جب مظلوم خود ظالم بن جاتے ہیں


”آپ اپنے اعتقادات پر سوال نہیں‌ کرتے، آپ نہیں‌ کرسکتے جبکہ میرے لیے ایسا کرنا لازمی ہے!“

ہپاتیا نے جواب دیا جب ان کے دو شاگردوں‌ نے اس کی زندگی بچانے کے لیے ان کو عیسائیت قبول کرنے کی دعوت دی۔

میں‌ حال ہی میں‌ بلقان گھومنے گیا تھا جہاں کا سفر میں‌ نے بوسنیا سے شروع کیا۔ جب سے میری دوستی ویداد سے ہوئی جو کہ بوسنیا میں‌ جنگ چھڑنے کے بعد پناہ گزین کی حیثیت سے امریکہ آگیا تھا، میں‌ بلقان دیکھنا چاہتا تھا۔ میں‌ کروئیشیا، مانٹی نیگرو، کوسووو، مقدونیہ اور آخر میں‌ یونان پہنچا۔ میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ ایکروپولس گھوموں اور قدیم یونانی تہذیب کے کھنڈرات دیکھوں جن کے آرٹ اور آرکیٹیکچر کے بارے میں‌ میں‌ نے اوکلاہوما اسٹیٹ یونیورسٹی میں آرکیٹکچر ڈپارٹمنٹ میں‌ کچھ کلاسیں‌ لینے کے دوران سیکھا تھا۔ ان قدیم عمارات کی خوبصورتی، ان کا حجم، مجسمہ سازی، حس لطیف اور ان کے بنانے والوں‌ کی مہارت سے میں‌ بہت حیران اور متاثر ہوا۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ اتنے پرانے وقتوں میں‌ جب کوئی نئی مشینیں اور ایجادات موجود نہیں‌ تھیں، انہوں‌ نے یہ سب کچھ کیسے بنایا؟ میں‌ دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا انہوں‌ نے اپنے پیچھے کچھ نشانات چھوڑے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے؟ ان کا فلسفہ کیا تھا؟ فلکیات کے میدان میں‌ انہوں‌ نے کون سی چیزیں دریافت کی تھیں؟ اور انہوں‌ نے ریاضی میں‌ کیا سیکھا تھا؟

وہاں‌ میں‌ کئی میوزیم میں‌ گیا جہاں‌ میں‌ نے پانچ سو سے ایک ہزار قبل مسیح میں‌ بنائے ہوئے نوادرات اور جواہرات دیکھے جن کی خوبصورتی دیکھ کر میں‌ سکتے میں‌ رہ گیا۔ مجھے سکھر کا صرافہ بازار آج بھی یاد ہے جہاں میرے آبائی شہر میں سنار ہاتھوں‌ سے زیورات بناتے تھے۔ میں‌ سوچ میں‌ پڑ گیا کہ آج کل کی ماڈرن ٹیکنالوجی ہوتے ہوئے بھی لوگ اب ایسی چیزیں نہیں‌ بنا سکتے۔ یونانی اور رومی زمانہ بالآخر اپنے زوال کو پہنچا تھا اور اس علاقے میں عیسائیت نے قدم جما لیے تھے۔ ہم بازنطینی زمانے کے آرٹ، آرکیٹیکچر، نوادرات اور میوزیم میں وہ فرق واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں جو اس پیمانے کے نہیں‌ تھے۔

آجکل دنیا میں تفریح کا بہت سامان ہے، بڑے بجٹ کی فلمیں بن رہی ہیں، ہم بہت سارے ٹی وی ڈرامے دیکھتے ہیں لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی ایسی بھی فلمیں‌ بنیں‌ جن سے ہم تاریخ کے تناظر میں آج کی دنیا کا جائزہ لے سکیں۔ اگورا 2009 میں‌ ریلیز ہوئی تھی جس کو چوتھی صدی بعد مسیح کے رومی مصر کے پس منظر میں‌ فلمایا گیا ہے۔ یہ کہانی ہپاتیا کے کردار کے گرد گھومتی ہے جو ایک مشہور خاتون حساب دان، فلسفی، ماہر فلکیات ہیں جو پہلے سے قائم شدہ سورج کو مرکز ماننے والے نظریات میں‌ غلطیوں کی نشان دہی کرکے اس کو بہتر بنانے پر تحقیق کرتی ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بت پرستی زوال پذیر تھی اور عیسائیت طاقت پکڑ رہی تھے۔ جیسے جیسے عیسائیت طاقت ور ہوتی چلی گئی، لوگ اپنے مذاہب بدل کر بت پرست سے عیسائی بننے لگے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب بت پرستوں نے محض تفریح‌ کے لیے عیسائیوں‌ کو سولیوں‌ پر چڑھایا اور ان کو زندہ بھوکے شیروں‌ کے آگے پھینک دیا۔ اب عیسائی کھلم کھلا ان بت پرستوں کا مذاق اڑانے لگے، وہ شہر کے مرکز، جس کو اگورا کہتے تھے، میں جمع ہوکر تبلیغ کرتے اور ان پتھر کے خداؤں‌ پر کوڑا پھینکتے۔ یہ حالات دیکھ کر یہ بت پرست شدید ناراض ہوئے اور انہوں‌ نے اپنے حامیوں‌ کو اپنے خداؤں کی ”عزت کی حفاظت“ کے لیے ان عیسائیوں‌ کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور لڑنے پر اکسایا۔

ہپاتیا اس سارے قضیے میں‌ کچھ حصہ لینا نہیں‌ چاہتی تھیں۔ انہوں‌ نے اپنے شاگردوں کو اس شدت پسندی اور تنازعے سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ ان کو معلوم تھا کہ ان کے کچھ شاگرد عیسائیت قبول کرچکے ہیں‌ اور اس جھگڑے میں‌ شامل ہونے سے ان کے شاگرد ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوجاتے۔ وہ اگورا میں‌ ہونے والے خون خرابے کو روکنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔ بت پرستوں‌ کے اگورا میں‌ حملے کی خبر پھیلی تو عیسائی جمع ہوکر ان سے لڑنے پہنچے۔ جب بت پرستوں‌ نے دیکھا کہ وہ تعداد میں‌ کم ہیں تو وہ بھاگ کر سیاراپیم میں‌ پناہ لیتے ہیں جہاں‌ گزرے ہوئے قدیم انسانوں‌ کی معلومات اور دانائی کا ذخیرہ تھا۔ سیراپیم کو عیسائیوں‌ نے گھیرے میں‌ لے لیا لیکن شہنشاہ نے بیچ میں پڑ کر ان بت پرستوں‌ کو اس شرط پر معافی دے دی کہ وہ شہر چھوڑ کر نکل جائیں۔

اس سے پہلے کہ لائبریری کو لوٹ مار کر جلا دیا جائے، ہپاتیا اور ان کے شاگردوں‌ نے مسودے اور کتابیں‌ بچانے کی کوشش کی۔ یہ تاریخ کا اہم موڑ تھا جب ہپاتیا کے کچھ شاگردوں نے حکومتی اداروں‌ میں‌ طاقت ور حیثیت حاصل کرلی تھی۔ ان میں‌ سے ایک شہر کا محافظ اور دوسرا عیسائی بشپ بن جاتا ہے۔ اس وقت دانشوری پر پہرے بٹھائے گئے، مذہبی بنیادوں‌ پر سورج کے مرکز ہونے پر سوال اٹھانے کی اجازت چھین لی گئی اور ہپاتیا کے پڑھانے پر پابندی لگا دی گئی۔ جب اسکندریہ کا پرانا بشپ مرگیا اور نئے بشپ سرل نے اس کی جگہ لی تو وہ بت پرستوں اور یہودیوں کا قتل عام کرتا ہے اور ان کو شہر سے نکال دینا ہے۔ ایک غلام جو نیا عیسائی تھا، اس ظلم کو ہوتے دیکھ کر کہتا ہے کہ ”عیسیٰ نے سولی پر لٹکتے ہوئے بھی یہودیوں‌ کو معاف کردیا تھا۔ “ تو ایک عیسائی کہتا ہے کہ عیسیٰ خدا تھے، دوسرا کہتا ہے کہ کیا تم خود کو خدا سمجھتے ہو؟ اور تیسرا چلاتا ہے، توہین مذہب! سب غیر عیسائیوں‌ کے سامنے یہی راستے تھے کہ یا تو عیسائی بن جائیں یا موت قبول کریں یا ملک بدر ہوجائیں۔ سرل کی نظر حکومت کی رٹ کو بے معنی کردینے پر مرکوز تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ہپاتیا اس کی سازش کو سمجھتی ہے اور اس کے پرانے شاگردوں‌ اوریٹس جو شہر کا محافظ تھا اور سینی سیس جو اب سرین کا بشپ ہے، پر اب بھی اس کا اثر ہے۔

سرل اتور کی چرچ سروس میں‌ پڑھتا ہے کہ ”تمام سینٹس کی مجلسوں کی طرح چرچ میں خواتین کو خاموش رہنا چاہیے۔ ان کو بولنے کی آزادی نہیں‌ ہے، بلکہ قانون کے لحاظ سے ان کو بے اختیار ہونا چاہیے۔ اگر وہ کوئی سوال کرنا چاہیں تو انہیں اپنے گھروں‌ میں‌ اپنے شوہروں سے کرنا چاہیے کیونکہ یہ ذلت کی بات ہے کہ کوئی خاتون چرچ میں‌ کوئی سوال کرے۔ “ طط33۔ 35۔ یہ پڑھنے کے بعد وہ ہپاتیا کو چڑیل کہتا ہے اور بائبل اٹھا کر اوریٹس کو خدا کے لفظ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا حکم دیتا ہے۔ اس طرح‌ وہ حکومت کی طاقت پر قبضہ جماتا ہے۔ اوریٹس سمجھ جاتا ہے کہ سرل کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنے کا مطلب خدا کے آگے گھٹنے نہ ٹیکنے کے برابر ہوگا۔

وہ ہپاتیا کو بچانے کے لیے آخری کوشش کے طور پر اس کو عیسائی بن جانے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہپاتیا ان کی بات سن کر کہتی ہے کہ ”تم اپنے اعتقادات پر سوال نہیں‌ اٹھاتے، تم نہیں‌ اٹھا سکتے جبکہ میرے لیے ایسا کرنا لازمی ہے۔ “ وہ سمجھ گئی تھی کہ دانشوری کا دور ختم ہوچکا تھا اور اب وہ محفوظ نہیں‌ تھی۔ وہ محافظوں کو اپنے ساتھ آنے سے انکار کرکے محل سے باہر نکل جاتی ہے جہاں‌ عیسائی جتھے اس کے کپڑے پھاڑ کر، اسے سنگسار کرکے اس کے جسم کے ٹکڑوں کو اسکندریہ کی سڑکوں‌ پر ٹھوکریں مارتے پھرے۔ اس طرح یونان اور روم کی تہذیب کا زوال ہوا اور مشرق میں‌ بازنطینی اور مغرب میں‌ کیتھولک شہنشاہیت کے ساتھ مغرب کے تاریک دور کا آغاز ہوا جس میں‌ وہ ایک ہزار سال تک ڈوبا رہا۔ نشاط ثانیہ کے بعد آرٹ اور آرکیٹیکچر کے میدانوں‌ میں‌ پھر سے ترقی ہوئی لیکن وہ ہنر میں‌ قدیم یونانی اور رومی تہازیب کے مقابلے کی نہیں‌ ہے۔

مذاہب کے پیروکاروں نے انسانوں‌ کو سکھایا کہ تقلید نیکی ہے اور عقل گمراہی۔ نئے مذاہب نے پرانے مذاہب کی جگہ لی جن کے ماننے والے شروع میں‌ منکسر اور کمزور اقلیت تھے جن کے تیور طاقت حاصل کرنے کے بعد بدل گئے۔ لوگوں‌ کے دل ودماغ کو فتح‌ کرلینے کے بعد انہوں‌ نے اپنی نظر حکومت کی طاقت پر جمائی۔ جس طرح‌ شروع میں‌ ان پر اپنی مرضی سے سوچنے اور عبادت کرنے پر پابندی تھی بالکل اسی طرح‌ انہوں‌ نے طاقت حاصل کرنے کے بعد دیگر اقلیتوں کے ساتھ کیا۔ انہوں‌ نے حکومت حاصل کرلینے کے بعد اقلیتی شہریوں‌ کے حقوق کی حفاظت کرنے سے انکار کردیا۔ مظلوم ظالم بن گئے۔ انہوں‌ نے اپنے مذہب کو اپنے ملک کا مذہب بنا دیا، اقلیتوں کی عبادت گاہیں‌ ڈھادیں اور اپنے مذہب کو بلاتفریق سب پر مسلط کرنا شروع گیا۔

انہوں‌ نے جنونی ہجوم بنائے جن کا کام سڑکوں‌ پر عام افراد کے دلوں میں‌ خدا کا خوف بٹھانا تھا۔ وہ اختلاف رائے کو تشدد سے کچلتے اور آزادیء اظہار کو توہین مذاہب کا نام دے کر دباتے تھے۔ ہزار سال بعد یورپ اس تاریک دور سے نکلا جس میں‌ ان گنت لوگوں‌ نے اپنی جانیں‌ گنوائیں، ان پر تشدد ہوا اور بے معنی مذہبی جنگیں‌ چھڑیں۔ آج کے یورپ نے اپنی تاریخ‌ سے سبق سیکھا، نئی ایجادات سے نئے راستے اور نئے علاج دریافت کیے۔ بدقسمتی سے ہم آج بھی ایک تاریک دور سے گزر رہے ہیں، جس کے جوشیلے آج بھی جنونی جتھے بنا کر سڑکوں‌ پر دہشت پھیلانے نکلے ہیں، وہ حکومت کی طاقت پر نظر جمائے بیٹھے ہیں۔ حکومت میں‌ ان کا سامنا کرنے کی جراءت نہیں ‌اور تاریخ خود کو ہماری آنکھوں‌ کے سامنے پھر سے دہرا رہی ہے۔

مترجم: ڈاکٹر لبنی مرزا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).