرت کی سڑاند کو سہنا ہے۔

اب تو میں بھی مان گئی ہوں کہ میرا نام مسلمانوں جیسا نہیں، شیعہ سنی کے خانوں میں منقسم ہے۔ میں کیا ہوں، میرا عقیدہ کیا ہے، یہ میرا ذاتی معاملہ کیوں نہیں ہے؟

یہ ایک درد کافی نہیں تھا۔ مجھے پھر ایک عقیدے سے منسوب کر دیا گیا اب کے میرا عقیدہ میرے مرحوم شوہر کے عقیدے سے جوڑ دیا گیا۔ نہ کوئی مجھ سے پوچھتا ہے اور اگر پوچھ بھی لیا جائے تو میں کیوں ان زمینی خداؤں کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کروں۔ شیعہ ہوں تو کسی کو کیا اور جو نہیں ہوں تو کسی کو کیا۔۔۔۔۔۔۔ میرا مذہب میرا ذاتی معاملہ کیوں نہیں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).