سائنس، جعلی سائنس اور لاسائنس میں سرحدی تنازعات


سائنس اور جعلی سائنس کے درمیان فرق پر ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کا چشم کشا مضمون نظر سے گزرا۔ میں سائنسی تحقیق کے تناظر میں مزاجاً محترمہ ڈاکٹر صاحبہ سے کُلی طور پر متفق ہوں، لہٰذا مجھےان کا مضمون مشاہداتی اور عملی اعتبارات سے بہت متوازن معلوم ہوا۔ لیکن اپنی عادت سے مجبور، ایک نظری تناظر میں کسی حد تک شدید تشنگی محسوس ہوئی۔ تیسری دنیا کے تمام تر تقدیری سمجھوتوں کے ساتھ سائنسی تحقیق سے ایک عملی اور تاریخ و فلسفۂ سائنس سے ایک شوقیہ تعلق رکھتے ہوئے راقم کی عاجزانہ رائے یہی ہے کہ یہ ایک نہیں، کئی مسائل ہیں جو باہم گنجلک تو ہیں لیکن ساتھ ہی ایک ایسی قدرِ مشترک رکھتے ہیں جو سائنس کی تعریف، اس کے دائرۂ کار اور اس کے ذریعے پیدا ہونے والے ثقافتی رجحانات سے متعلق ہے۔ اس تناظر میں سائنس، جعلی سائنس اور لاسائنس کے درمیان سرحدی تنازعات کا مسئلہ جسے فلسفۂ سائنس کے عُرف میں ’’حدبندی کا مسئلہ‘‘ (Demarcation Problem) کہا جاتا ہے مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کسی نہ کسی حد تک عام فہم انداز میں اس مسئلے کو متعارف کروانے کا حق ادا کر دیا ہے، لیکن اپنے جیسے قارئین کی تشنگی مٹانے کے لئے اگر اردو میں اس اہم مسئلے کا ایک بنیادی خاکہ سامنے آ جائے تو شاید تعین کے ساتھ مزید سوالات اٹھانے میں آسانی ہو۔

جیسا کہ ڈاکٹر صاحبہ نے ذکر کیا، یہ ایک ایسا علمی مسئلہ ہے جس کے ایک سے زیادہ معاشرتی پہلو ہیں۔ تیسری دنیا، خاص طور پر برصغیر میں ایک مقامی سائنسی روایت نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاشرتی مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں کیوں کہ سائنس کا تدریسی تناظر لازمی طور پر جزواً ایک اجنبی ثقافت سے مانگے کا ہے۔ مزیدبرآں ہندوستان کے برعکس پاکستان میں مقامی مصنفین کی کُتب کا خلا اس قدرگہرا اور معیار اتنا خراب ہے کہ پروفیسر ہودبھائی جیسی توانا اور اُمید افزا آوازیں پھی برملا اس بات کا اظہار کر چکی ہیں پاکستان میں سائنس کی نصابی کُتب لکھنے کا منصوبہ بالکل ترک کر کے مغربی ممالک کی اچھی کتابوں پر انحصار کیا جائے۔ اردو میں سائنسی زبان و اسلوب پر ان کی گرفت قابلِ تقلید اور حیران کن ہے اور وہ کم از کم تین دہائیوں سےسائنس کی تدریس و تعارف کافریضہ مسلسل نبھاتے آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فی الحال توان جیسے عظیم اور تجربہ کار استاد کی تجویز سے اتفاق کئے بغیر چارا نہیں۔

دوسرا مسئلہ ایک طرف تو ان قدامت پسندثقافتی رجحانات کا ہے جو عمداً سائنس، جعلی سائنس اور طلسم و دیومالا میں حدبندیاں مٹانے پر تلے ہیں تاکہ اپنا اپنا نظریاتی دھندا اور من چاہے نظریات کی فروخت کا عمل جاری رکھا جا سکے، جب کہ دوسری طرف وہ عجیب و غریب تخریبی عناصر ہیں جو سائنسی روایت سے ماورا کسی اور ہی سطح پر دلچسپ لطیفے بازی میں مصروف ہیں۔ پانی سے گاڑی چلانا ہو، کششِ ثقل کا تصور ہو، یا ناسا کی خلائی دریافتیں، ان عناصر کی تصوراتی تخریب کاری سے کچھ محفوظ نہیں۔ تیسری سمت میں ایک نیم اثباتیت پسند مؤقف ہے جو ثقافتی سطح پر ایک مخصوص تنگ نظری اور ناگوار شدت پسندی سے سائنس کو دوسری تمام ’’غیر سائنسی‘‘ اصنافِ علم پر فوقیت دیتا نظر آتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اثباتیت پسند مؤقف بھی مقامی علمی ثقافت سے نہیں پھوٹا لہٰذا اس کے ہاں بھی ایک ناگزیر فکری خلا پایا جاتا ہے۔

karl popper

تیسرا مسئلہ خالص فلسفیانہ سطح کا ہے۔ یہ ایک طرف تو ماہیتِ علم اور دوسری طرف طرزِ استدلال یا منطقِ فکر کی بحث سے متعلق ہے۔ یہاں یہ سوال بوجوہ فکری خلا پسِ پردہ چلا گیا ہے کیا سائنسی حقیقت اور غیرسائنسی حقیقت میں نوعاً کوئی جوہری نوعیت کا فرق ہے؟ اس سوال کا جواب یہ واضح کرتا ہے کہ سائنس کے ذریعے حاصل ہونے والا علم ادب، شاعری، موسیقی یادوسرے فنونِ لطیفہ کے ذریعے حاصل ہونے والے علم سے جوہراً ارفع یا ادنیٰ درجے پر فائز ہے۔ اس مسئلے کو دیکھنے کے بھی کئے زاویے ممکن ہیں جو ہماری خاکہ بندی پر منحصر ہیں۔ مثال کے طور پر جس شعوری سطح پر علم حاصل کیا جا رہا ہے، آیا وہاں شعور کو جمالیاتی اور غیرجمالیاتی سطحوں پر تقسیم کرنا ممکن ہے یا نہیں؟ اس مسئلے کے باعث ایک طرف تو سائنس اور مذہب کی سماجیاتی کشمکش جاری ہے اور خالص تدریسی سطح پر وہ تناظر تخلیق نہیں کیا جا سکا جس میں سائنس کی مختلف انواع کو کمرۂ جماعت میں بطور آرٹ ایک پُرشکوہ اور پُرتجسس تخلیقی سرگرمی کے طور پر جذب کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔

اگر بغور دیکھئے تو یہ سارے مسائل حدبندی کے تناظر میں ایک عجیب و غریب سی جدلیاتی کشمکش رکھتے ہیں۔ یعنی اگر ایک تناظر سے اصل سائنس اور جعلی سائنس میں حدبندی ناگزیر معلوم ہوتی ہے تو دوسرے زاویۂ نظر سے خود اس حدبندی میں کسی قدر تصنع دکھائی پڑتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک تناظر میں حدبندی صریح افادیت پر مبنی ہے تو دوسرے تناظر میں یہ حدبندی خود سائنسی تحقیق کی راہ میں روڑے اٹکانے کے مترادف ہے۔ رائے تبدیل ہونے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی لیکن تاحال حاصلِ مطالعہ یہی ہے کہ اس حدبندی کے مسئلے کو ایک حد تک لاینحل مان لینے میں ہی عافیت ہے۔ یعنی حدبندی کے اس دائرے کو کسی حد تک لچک دار رکھنا خود سائنسی تحقیق کے حق میں ہے۔ لیکن اس حد کو لچک دار ماننے کے بعد بھی یہ سوال تو اپنی جگہ پر رہتا ہے کہ آخر وہ حد کیا ہو؟ اس سوال کے تمام متغیرات کو سامنے لانے کے لئے حدبندی کے مسئلے پر ایک مختصر ترین نظر ڈال لینا مفید ہو گا۔

حدبندی کی یہ کہانی ارسطو سے شروع کرنا مناسب ہے۔ اس کے ہاں یہ مسئلہ جدید معنوں میں سائنس کی حدبندی کا نہیں بلکہ علم کی حد بندی کا ہے۔ یہ ایک ایسا علم ہےجو لازماً تین خواص رکھتا ہے۔ اول، عمومیت یعنی ہر حالت میں یکساں یا ہمہ گیر رہتا ہے۔ دوم، یہ حتمی یقین کو پہنچتا ہے۔ سوم، یہ علت اور معلول کی کڑی کے ذریعے قابلِ وضاحت ہے یعنی کسی واقعے کا ’’علم ’’ ہونے کا مطلب اس کی تہوں میں موجود تمام علتوں کی تشریح یا وضاحت ہے۔ یوں ارسطو کے ہاں یہ حد بندی ان تین شرائط پر منحصر ہے اور قواعدو ضوابطِ علم (یعنی ارسطاطالیسی تناظر میں علم) انہی شرائط کے اندر رہتے ہوئے معلومات کا دائرہ وسیع کرتے ہیں۔ ارسطو کے متون میں طبیعات اور مابعدالطبیعات کی تقسیم کی بجائے علم کی زمرہ بندی طبیعات، ریاضی اور الٰہیات کی انواع میں کی گئی ہے۔ یہاں مابعدالطبیعات ایک ایسی نوع ہے جسے ارسطو اور اس کےاولین شارحین فلسفۂ اول یا بدیہی اصولوں کا فلسفہ کہتے ہیں۔ حدبندی کے تناظر میں یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ علم کی یہ تینوں انواع ایک دوسرے سے مربوط ہوکر یقین کی منزل تک پہنچاتی ہیں اور اس یقین کی نوعیت مابعدالطبیعاتی ہے۔

اپنے مضمون سے انصاف اور اختصار کی خاطر فلسفیانہ اور مدرسی مباحث سے دامن بچاتے ہوئے ہم یہ فرض کئے لیتے ہیں کہ دو ہزار سال کے دوران حدبندی کا مسئلہ کم وبیش اسی مقام کے ارد گرد ڈولتا رہتا ہے اور کچھ خاص فاصلہ طے نہیں کرتا۔ کم و بیش دو ہزار سال کا عرصہ گزرتا ہے۔ اب یکے بعد دیگرے گلیلیو، دیکارت، نیوٹن اور پھر سترہویں صدی کے کئی ایسے فلسفیوں کا ظہور ہوتا ہے جنہیں ہم عرفِ عام میں’’ سائنسدان‘‘ اور تاریخی اصطلاح میں طبعی فلاسفہ کہتے ہیں۔ یہاں ’’طبعی فلسفہ‘‘کم و بیش ارسطو کی طبیعات ہی ہے لیکن ارسطاطالیسی الٰہیات اور ریاضی میں جوہری تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔ شرطِ اول یعنی عمومیت کا اصول اب بھی اسی طرح ہے۔ شرطِ دوم یعنی حتمی یقین کی کیفیت حتمی تو ہے، لیکن اب یہ مابعدالطبیعاتی یا بلیغ استدلال کی بجائے ایک عملی نوعیت کا یقین ہے جس کی منزل تک پہنچنے کا راستہ تجرباتی ہے۔ شرطِ سوم یعنی علتی وضاحت کے آخری سرے پر موجود علتِ اول (یعنی الٰہیاتی تناظر میں خدا) اب آہستہ آہستہ، کم از کم خالص سائنسی تناظر میں، اپنا ٹھوس اور اساسی مقام کھو چکی ہے۔ یہ مقام اساسی اس لئے نہیں رہا کیوں کہ سامی مذہبی روایتوں میں موجود فلاسفہ الٰہیاتی تناظر میں اس ’’علم‘‘ پر تو قائم ہیں کہ خدا علتِ اول ہے لیکن وہ یہ ’’علم‘‘ نہیں رکھتے کہ اس علت ِاول سے فطرت میں طبعی واقعات کا ظہور کیسے ہوتا ہے؟

یوں طبعی فلسفے بشمول گلیلیائی اور نیوٹنی میکانیات کا مقصد طبعی مظاہر کی مکمل علتی کڑی کی دریافت نہیں بلکہ ان سے متصل یا ان کی قربت میں پڑوسی علتوں تک رسائی ہے۔ اس زمانے میں جان لاک جیسے خالص فلسفی یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ انسان حقیقت کی رسمی ماہیت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، اصل ماہیت تک نہیں! مثال کے طور پراس زمانے کی خالص سائنس میں نیوٹن وغیرہ ہمیں کششِ ثقل کے مظہر کی ایسی وضاحت پر اکتفا کرتے نظر آتے ہیں جو ریاضیاتی خاکہ بندی اور تجربے کی کڑی سے منسلک ہے، لیکن کششِ ثقل کی ماہیت کے سوال سے گریز کرتی ہے۔ یوں ایک طبعی قانون کا تصور جنم لیتا ہے جو عمومیت، وضاحت، تعین اور پیشگوئی کی قدروں سے متصف توہے، لیکن کسی مظہر کی علتِ اول یا وجۂ اصل تک پہنچنے کا دعویٰ نہیں کرتا۔

دیکارت کے انتقال کے دس برس بعد یعنی 1660ء میں رائل سوسائٹی آف لندن کا قیام عمل میں آتا ہے۔ دیکارت کےکُل اصولی ورثے میں سب سے مرکزی اصول اس نئی سائنس کی مبہم بنیادوں سے متعلق فکری وسائل ہیں جو ادب و بلاغت کی بجائے ریاضیات پر مبنی تعقلی استدلال کے آلات فراہم کرتے ہیں۔ ایک طرف توکارتیزی ورثے سے راہنمائی لیتے ہوئے رائل سوسائٹی حد بندی کا مسئلہ یوں حل کرتی ہے کہ مذہبی، نیم مذہبی، ادبی اور سیاسی مباحث کو دیس نکالا دے کر ایک ایسے اسلوب کو متعارف کرواتی ہے جوکم سے کم ابہام آمیز ہے۔ دوسری طرح دیکارت کی بجائے فرانسس بیکن کو ترجیح دیتی ہے جو ’’سادہ‘‘ اور ’’سیدھی‘‘ بات کرتا ہے۔ بیکن کے استقرائی اصول کے مطابق سائنسی علم مشاہدے سے آغاز کرتا ہے اور تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ نیوٹن کے ہاں بھی یہی اصول اس طرح کارفرما ہے کہ پہلی اور آخری آواز خود فطرت ہی کی ہے۔ یوں علم کے حصول کا نقطۂ آغاز کارتیزی قیاس نہیں بلکہ بیکن کا مشاہدہ ٹھہرتا ہے۔ یوں سائنسی علم سچائیوں کا علم ہے جو فطرت کے مظاہر یعنی سچائیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور پھر دوسرے مظاہر کی پیش گوئی کرتا ہے۔

یوں سمجھ لیجئے کہ یہ وہ تاریخی پڑاؤ ہے جہاں حدبندی کا مسئلہ ایک اہم سماجی مسئلہ بن کر سامنے آتا ہے۔ اب سائنس سماجی ترقی کا واحد خالص اور مقدس طریقہ ہے۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے ان مفکرین کا ادب پڑھیں تو ان کے نظریے سے سوچنا ممکن ہو جاتا ہے۔ مثالیں دینے کا موقع نہیں۔ بس اتنا جان لیجئے کہ اگر تو سائنس روشن خیالی اور عقل کی معراج ہے تو پھر سائنس کو روایت، شعروادب، اساطیر، لوک کہانیوں، دانشِ قدیم اور بڑے بوڑھوں کی گپ شپ سے علیحدہ کرنا لازم ہے۔ اس ساری فہرست میں ارسطاطالیسی روایت کے بلیغ ادب کو بھی شامل کر لیجئے جو طبیعات، الٰہیات اور ریاضیات کا ملغوبہ ہے۔ یوں سترہویں صدی کا مقدس ورثہ جمہوریت، معاشی آزادی اور یہ’’ نئی‘‘ سائنس ہے۔ ان تینوں کی بنیادوں میں بالتعریف اضافیت پسندی اور افادیت پسندی شامل ہے۔

مسئلۂ حدبندی کے تناظر میں اٹھارہویں صدی ڈیوڈ ہیوم اور کانٹ کی صدی ہے۔ یہ پڑاؤ تجربے اور عقل میں سمجھوتے کی تلاش سے عبارت ہے۔ کانٹ اعلان کرتا ہے کہ ڈیوڈ ہیوم کی دائرۂ عقل پر تشکیک نے اسے خوابِ غفلت سے جگا دیا ہے۔ اسی اثناء میں جرمن جامعات کی تشکیلِ نو ہو چکی ہے۔ کانٹ مقولات کا ایک جدید فلسفیانہ نظام فراہم کرتا ہے جو نئے بدیہی اصولوں کی اساس پر کھڑا ہے۔ یہ اصول مظہر اور علتِ مظہر میں ایک ناگزیر دوئی ثابت کرتے ہیں۔ مظہر تجربے کی اقلیم جب کہ علتِ مظہر عقل کی اقلیم سے متعلق ٹھہرتی ہے۔ کانٹ کا مقولاتی ڈھانچہ حدبندی کے مسئلے کو یوں حل کرتا ہے کہ سائنس اور غیر سائنس میں تفریق کا موضوع سائنس کا نہیں بلکہ فلسفے کا موضوع بن جاتا ہے۔ یوں لائیبنیز، ڈیوڈ ہیوم اور کانٹ کے ذریعے اس رسمی نوعِ علم کی اولین مبہم بنیاد پڑتی ہے جسے ہم آج فلسفۂ سائنس کہتےہیں۔ عملی سائنسدان اور فلسفۂ سائنس کے عالم میں وہی فرق ہے جو عملی طبیب اور علمِ طب کے محقق میں ہوتا ہے، یا جو طبیب ِنفسیات یا علمِ نفسیات کے محقق میں ہوتا ہے۔

انیسویں اور بیسویں صدی ان دو راہوں پر متوازی سفر کی کہانی ہے۔ ایک طرف تو عملی سائنسدان کی تحقیق جاری ہے جب کہ دوسری جانب ایک ایسے سائنسی ضابطے کی تلاش جاری ہے جو حدبندی کے مسئلے کو متفق الیہ طور پر حل کر دے۔ لیکن تلاش کی یہ آخر الذکر راہ مسلسل سکڑتی ہے جب کہ اول الذکر راہ کشادہ سے کشادہ تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اب نیوٹن، دیکارت اوربیکن کی طرح ضابطے یا حدبندی کا سوال بنیادی اہمیت کا حامل نہیں، بلکہ عملی سائنس میں ان مختلف النوع روایت کے دئیے گئے اصولوں کا جزوی اطلاق اور اس کے نتائج زیادہ اہم ہیں۔ ضابطے کے مسائل نصابی منتظمین، معلمین اور فلسفیوں سے متعلق ٹھہرتے ہیں اور عملی سائنسدان کا میدان تجربہ گاہ ہے۔ وہ تجربہ گاہ سے باہر جن دعوؤں کے ساتھ نمودار ہوتا ہے، وہ جانچ پڑتال کے لئے سائنسدانوں کے طبقات کو میسر ہوتے ہیں۔ یوں سائنس سماج میں مختلف اور کئی بار متبادل دعوؤں کی ایک کشمکش کے طور پر ظاہر ہوتی ہے جن میں کسی دعوے کی جیت یا ہار کا فیصلہ فوری طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ سائنسی نتائج کی اشاعت کی عظیم بڑھوتی کے ساتھ یہ سائنس کی سماج میں ترویج و تبلیغ کا زمانہ ہے، جہاں نہ صرف عام فرد بلکہ سائنسی علم کے استعمال کنندگان مثلاً طبیب اور انجینئر وغیرہ بھی زیرِ استعمال سائنسی نتیجے کی تہہ میں موجود ضوابط جاننے کی کوئی فوری اور خاطر خواہ مجبوری نہیں رکھتے۔

بیسویں صدی حدبندی کے مسئلے کے لئے دلچسپ ترین صدی ہے۔ آسٹریائی ریاضی دان، ماہرِ منطق اور ماہرِ لسانیات وٹجنسٹائن کا ظہور ہوتا ہے۔ یہ منطقی تجربیت پسندی کی اس روایت کا آغاز ہے جو نہ صرف تجرباتی توثیق کوعلم کا واحد ذریعہ بلکہ ذہن کے لئے واحد قابلِ فہم اور معنی خیز بیانیہ بھی مانتی ہے۔ یوں یہ کسی بھی دعوے میں معنی خیزی کے درجے یا مقدار کو توثیقی شرائط تک محدود کر دیتی ہے۔ عملی سائنسدان کے لئے یہ ایک مشکل صورتِ حال ہے کیوں کہ اس نظریے کہ رُو سے تمام متغیرات کے علم اور نظری تعریفات کے بعد ہی تحقیق کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بالکل الگ مسئلہ ہے کہ عملی سائنسدان تحقیق کے لئے فلسفی کے ذریعے ضوابط کی توضیح کا محتاج نہیں ہوتا۔ اسی لئے ہم پہلے ہی یہ ذکر کر آئے ہیں کہ وہ اپنی راہ پر کئی محرکات کے زیرِ اثر کسی بھی قسم کی تنقید سے قطع نظر تحقیق جاری رکھتا ہے۔ چاہے وہ گلیلیو یا نیوٹن ہو یا پھر کششِ ثقل کا نیا نظریہ دینے والا لاہوری ’’سائنسدان‘‘ انجینئر فرید اختر، محقق کی عملی دیوانگی اور جستجو نظریے اور قواعد و ضوابط سے زیادہ اس کے وجدانی قیاسات کے زیرِ اثر ہوتی ہے۔ قواعد و ضوابط کا مسئلہ اس وقت سامنے آتا ہے جب تجربہ گاہ سے باہر نمودار ہو کراپنے نتائج اور دعوؤں کو ردّ و قبول کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کے ساتھ چہل قدمی کرنےوالی رفیقہ یہ’’ ثابت‘‘ نہیں کر سکتیں کہ حیض کے دوران منفی توانائی فضا میں پھیلتی ہے کیوں کہ وہ ایک ایسے اسلوب میں بات کر رہی ہیں جو سائنس، مصنوعی سائنس اور لاسائنس میں مشترکہ ہے۔ وٹجنسٹائن کے بقول سماج مشترکہ لسانیاتی کھیلوں میں مصروف رہتا ہے۔ حدبندی کا مسئلہ لسانیاتی کھیل سے بھی جڑا ہے۔ سائنس ’’توانائی‘‘ کے لفظ پر اجارہ داری قائم کر چکی ہے۔ الفاظ معانی کے ظروف ہوتے ہیں۔ سائنس کے اصطلاحی ظروف ریاضیاتی ابہام کے علاوہ کسی ابہام کو اپنے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ ریاضیاتی ابہام کا مسئلہ ابہام کو کوئی منفی طرزِ عمل نہیں مانتا بلکہ ایک خالص علامتی سطح پر رسمی گردانتا ہے۔ یہ علامتی سطح کسی زبان کی طرح ریاضیاتی محاورے کو علمی ثقافت کے دائروں میں رائج کرتی ہے۔ ڈاکٹر لبنیٰ صاحبہ کی دوست کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ توانائی کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کریں۔ سائنسی روایت بہت موٹی چمڑی کے ساتھ اپنے اسلوب کی حفاظت کرتی ہے۔

بیسویں صدی کے وسط میں کارل پاپر منطقی تجربیت پسندوں سے شدید اختلاف رائے کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے اختلاف کی کئی جہتیں ہیں لیکن یہاں صرف تین کا ذکر ناگزیر ہے۔ اوّل تو وہ یہ اعلان کرتا ہے چاہے کوئی دعویٰ خالص مابعدالطبیعی ہی کیوں نہ ہو، اگر تجرباتی جانچ پڑتال کے قابل ہے تو اسے کم از کم ’’بےمعنی‘‘ نہیں مانا جائے گا۔ وہ واقعاتی شہادتیں مہیا کرتا ہے کہ کس طرح بظاہر بے معنی نظر آنے والے مبہم مابعدالطبیعاتی دعوے آخر کار نہ صرف معنی خیز بلکہ درست ثابت ہوئے۔ دوسرا وہ ایک حتمی شرطِ قطیعت اور یقین کی بجائے ایک احتمالی تناظر قائم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’سائنسی دریافت کی منطق‘‘ میں یہ دلچسپ دعویٰ کرتا ہے کہ ایک لامتناہی متغیرات رکھنے والی کائنات میں کسی بھی ہمہ گیر طبعی قانون کا مجموعی احتمال صفر ہے۔ لہٰذا کوئی بھی نظریہ (سائنسی لغت میں تھیوری) صرف اس لئے سائنسی نظریات کے درجۂ مراتب میں ارفع نہیں ہوتا کیوں کہ وہ مظہری وضاحت پر زیادہ قدرت رکھتا ہے۔ نیوٹن یا آئن سٹائن کے نظریات اس لئے سائنسی نہیں کیوں کہ وہ کائنات کی بہترین اور زیادہ سے زیادہ وضاحت کرتے ہیں، بلکہ اس لئے سائنسی ہیں کیوں کہ وہ ایسے دعوے کرتے ہیں جو تجرباتی جانچ پڑتال کے عمل سے گزار کر درست یا غلط ثابت کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس فرائیڈ یا مارکس کے نظریات سائنسی نہیں کیوں کہ انہیں تجرباتی جانچ پڑتال سے نہیں گزارا جا سکتا۔ پاپر کا کہنا تھا کہ ان نظریات کے پرستار ان کے خلاف کچھ بھی سننے کو آمادہ نہیں ہوتے۔ یوں ہم پاپر کی تیسری جہت سے متعارف ہوتے ہیں جب وہ تجرباتی توثیق کی بجائے تجرباتی تردید کو حدبندی کے واحد اصول کے طور پر تجویز کرتا ہے۔ اس کا یہ متضاد انتخاب بہت دلچسپ احتمالی بنیادیں رکھتا ہے۔ اس کے بقول صرف ایک مثال یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ فلاں سائنسی نظریہ عمومی طور پر قانون نہیں مانا جا سکتا جب کہ کئی مثالیں بھی مل کر اس کی حتمی عمومیت ثابت نہیں کر سکتیں۔

بیسویں صدی حتمی یقین کو منظرنامے سے مستقل طور پر ہٹا کر احتمالی اور نت نئی پیچیدہ ریاضیاتی خاکہ بندیوں کی صدی ہے۔ بیسویں صدی کا نصفِ آخر حدبندی کے مسئلے پر تھامس کوہن اور کارل پاپر کے مناظروں کا دور ہے۔ تھامس کوہن کا دعویٰ دراصل اس دوسری راہ کی نشاندہی ہے جس کا ذکر ہم پہلے ہی کر آئے ہیں۔ کوہن کا پاپر پر اعتراض یہ ہے کہ اس کے نظریے کے باعث سائنسی ضابطہ شدید تحدید سے دوچار ہو جاتا ہے۔ وہ ایک خالص تاریخی تناظر میں پاپر کے اس مشاہدے پر تنقید کرتا ہے کہ سائنسدان اپنے مفروضوں کو شدید جانچ پڑتال سے گزارتے ہیں یا انہیں ایسا کرنا چاہیے۔ اس کے بقول سائنس ایک فطری اور روزمرہ دور سے گزرتی رہتی ہے اور اس دور میں مفروضوں پر تنقید اور نظرِ ثانی کا آغاز سائنسدانوں کی راہ کھوٹی کر دیتا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے مفروضوں کا اعتبار کرتے ہیں اور مجموعی طورپر سائنسی ثقافت میں ایک روایت پسندی پر کاربند رہتے ہیں۔ یہ مسائل اتنے زیادہ مفروضوں اور کثیر متغیرات کے زیرِ اثر ہوتے ہیں کہ ایک معما بن چکے ہوتے ہیں۔ ان کا حل روایت سے باہر کھڑے ہو کر دریافت نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ روایت ایک تکنیکی تسلسل سے عبارت ہوتی ہے۔

پاپر کے تناظر میں ایامِ حیض میں کسی خاتون کے گردوپیش منفی توانائی پھیلنے کا دعویٰ سائنسی بھی ہو سکتا ہے اور مصنوعی یا غیرسائنسی بھی۔ یہ حدبندی اس سوال پر منحصر ہے کہ دعوے کی تہوں میں کیا مفروضے ہیں اور کیا یہ دعوٰی جو ایک عمومی قانون کو پیش قیاس کر رہا ہے تجرباتی جانچ پڑتال کے لئے اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے کہ اس کا رد ممکن ہو؟ اگر ڈاکٹرصاحبہ کی دوست اس عقیدے سے اس طرح نہیں جڑیں کہ اپنے دعوے کی جانچ پڑتال کے نتیجے میں اس کے رد ہو جانے کا امکان بھی قبول کرنے سے قاصر ہوں تو یہ دعوی غیرسائنسی نہیں۔ اس صورت میں اس کو دستیاب وسائل کی حد تک تجربہ گاہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ تجربہ آج ہی فیصلہ کر دے۔ یہ ایک طویل سفر ہے اور ہمیں پرامید رہنا چاہئیے کہ ایک دن دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

لیکن کوہن کے لئے اس سارے مسئلے کو دیکھنے کا یہ تناظر ہی مصنوعی ہے۔ اس کی رائے میں سائنس ایک طویل اور پیچیدہ روایت کا تسلسل ہے اور سائنسدان پوری روایت پسندی سے وفاداری نبھاتے ہیں۔ کوہن کے ہاں ’’بلوغت ‘‘ کو پہنچی سائنس کبھی اس مسئلے کو قابلِ اعتنا نہیں جانے گی کیوں کہ یہ مسئلہ باآسانی سائنسی فریم ورک میں نہیں آ سکتا۔ باآسانی سے مراد یہی ہے کہ اس مسئلے کے متغیرات روایتی ڈھانچے میں سمائے ہی نہیں جا سکتے۔ کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ یہ صورتِ حال تبدیل ہو اور علمیاتی ڈھانچے تبدیلی کا تقاضہ کریں؟ ایک اور اہم فرانسیسی فلسفی گاستاں باشلار کُل سائنسی روایت کو اسی قسم کی علمیاتی دراڑوں کے مختلف ادوار کے طور پر دیکھتا ہے۔ بہرطور یہ واضح ہے کہ پاپر اور کوہن سائنس کی تعریف پر متفق ہونے کے باوجود سائنسی ضابطے اور طریقۂ کار پر اس حد تک متضاد ہیں کہ حدبندی کا مسئلہ کافی لچکدار معلوم ہوتا ہے۔

پاپر اور کوہن کے بعد حدبندی کے مسئلے میں سب سے اہم نام ہنگری کے امری لاکاٹوس کا ہے جو کوہن ہی کا ہم عمر تھا۔ پاپر اور کوہن کے تنازعے میں لاکاٹوس نے پاپر کا ساتھ دیا۔ اب چونکہ سائنسی روایت پہلے ہی حتمی یقین سے چھٹکارا حاصل کر چکی ہے، لہٰذا حدبندی کی لچکدار حیثیت قبول کرتے ہوئے لاکاٹوس اس مسئلے کو سائنس اور مصنوعی سائنس کی بجائےایک ترقی پسند سائنس اور رجعت پسند سائنس میں سرحدی تنازعے کے طور پر دیکھتا ہے۔ ایک رجعت پسند سائنس بالآخر آپ اپنی موت مر جائے گی کیوں کہ سائنسی ثقافت میں محققین اس جانب متوجہ نہیں ہوں گے۔ محققین کی توجہ، سرمایہ دارانہ مقاصد اور معاشی منڈیوں کے عوامل کسی قدر سست روی سے بالآخر اس کو معدوم کر دیں گے۔ لاکاٹوس کے نزدیک یہ ہرگز غیر معقول نہیں ہو گا کہ ایک انسان زندگی بھر پانی سے گاڑی چلانے کی کوشش کرتا رہے۔ بالفرض اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو؟ سائنسی روایت ہمیں بتاتی ہے کہ عصری عقلِ عامہ کے برعکس پہلے بھی کئی بار اس قسم کے غیرمعمولی نتائج نکل چکے ہیں۔ لاکاٹوس کے ہاں لمحاتی عقلیت پسندی کا تصور سرے سے ہی غائب ہے۔ لاکاٹوس کی بات دل کو لگتی ہے۔ کیا یہ خود سائنسی روایت کے مفاد میں نہیں کہ روایت سے منحرف تشکیک پسند دیوانوں کا ٹھٹھہ نہ اڑایا جائے؟ کیوں نہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے؟

بیسویں صدی کی آخری دہائی حد بندی کے مسئلے کی معدومیت کی صدی ہے۔ کچھ لوگوں مثلاً امریکی سائنسدان لیری لاڈن کے خیال میں حدبندی کی شرائط دو تین ہزار سال سے مسلسل تنزل کا شکار ہیں اور آخر کار یہ مسئلہ اتنا لچکدار ہو چکا ہے کہ اب فلسفیانہ طور پر دلچسپ نہیں رہا۔ ان کے مخالفین کے خیال میں حدبندی کی موت کا یہ اعلان قبل از وقت ہے۔ لاڈن کہتے ہیں کہ ان کا تناظر نتائجیت پسندی پر مبنی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب مسئلہ سائنس، مصنوعی سائنس یا لاسائنس کا نہیں بلکہ صرف اور صرف اچھی یا بُری سائنس کا ہے۔ پہلی نظر میں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک قدیم مسئلے ہی کو نئے اسلوب میں نئے سرے سے اٹھانے کے خواہش مند ہیں۔ آخری اچھی اور بُری سائنس میں کیسے حد بندی کی جائے گی؟ لیکن بغوردیکھنے پر لاڈن کا جواب تھامس کوہن سے ملتا جلتا ہے۔ ان کا کہنا ہے فلسفیوں کو یہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ عملی سائنسدان خود ہی یہ کام کر لیں گے اور بُری سائنس روایت سے باہر ہو جائے گی۔ عقلیت پسندی کے بلند وبانگ دعوے سماجی طورپر ایک منفی طرزِ عمل کو دعوت دیتے ہیں کیوں کہ نتائج بہت تیزی سے تبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں۔

1981ء اور پھر 2005ء میں امریکی عدالت کے دو کیسز میں لاڈن نے پاپر کے نظریہ تردیدیت سےنہایت لطیف استدلال پیش کیا ہے جس پر واہ واہ کئے بغیر چارہ نہیں۔ مدعا کلاس روم میں نظریۂ تخلیق کی تدریس کا ہے۔ فاضل جج نے اس کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے پاپر کی مدد سے فلسفیانہ استدلال پیش کیا ہے کہ نظریۂ تخلیق کوعلمِ حیاتیات کے طور پر بچوں کو نہیں پڑھایا جا سکتا کیوں کہ یہ نظریہ تجرباتی تردید کے قابل ہی نہیں۔ آخر اس دعوے کی تردید کی خاطر کیوں کر تجربہ وضع کیا جاسکتا ہے کہ تخلیق خدا کےہاتھوں ہوئی ہے؟ یہ تو الہامی بنیادوں پر کیا گیا ایک دعوٰی ہے۔

لاڈن فاضل جج کے فیصلے سے متفق ہیں لیکن ان کے استدلال سے نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نظریۂ تخلیق اسی لئے تو غلط ثابت ہوا ہےکہ وہ تجرباتی طورپر جانچے جانے کے قابل ہے ورنہ آخر اسے ردّ کیسے کیا گیا اور اس کی جگہ متبادل حیاتیاتی نظریے نے کیسے لی؟ اس لئے ان کی رائے میں پاپر کے تناظر کا درست اطلاق یہ ہے کہ نظریۂ تخلیق کو سائنس تو مانا جائے لیکن بُری سائنس مان کر نہ پڑھایا جائے۔ اگر ہم اسے سائنس نہ مانیں تو یہ تسلیم کرنا لازم ہو گا کہ اس کی تردید نہیں ہو سکتی اور اس طرح یہ کسی نہ کسی متبادل نیم عقلی نظام کا حصہ رہے گا۔ لاڈن کے شارحین کی رائے ہے کہ کیوں نہ نظریۂ تخلیق کو بری سائنس کے طور پر پڑھایا جائے کیوں کہ یہ سائنس کی تدریسی روایت میں ایک اہم پہلو ہے۔ آخر سائنسی روایت کی بہت سی مستند اور مضبوط تھیوریاں غلط ثابت ہو چکی ہیں۔ وہ کیوں کر بُری تھیوریاں تھیں! قصہ مختصر، لاڈن کا استدلال پاپر کے اصول کے اطلاق میں کچھ دیدہ و نادیدہ مشکلات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

اختصار کے پیشِ نظر حدبندی کے مسئلے کا یہ خاکہ صرف اور صرف علمیاتی تناظر تک محدود ہے اور ان سوالوں سے بحث نہیں کرتا جو خالص سماجی زاویوں سے اہم ہیں۔ ان زاویوں کے علاوہ یہ بھی دیکھنا اہم ہے کہ سولہویں سے بیسویں صدی تک ادب اور فنون لطیفہ کی کون سی روایتیں سائنسی علم کے ذریعے حقیقت کے پھیلاؤ اور پھر حقیقت کی تعریف پر اس کی اجارہ داری کے خلاف رہی ہیں؟ کُل سائنسی روایت میں تجرید اور تجربے کی حدبندی کیا ہےاور اس حدبندی میں ریاضی کا کیا کردار ہے؟ ریاضی کا یہ کردار کیوں کر مخالف یا تنقیدی ادب میں ایک جدیدریاضیاتی انسان کو نشانہ بناتا ہے؟ لیکن ان سوالوں پر بحث ہم پھر کسی وقت کے لئے اٹھائے رکھتے ہیں۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi