کامیابی اور تھیوری آف ریلیٹیویٹی


جب آپ کسی جلتے ہوئے کوئلے پہ تشریف رکھیں تو ایک سیکنڈ پورے گھنٹے کے برابر محسوس ہو گا۔ اس کے برعکس اگر آپ کسی خوب صورت لڑکی کے ساتھ ہوں تو وہی ایک گھنٹہ ٹھیک ایک سیکنڈ میں گزر جائے گا۔ یہ تھیوری آف ریلیٹیویٹی کی ایک سادہ سی مثال ہے۔ کتابوں میں سر مارتے رہیں، لائبریریوں میں کندھے اکڑا لیں، جب خود آئن سٹائن یہ مثال دیتا ہے تو سمجھنے کے لیے بہت کافی ہونا چاہیے۔

مجھے تھیوری آف ریلیٹیوٹی پھر بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی، بالکل فارغ، ایک دم پیدل محسوس کر رہا تھا۔ وقار ملک کو فون کر دیا۔ وہ فنا فی الفزکس ہیں۔ فون بند ہوا تو انہیں اتنا زیادہ مزا آ رہا تھا کہ انہوں نے پھر سے کال کی اور آئن سٹائن کی جمالیات پر توجہ دلائی۔ یہ بات اپنے دماغ کو لگ گئی۔ وقار بھائی کامیاب ہو گئے۔ اب یہ سین تھا کہ جو بھی پڑھنا شروع کرتا ہوں تو ان کی دی ہوئی بریفنگ یاد آ جاتی ہے۔ دس منٹ میں اس بندے نے دس کتابوں کا نچوڑ پلا دیا۔

آئن سٹائن بڑا ٹیڑھا کردار تھا۔ ذاتی زندگی میں بہت سی ناکامیاں اس کے ساتھ تھیں۔ گھریلو حالات بھی کوئی ایسے خوش گوار نہیں تھے۔ اس کے ساتھ مسئلہ صرف ایک تھا۔ وہ بہت زیادہ سوچتا تھا۔ آدمی ہو کلرک اور سوچ اس کی روشنی کی رفتار ناپنے والی ہو تو اس کے بارے میں اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ اس نے جب اپنی مشہور زمانہ تھیوری پیش کی تو اس وقت یہ ثابت کرنے کے لیے آئن سٹائن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ محض نظریات تھے۔ یہ سب گورکھ دھندہ 1905ء سے شروع ہوتا ہے اور 1919ء میں کہیں جا کے اس کی تھیوری ثابت ہوتی ہے، وہ کہتا کیا تھا، سادہ ترین الفاظ میں دیکھتے ہیں۔

ایک تو اس نے روشنی کی ترکیب کے بارے میں کہا کہ وہ چھوٹے چھوٹے ذرات پہ مشتمل ہو سکتی ہے۔ پھر یہ بتایا کہ اس کائنات میں کوئی بھی چیز فنا نہیں ہو سکتی۔ یہاں تک کہ جو بہت بڑے بڑے ستارے ہیں وہ بھی اپنے اندر موجود گیسوں کے متواتر جلتے رہنے کے بعد جب بجھنے اور ختم ہونے لگتے ہیں تو اس عمل کے دوران سکڑتے سکڑتے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ ایک نقطے برابر رہ جاتے ہیں۔ لیکن وہ مکمل فنا نہیں ہوتے۔ اس وقت اس چھوٹے سے ذرے میں اس قدر توانائی ہوتی ہے کہ وہ آس پاس موجود ہر چیز کو اپنے اندر کھینچ لیتا ہے۔ یہ طاقت بنیادی طور پہ وہ گیپ ہوتا ہے جو ان سیاروں کے سکڑنے سے خلا میں پیدا ہو جاتا ہے اور یہ گیپ بلیک ہول کہلاتا ہے۔ تو یہ جو بلیک ہول ہے وہ روشنی تک کو اپنے اندر کھینچ سکتا ہے۔ E=mc2 بھی یہی چکر تھا کہ مادہ تبدیل ہو کے توانائی اور توانائی شکل بدل کے مادہ بن سکتی ہے۔ ایٹم بم کی بھی یہی کہانی تھی کہ مادے کے اندر جو طاقت ہے اسے کسی طرح آزاد کر دیا جائے۔

پھر اس نے وقت کو ایک الگ جہت قرار دیا۔ وہ کہتا تھا کہ ہر چیز حرکت میں ہے لیکن اس کی رفتار کا اندازہ ہر دیکھنے والے کو ایک جیسا نہیں ہوتا‘ مثلاً ایک جہاز جب اڑ رہا ہے تو ہمیں زمین سے دیکھنے پہ وہ بہت آہستہ جاتا محسوس ہو گا۔ اندر موجود مسافر اگر باہر دیکھے گا تو اسے رفتار کچھ اور لگے گی، پائلٹ چونکہ فرنٹ سے دیکھ رہا ہے، اس کے لیے سپیڈ کا اندازہ کچھ اور ہو گا اور اگر وہی جہاز زمین پر اسی رفتار میں چلے تو دیکھنے والوں کو اس کی تیز رفتاری کسی اور طریقے سے محسوس ہو گی۔

پھر کشش ثقل اور ٹائم سے متعلق اس نے مختلف آئیڈیے پیش کیے۔ ایک منٹ۔ اندازہ ہو گیا کہ وہ جو کوئلوں پہ بیٹھنا ہو یا خواہ مخواہ کی سائنس پڑھنا ہو کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے؟ اور ان مخصوص حالات میں وقت کی رفتار کیسے آہستہ ہوتی ہے؟ تو بس یہ تھیوری آف ریلیٹیویٹی تھی۔

اب سین یہ ہے کہ وہی آئن سٹائن جو ایسی پیچیدہ قسم کی باتیں کرتا تھا اس نے بہت ہی لائٹ قسم کے معاملات پر بھی اظہار خیال کیا۔ مثلاً اس نے کہا کہ علم فانی ہے لیکن خیال/تصور پوری کائنات کو سمیٹ سکتا ہے، وسیع تصور کتابی علم سے زیادہ اہم ہے۔ ہم اپنے تمام مسائل اس دماغ سے حل نہیں کر سکتے جس دماغ نے انہیں پیدا کیا تھا۔ اسی دماغ سے ہم کائنات کے رازوں کا ہزارواں حصہ بھی آج تک نہیں جان سکے، وغیرہ وغیرہ

سائنس اور آرٹس کا اتنا بڑا دانشور اپنے وقتوں میں بھرپور کنگلا ہوتا تھا۔ وہ نوبل انعام حاصل کرنے والا تھا اور ان دنوں جاپان میں تھا جب ایک کوریئر اس کے پاس کوئی چیز لے کر آیا۔ آئن سٹائن کے پاس ٹپ دینے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ اس نے کاغذ پر ایک نوٹ لکھا اور اس بندے کو پکڑا دیا۔ کہنے لگا کہ یار اگر مجھے واقعی نوبل مل گیا تو یہی پرچی سوا لاکھ کی ہو گی، اسے سنبھال کے رکھنا۔

‘کامیابی کے پیچھے بھاگنے اور اس دوڑ کے نتیجے میں پیش آنے والی مشکلات کا سامنا کرنے سے ایک عام سی مطمئن اور پرسکون زندگی زیادہ بہتر ہوتی ہے‘‘۔ اس نے جرمن زبان میں یہ نوٹ لکھا اور وہ پرچی کوریئر کو تھما دی۔ یہ آٹوگراف دو لاکھ چالیس ہزار ڈالر میں ابھی دو تین ہفتے پہلے بیچا گیا۔ نیلام کرنے والوں کے اندازے سے کہیں زیادہ اس کی بولیاں لگائی گئیں اور بالآخر اسے ایک ایسے یورپی خریدار نے لیا جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بیچنے والا اس قاصد کا بھتیجا تھا۔

یہ ایک نصیحت شاید ڈھائی کروڑ ڈالر میں بھی خریدی جاتی تو مفت تھی۔ ’کامیابی‘‘ دماغ کی کسی ایک مخصوص حالت کا نام نہیں ہے، وہ ڈیفائن بھی نہیں ہو سکتی، کہ آپ اس لیول تک پہنچ گئے تو بس ہو جائے گی، نہیں، یہ ایک مسلسل سفر ہے اور اس کے راستے میں واپسی کے لیے سیڑھی بھی نہیں ہوتی، سانپ ہوتا ہے۔ سانپ سیڑھی کبھی کھیلی ہے؟ وہ جو لُڈو کے پچھلی طرف بنی ہوتی تھی؟ 99 نمبر کا سانپ سیدھا تیسرے گھر پہ لے آتا تھا۔ تو فرض کیجیے آپ نے ایک مقصد طے کیا کہ گاڑی لینی ہے اور گھر بنانا ہے۔ اب محنت شروع کر دی۔ دونوں چیزیں مل گئیں لیکن آپ بس نہیں کریں گے۔ پندرہ گھر، چالیس پلاٹ اور بیس گاڑیوں کے فلیٹ کے بعد بھی بس نہیں ہو گی۔ اگر اوپر جانے کی رفتار کم ہو گی یا ترقی تھم جائے گی تو اس میں پورا ہاتھ حالات کا ہو گا۔ اس سانپ کا جو تیسرے گھر پہ واپس لے آتا تھا۔ اس سارے گورکھ دھندے میں زندگی، دوست، یار، فیملی، رشتے، ناتے، ذاتی وقت سب کچھ بہت پیچھے رہ جائے گا۔ ایسا ہوتا ہے، ایسا روز ہو رہا ہے، میں کرتا ہوں، آپ کر رہے ہیں، پڑوسی اسی بھاگم بھاگ میں ہیں۔ سوال یہ ہے کب تک؟

دیکھیے یہ بات شاعرانہ لگ سکتی ہے لیکن اتنی غیر حقیقی بھی نہیں۔ کیا کم از کم دو یا تین گھنٹے ہر روز اپنے نام وقف نہیں ہو سکتے؟ انہیں بھی روپوں میں کنورٹ کرنا ضروری ہے؟ کیا چلتے ورکنگ ڈیز میں ایک چھٹی بغیر کسی بیماری یا ضروری کام کے نہیں لی جا سکتی؟

آئن سٹائن کی اس بات کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ بھنگ پی کے سوتے ہوئے زندگی گزار دی جائے۔ صرف اتنا سمجھنا مقصود ہے کہ بھائی، زندگی ہر وقت بھاگنے کا نام نہیں ہے۔ آرام سے، سکون سے، دھیرے دھیرے، صبر کے ساتھ سب کچھ مل جاتا ہے۔ مشین بن کے کمایا تو کیا فائدہ۔ اصل تھیوری آف ریلیٹیویٹی یہی ہے۔ وقت کے صحیح استعمال اور پرسکون زندگی کی ریلیٹیویٹی!
پس نوشت؛ نیئر مسعود، موراکامی، کافکا، بورخیس، مارکیز کی ہر اگلی کہانی، پکاسو اور ڈالی کی پینٹنگز، شمس الرحمن فاروقی کا ناولٹ، قبض زماں، مرزا اطہر بیگ کا ناول ’حسن کی صورت حال، خالی جگہ پر کرو‘‘ یہ سب کچھ بنیادی طور پہ اسی تھیوری آف ریلیٹیویٹی کا شاہ کار ہے۔ وہ جو وقت نکلے اس میں ان پر بھی ایک نظر ڈالی جا سکتی ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain