اسلام آباد میں حساس مقامات کی حفاظت کے لیے فوج تعینات، مظاہرین کے خلاف آپریشن تاحال معطل


جیل کی ایل وین نذر آتش

مظاہرین نے جیل کی ایک وین کو نذر آتش کر دیا

پاکستان کی وزارت داخلہ کے مطابق اسلام آباد میں احساس عمارتوں کی حفاظت کے لیے فوج کو تعینات کیا گیا ہے۔

فیض آباد میں موجود مظاہرین کے خلاف پولیس کا آپریشن سنیچر کی رات سے معطل ہے۔

پاکستان کی وزارت داخلہ کے اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اسلام آباد میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر فوج طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم فوج کی تعیناتی صرف حساس عمارتوں کی حفاظت کے لیے ہے۔

دوسری جانب نجی نیوز چینلز کی نشریات سنیچر سے تاحال بند ہیں اور صرف سرکاری نیوز چینل کو کیبل پر دکھایا جا رہا ہے۔

مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جبکہ اسلام آباد کے مضافاتی علاقے روات میں بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق مظاہرین نے پولیس کی ایک چیک پوسٹ کو آگ لگا دی ہے۔

دھرنے کے بارے میں مزید پڑھیے

’دھرنے کے معاملے کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے‘

اسلام آباد آپریشن: حالات اس نہج تک کیسے پہنچے؟

تصاویر: دھرنے کے خلاف آپریشن اور جھڑپیں

’جنرل باجوہ سے پوچھ لینا چاہیے تھا کہ بتائیں کیا کریں‘

آپریشن کی صورتحال

فیض آباد میں دھرنا دینے والے مظاہرین کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا آپریشن سنیچر کی رات سے معطل ہے اور اس وقت مظاہرین دھرنے کے مقام پر ہی موجود ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی طرف سے مظاہرین کے خلاف کی جانے والی کارروائی کی شدت میں سنیچر کی شام سے کمی آئی ہے۔ پولیس کی بھاری نفری دھرنے کے مقام کے قریبی علاقوں میں تو موجود ہے لیکن پولیس اہلکار اس طرح اکھٹے نہیں ہیں جس طرح وہ سنیچر کی صبح دھرنا دینے والوں کے خلاف متحرک تھے۔

زخمیوں کی کل تعداد 200 سے زیادہ ہوگئی

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے ترجمان کے مطابق ہسپتال میں دھرنے کے خلاف آپریشن کے بعد صبح سے 168 زخمیوں کو لایا جا چکا ہے جن میں سے 52 کے علاوہ باقی تمام کو گھر روانہ کیا جا چکا ہے۔ ترجمان کے مطابق ہسپتال میں داخل زخمیوں میں سے کسی کی بھی حالت نازک نہیں ہے۔ زخمیوں میں سے 64 کا تعلق پولیس سے ، 53 کا تعلق ایف سی سے جبکہ 51 شہریوں کو بھی ہسپتال طبی امداد کے لیے لایا گیا۔

دوسری جانب راولپنڈی کے بینیظر بھٹو ہسپتال کے ترجمان نے بتایا کہ دن بھر میں ان کے پاس 41 زخمیوں کو لایا گیا ہے۔

پولیس اور مظاہرین کی جھڑپیں

شہر میں مختلف مقامات پر پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئیں

مظاہرین نے انڈیا سے رابطہ کیا، ہم تفتیش کر رہے ہیں: احسن اقبال

وفاقی وزیر داخلہ نے سنیچر کو ایک موقع پر کہا کہ ’انھوں (فیض آباد پر دھرنا دینے والے مظاہرین) نے انڈیا کے ساتھ رابطہ کیا تو کیونکر کیا، ہم یہ بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہ لوگ اتنے سادہ نہیں ہیں۔

پی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ ‘ملک میں انتشار پھیلانے میں ایک جماعت ملوث ہے۔ اس نے دو شہروں کے لاکھوں افراد کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ کوشش ہے کہ کم سے کم نقصان کے ساتھ جگہ کو خالی کرایا جائے’۔

اس سے پہلے ان کا کہنا تھا ’حکومت دھرنے والوں کے ساتھ ہر وقت مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ حکومت اسلامی احکامات اور ناموس رسالت کی پاسبان ہے۔ ہم ختم نبوت کے عقیدے کے محافظ ہیں۔ دھرنا دینے والوں کی سرگرمیوں سے ملک کا نام بدنام ہورہا ہے۔ دھرنے دینے والے اتنے سادہ نہیں ہیں‘۔

وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے گھر پر پتھراؤ

نامہ نگار عمر دراز کے مطابق ایس ایچ او سٹی پولیس سٹیشن پسرور خرم چیمہ نے تصدیق کی کہ ضلع سیالکوٹ میں پسرور شہرمیں واقع وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے گھر پر چند افراد نے گھیراؤ کر کے پتھراؤ کیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ حملے کے وقت گھر میں کوئی موجود نہیں تھا۔

دھرے کے مظاہرین وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ملک بھر میں صحافی مظاہرین کی زد میں

فیض آباد آپریشن اور اس کے بعد ملک بھر میں جاری ردعمل کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرنے میں مشکلات کاسامنا ہے۔ مظاہرین صحافیوں کو بھی تشددکا نشانہ بن رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ کراچی میں جیو نیوز کے رپورٹرز طلحہ ہاشمی اور طارق ابوالحسن مظاہرے کی کوریج کے دوران پتھراؤ کی زد میں آکر زخمی ہوئے ہیں جبکہ اسلام آباد میں مری روڈ پر سما ٹی وی کی ایک ڈی ایس این جی کو نذر آتش کر دیا گیا۔

کراچی میں بھی بدامنی

نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق سنیچر کو رینجرز کو پولیس کے ساتھ مل کر صورتحال معمول پر لانے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس سے پہلے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک مقامی اور لسانی تنظیم نے احتجاج کو ہائی جیک کرنے اور صورتحال کو سنگین بنانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سٹار گیٹ کے سامنے یہ احتجاج صبح دس بجے سے جاری تھا اور چار بجے شاہراہ فیصل کو کلیئر کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا ‘ایک مقامی اور لسانی تنظیم کے لوگ بھی شاہ فیصل کالونی اور الفلاح سوسائٹی سے آ کر اس احتجاج میں شامل ہو گئے، مولوی حضرات اور دوسروں میں فرق ہوتا ہے انھوں کی داڑھی، اور قمیض شلوار وغیرہ ہوتی ہے، لیکن یہ نوجوان تھے جنھوں نے پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی، یہ انتشار پھیلانا چاہتے تھے تاکہ بھگدڑ مچے اور دونوں اطراف سے فائرنگ ہو، فائرنگ میں ہمارا ایک ایس ایچ او اور ایک ہیڈ کانسٹیبل زخمی ہو گیا ہے، تاہم صورتحال قابو میں کرلی گئی ہے’۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp