ہماری اموات اتر پردیش سے زیادہ کیوں ہیں؟ مکمل کالم


پاکستان کا اگر بھارت کی کسی ریاست سے موازنہ کیا جا سکتا ہے تو وہ اتر پردیش ہے۔ اس ریاست کی آبادی لگ بھگ پاکستان کے برابر ہے، اس میں انیس فیصد مسلمان ہیں، اسی فیصد ہندو ہیں اور باقی دوسرے مذاہب کے لوگ ہیں۔

اتر پردیش کا ماحول، وہاں کے لوگوں کی بود و باش، عوام کا مزاج، ان کے رہنے سہنے کا طریقہ، لباس، معاشرت، میل جول، طرز حکمرانی، اگر ہمارے جیسا نہیں تو کم از کم ہم سے ملتا جلتا ضرور ہے۔ میں اعداد و شمار پڑھا کر آپ کو بور نہیں کرنا چاہتا فقط چند سوالات ذہن میں کلبلا رہے ہیں جن کا جواب درکار ہے۔

اتر پردیش کی آبادی بیس کروڑ ہے، ہماری بائیس کروڑ، وہاں آٹھ لاکھ لوگ کرونا کا شکار ہوئے یہاں ساڑھے سات لاکھ، وہاں اب تک ساڑھے نو ہزار اموات ہو چکی ہیں اور یہاں سولہ ہزار، وہاں ایک کروڑ لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے یہاں اکتیس مارچ تک آٹھ لاکھ لوگوں کو لگی تھی۔

اتر پردیش میں گزشتہ چند روز سے ایک دن بیس ہزار سے اوپر نئے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں تاہم یکم اپریل سے پہلے یہ تعداد ایک ہزار سے کم تھی، پاکستان میں 16 فروری سے پہلے یہ تعداد ایک ہزار سے کم تھی اور اب پانچ ہزار سے بڑھ چکی ہے۔

اور سب سے حیرت انگیز بات، یکم اپریل سے پہلے اتر پردیش میں روزانہ دس سے کم مریض مر رہے تھے جبکہ پاکستان میں قریباً ایک ماہ سے سو سے زائد لوگ ایک دن میں مر رہے ہیں۔ پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ ایک بھارتی ریاست اپنے ایک کروڑ شہریوں کو ویکسین لگا چکی ہے جبکہ ہم اس کے دس فیصد کے قریب بھی نہیں پہنچے، کیوں؟ اوردوسرا سوال یہ بنتا ہے کہ یو پی میں کرونا سے ساڑھے نو ہزار اموات ہوئیں جبکہ ہمارے ہاں سولہ ہزار لوگ مرے، کیوں؟

پہلے سوال کے جواب میں یہ خاکسار اپنے کسی پچھلے کالم کا حوالہ ہر گز نہیں دے گاجس میں ویکسین کے سوال پر ماتم کیا جا چکا ہے اس لیے آگے چلتے ہیں اور دوسرے سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ زندگی اور موت اتر پردیش میں بھی خدا کے ہاتھ میں ہے او ر پاکستان میں بھی، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے ملک میں ہونے والی اموات کی بڑھتی ہوئی شرح کو ’خدا کی مرضی‘ کہہ دیں اور ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوں۔

ہرانسان کی جان قیمتی ہے، سولہ ہزار کوئی ہندسوں کا مجموعہ نہیں۔ ہمارے ہاں اموات کی زیادہ شرح اس وجہ سے ہے کہ اس کے علاج کے بارے میں اب تک مکمل آ گاہی نہیں، سنی سنائی باتوں پر ہم چل رہے ہیں، ڈاکٹر کے پاس جانے کی زحمت نہیں کرتے اور اسپتال جانے سے خوف آتا ہے.

ذہن میں یہ بیٹھ چکا ہے کہ کرونا کا جو مریض اسپتال جاتا ہے وہ زندہ واپس نہیں آتا۔ ہمیں یہ بھی غلط فہمی ہے کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں سو ڈاکٹر کیا کر لے گا! کرونا کا ٹیسٹ بھی بہت مہنگا ہے، عام آدمی سوچتا ہے کہ چھ ہزار روپے محض یہ جاننے کے لیے کیوں خرچ کروں کہ مجھے کرونا ہے یا نہیں؟ باقی ٹیسٹ اور ادویات بھی خاصی مہنگی ہیں.

ہر بندہ اس علاج کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ شاید اسی لیے کچھ لوگ اپنا علاج خود کرنے کے قائل ہوتے ہیں اور گھر بیٹھے اینٹی بائیوٹک پھانک کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دوا کھا لی ہے، یہ نہیں سوچتے کہ وائرس کسی اینٹی بائیوٹک دوا سے نہیں مرتا۔ کرونا میں اینٹی بائیوٹک اس لیے دی جاتی ہے کہ اس کی وجہ سے قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے اوردوسری بیماریاں لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، ان سے ممکنہ بچاؤ کے لیے ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک تجویز کرتے ہیں۔

کچھ لوگ اپنے آپ کو ’خاص بندہ‘ سمجھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ انہیں کرونا نہیں ہو سکتا، علامات ظاہر بھی ہو جائیں تو وہ کوئی ٹیسٹ نہیں کرواتے، جتنے دن وہ denialمیں رہتے ہیں اتنے دن میں بیماری بگڑ جاتی ہے اور ایک دفعہ اگر یہ بیماری بگڑ جائے تو پھر اسے قابو کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، اسی وجہ سے اموات بڑھ رہی ہیں۔

آج کل اگر کسی کو بخار، کھانسی، جسم میں درد جیسی علامات ظاہر ہوں تو اسے یہ فرض کر لینا چاہیے کہ وہ کرونا کا شکار ہو چکا ہے۔ اگر و ہ استطاعت رکھتا ہے تو ٹیسٹ کروا کے یقین کر لے اور اگر نہیں رکھتا تو بغیر ٹیسٹ کے ہی یقین کر لے۔ بعد میں اگر اسے موسمی بخار نکل بھی آیا تو اس مفروضے سے اس کی صحت یا علاج پر کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن کرونا فرض نہ کرنے کی صورت میں اگر کرونا نکل آیا تو کافی مشکل پیش آ سکتی ہے۔

زیادہ تر لوگ اسی مشکل کا شکار ہوتے جب انہیں آٹھ دس دن بعد ’یقین‘ آتا ہے کہ انہیں کرونا ہی ہے۔ اس دوران تین باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اگر سانس لینے میں دشواری ہو، آکسیجن 94 سے نیچے رہنے لگے یا بخار بہت تیز ہو اور دوا لینے سے بھی کم نہ ہوتو فوری طور پر ڈاکٹر یا اسپتال سے رجوع کریں۔

اس فیصلے میں دیر کرنا ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ آکسیجن بہتر کرنے کے لیے ایک خاص قسم کی ورزش ڈاکٹر تجویز کرتے ہیں جس میں مریض الٹا لیٹ کر سانس لیتا ہے، اس سے پھیپھڑوں کو آرام ملتا ہے، یو ٹیوب پر آپ اس ورزش کا طریقہ دیکھ سکتے ہیں، اس سے آکسیجن بہتر ہو جاتی ہے۔

کچھ لوگ اس وہم کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اگر اسپتال نے انہیں آکسیجن لگا دی تو و ہ اس کے محتاج ہو جائیں گے لہذا وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ انہیں آکسیجن ماسک کی ضرورت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آکسیجن لگانے سے پھیپھڑوں کو آرام ملتا ہے اور صحت یابی میں مدد ملتی ہے لہذا آکسیجن 92 / 93 سے کم ہو تو سیلنڈر کے ذریعے آکسیجن لینے میں کوئی حرج نہیں۔

وینٹی لیٹر کے بارے میں بھی یہی خوف ہے کہ اگر ہمار ا مریض وینٹی لیٹر پر چلا گیا تو پھر واپس نہیں آئے گا جبکہ وہ مریض جن کے پھیپھڑوں کا کچھ حصہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے انہیں وینٹی لیٹر کے ذریعے سانس دینا ضروری ہوتا ہے، وینٹی لیٹر پھیپھڑوں کی جگہ کام کرتے ہیں تاکہ اس دوران پھیپھڑوں کا علاج کیاجا سکے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے اگر بروقت وینٹی لیٹر لگوانے کا فیصلہ کر لیا جائے.

دیر کرنے کی صورت میں موت قریب آ جاتی ہے۔ اسی طرح جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا کوئی علاج نہیں انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ کروناکے علاج میں بہت سی ادویات موثر ہیں جن میں سٹیرائیڈ بھی شامل ہیں لیکن یہ تمام ادویات تب کارگر ثابت ہوتی ہیں جب مریض بروقت اپنا علاج کروانے پر آمادہ ہو۔

نجی اسپتالوں میں یہ تمام ادویات اور علاج بے حد مہنگا ہے اور سرکاری اسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں، ایسے میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ جونہی اس بیماری کی علامات ظاہر ہوں، آپ خود کو گھر میں بند کر لیں، بخار کم کرنے والی دوا لیں، پانی زیادہ پئیں، بھاپ لیں، سانس بہتر کرنے والی ورزش کریں، ان تمام نسخوں کا خرچ تین سو روپے سے بھی کم ہے۔

اس بات سے خود کو حوصلہ دیں کہ ستانوے فیصد مریض کرونا سے صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر کسی مریض میں ان تین علامات میں سے (جو پیچھے بیان کی ہیں ) کوئی ایک بھی ظاہر ہو تو اسے پھر دیر نہیں کرنی چاہیے اور فوراً اسپتال یا ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس وبا نے ہم سے بہت قیمتی لوگ چھین لیے ہیں، مزید نقصان کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments