پشاور دھماکہ، آرٹیکل چھے اور مذہبی سیاسی اکٹھ


\"adnan

پشاور میں سنہری مسجد روڈ کے قریب سیکرٹریٹ کے ملازمین کی بس میں دھماکے سے سترہ افراد شہید اور خواتین و بچوں سمیت پچپن زخمی ہوگئے۔ سی ٹی ڈی تھانے میں نامعلوم شرپسندوں کے خلاف دھماکے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جبکہ زخمیوں میں بعض کی حالت تشویشناک ہے۔

ملک کی تمام بڑی دینی جماعتوں نے پشاور کے بم دھماکے کو خلاف اسلام قرار دیتے ہوئے ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں سڑکوں پر بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا جائیگا۔ دینی جماعتوں نے باضابطہ طور پر پشاور بم دھماکے کو قرآن و سنت اور آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف ہر سطح پر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سستی کے خلاف سخت مزاحمت کا عندیہ دیا ہے۔ یہ اعلان جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دینی جماعتوں کے قائدین کے مشاورتی اجلاس کے بعد امیر جماعت اسلامی پاکستان کے سینیٹر سراج الحق، جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کے سربراہ علامہ انس نورانی‘ ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری اور دیگر رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کیا۔ احتجاج کی حکمت عملی طے کرنے کیلئے دینی جماعتوں کا ایک اور مشاورتی اجلاس اگلے دن جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر منصورہ لاہور میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا عمل بد نیتی پر مبنی ہے۔ ہم پوری عوامی قوت کے ساتھ پاکستان کے نظریاتی تشخص کی حفاظت کیلئے نکلیں گے۔ اگر حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے میں سستی دکھائی تو حکومت میں رہتے ہوئے بھی مخالفت کریں گے۔ یہ روایت ختم ہو نی چاہیے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے معاملات پر اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔

میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کے ذریعے عوام کو امن کے دین اسلام سے بدظن کر کے پاکستان کو سیکولر ملک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بم دھماکوں سے شہید ہونے والے لوگوں کے یتیم مسکین بچے معاشرتی نظام کو تباہ کردیں گے۔ ہم نے پرسوں مرکز جماعت اسلامی منصورہ لاہور میں تمام مذہبی جماعتوں کا اجلاس بلایا ہے جس میں دہشت گردی کے حوالے سے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

\"mansoora-1\"

منصورہ میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں دہشتگردی کے حوالے سے لائحہ عمل کی تشکیل پر غور کیا گیا۔ اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عمل کیا جائے، دو اپریل کو علماء ومشائخ کانفرنس اسلام آباد میں منعقد کی جائے گی، جس میں آئندہ کا لائحہ عمل اور تحریک کا اعلان کیا جائے گا۔

اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کر کے ملکی معاشرت کو اس سے پاک کیا جائے۔ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ سب کا اجتماعی مطالبہ ہے۔ مدارس اور مساجد سے اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیےنیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پرعمل درآمد کیا جائے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا شیرانی نے تمام اراکین اسلامی نظریاتی کونسل کی طرح سے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں پر آرٹیکل چھے کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ یہ مطالبہ کرتے ہوئے وہ غصے کی شدت سے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے اس عفریت کے ہاتھوں ساٹھ ستر ہزار پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں، ساٹھ ستر ہزار گھر ٹوٹ چکے ہیں، اور حکومت ابھی بھی اس عفریت کو ختم کرنے میں تساہل سے کام لے رہی ہے۔

اجلاس کے دوران جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے تھے کہ نواز شریف برسر اقتدار آکر اچھے کام کریں گے لیکن سب کچھ الٹ ہو رہا ہے۔ دہشت گردی کوختم کرنے کی کوششیں دل سے نہیں کی جارہی ہیں۔ دہشت گردوں سے مزاکرات بے سود ہوں گے، اس کے خلاف ڈٹ جائیں اور تحریک کے ذریعے اسے ختم کرائیں۔

کاش کہ یہ سب ایسے ہی ہوا ہوتا جیسے لکھا ہے۔ افسوس کہ یہ سب ہمارے ارمان ہی ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کی یہ ساری بھاگ دوڑ مذہب کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کے خلاف نہیں، بلکہ مردوں کو اپنی عورتوں کے خلاف دہشت گردی کرنے سے روکنے کے لیے بنائے جانے والے تحفظ نسواں قانون کے متعلق ہوئی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف سب سے توانا آواز سیاسی پارٹیوں میں صرف اے این پی اور ایم کیو ایم کی جانب سے سنائی دیتی ہے۔ لیکن اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی حمایت نہ ہونے کے باوجود میاں نواز شریف نہایت دلیری اور خاموشی سے دہشت گردی کے خلاف کام کر رہے ہیں۔

اس قانون سے ان جید علما کو یہ گمان ہے کہ چند گھر ٹوٹ جائیں گے اور اس بنا پر وہ اس قانون کی تن من دھن سے مخالفت کر رہے ہیں۔ لیکن جس انتہا پسندانہ سوچ کے باعث ساٹھ ستر ہزار گھر حقیقتاً ٹوٹ چکے ہیں، کیا اس کے خلاف وہ ایسے ہی جوش و جذبے سے مشترکہ حکمت عملی بنائیں گے اور حکومت کو مدد دیں گے؟

یا پھر میاں نواز شریف اور فوج یہ دیکھ کر کہ علما کا طبقہ دہشت گردی کے خلاف کھل کر ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہے، لبرل اور سیکولر ہونے میں ہی ملک کی سلامتی جاننے میں حق بجانب تصور کیے جائیں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments