دانشوروں کے خدشات اور آج کا پاکستان


جون ایلیا کے لئے تو ایک ہی ’حادثہ‘ تھا کہ ’آج تک بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سُنی گئی۔ ‘ اِس کو لیکن کیا کہیے کہ جب بات کہی جائے مگرسُنی نہ جائے۔

کیا کیا نابغہٴ روزگار اور اہلِ بصیرت لوگ تھے کہ دہائیاں پہلے وہ دُہائیاں دے گئے جو آج کی اخبارات کی شہ سرخیاں بنتیں ہیں۔ ’فگار انگلیوں‘ میں ’خامہٴ خونچکاں‘ لئے وہ ’حکایتِ دل‘ لکھتے رہے۔ اہلِ علم و فراست، اربابِ اختیار و سیاست اور اَن دیکھے ناخداوٴں کے لئے یہ سب بِین ہی ثابت ہوئی۔ اس جرم کی پاداش میں کہ ان کی ’آنکھ دیکھ سکتی‘ تھی ان پر ’ٹوٹ پڑا سارا شہرِ نابینا۔ ‘ تمام زاہد وعابد و واعظ و شیخ میم میخ نکالتے رہے۔ رشکِ قیس و ’ہمسرِلیلیٰ‘، وہ سب ’گناہ گار‘ جو ’جرمِ عشق‘ پہ نازاں تھے، نایاب ہوتے رہے۔

عرصہ ہوا ایک ’گستاخ‘ منٹو ہوا کرتا تھا۔ پچاس کی دِہائی میں اُس کے قلم کی کاٹ نے مستقبل کا سینہ چیر کرآنے والے خطرات کی نشاندہی کر دی تھی۔ انکل سام سے باریش بھائیوں کے لئے اسلحے کی فرمائش کرتے ہوئے جس رجحان پر منٹو نے طنز کیا تھا، پوری قوم آج اُس سے فیض یاب ہورہی ہے، صرف فیض آباد کے اردگرد رہنے والے نہیں۔ جو منٹو نے کہا، وہ وقت نے دکھایا۔ اسلحے کی ریل پیل ہوئی۔ جوان اور بچے جا بجا پھٹے۔ اہلِ علم و فراست، اربابِ اختیار و سیاست اور اَن دیکھے ناخداوٴں کے کان پر مگر جُوں تک نہ رینگی۔

غلام عباس نے انیس سو انہتر میں ’دھنک‘ نام کا ایک افسانہ لکھا تھا۔ لاہور میں ہوئی تنقید کے بعد اُس شریف النفس آدمی نے اس افسانے کے بارے چُپ سادھ لی۔ بہت سالوں تک ایک محدود طبقہٴ فکر ہی اس سے واقف رہا۔ ’اجوکا‘ تھیٹر والوں کا بھلا ہو کہ انہوں نے ’ہوٹل موہنجوداڑو‘ کے ذریعے اسے عوام سے متعارف کروایا۔ غلام عباس کے ’دیدہٴ بینا‘ نے طاقت و سیاست کے کھیل میں مذہب کے نفوذ کے نتائج آشکار کر دیے تھے۔ بذریعہ نِت نئی مذہبی تشریحات ’دھنک‘ رنگ پگڑیاں ہمارے سروں پر سجتی رہیں اور ان سے وابستہ سوچ ہمارے فکروعمل میں سرایت کرتی گئی۔ نتیجہ وہی جس کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ ہم الٹے پاوٴں ماضی کی جانب سفر کرنے لگے۔ بقول زاہدہ حنا ’دھنک‘ کی ایک ایک سطر ہمارے لئے باعثِ عبرت ہے۔ اہلِ علم و فراست، اربابِ اختیار و سیاست اور اَن دیکھے ناخداوٴں نے لیکن اس سے سبق لینا اپنی توہین جانا۔

اسی غلام عباس نے 1937میں ایک ناولٹ ’جزیرہٴ سخنوراں‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ گو کہ اس میں طنز کا نشانہ ادیب و شاعر ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارے عہد کے علما کی بات ہو رہی ہے۔ شوکت صدیقی نے ’جانگلوس‘ میں استحصالی طبقوں کے ہتھکنڈے کھول کھول کر بیان کیے تھے۔ قرۃالعین حیدر نے’آگ کے دریا‘ میں ان رویوں کی جانب اشارہ کیا جو بالآخر تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔

آسکر وائلڈ نے اپنے ایّامِ اسیری میں ایک خط اپنے دوست لارڈ الفرڈ ڈگلس کو لکھا تھا۔ خط کا عنوان تھا، ’دی پروفندیس‘ جس کے معنی ہیں ’روح کی گہرائی سے۔ ‘ ہمارے دانشور بھی ’روح کی گہرائیوں‘ سے واویلا کرتے رہے مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ، ہم عِلم کی ان بلندیوں پر پہنچے کہ آج اردو ادب میں پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے والے بہت سے ساتھی بھی اس ادبی خزانے سے نا واقف ہیں جو تاریخی و سماجی و سیاسی شعور فراہم کرتا ہے۔

کم علمی کی اس روانی و فراونی میں مطعون و ملعون ٹھہرے تو یہی دیدہ ور۔ یہی خدشات تھے جنھیں اہلِ نظردانشور اور حساس طبع لوگ وقت سے بہت پہلے جان گئے تھے اورانہوں نے پاکستان بننے کے ابتدائی سالوں میں ہی اسے چھوڑ جانا مناسب جانا۔ ساحر لدھیانوی، قرۃ العین حیدر، استاد بڑے غلام علی، یہ چند نام ہیں جو پاکستان کو خیرآباد کہہ گئے۔ اور وہ ’گستاخ‘ منٹو تو غم غلط کرتے کرتے شراب ہی میں گُھل گیا۔ ادب و فن کے درخشاں ستارے۔ کیا کیا گہرِ نایاب تھے۔ ’ڈھونڈو‘ اب انہیں ’ملکوں ملکوں۔ ‘

کہتے ہیں کہ انجیلِ مقدس میں شاعروں (دانشوروں) کا ذکر بصد احترام موجود ہے گو کہ ان کے لئے لفظ ’پیغمبر‘ استعمال کیا گیا ہے۔ ایسا ہو نہ ہو مگر قدیم یونان میں شاعر کو ’پیغمبر‘ ہی سمجھا جاتا تھا۔ اور ’پیغمبر‘ سے مراد وہ جس کی ماضی و مستقبل کی دبیز تہوں میں چھپے اسرار پر نظر ہو اور حال کی سوجھ بوجھ اس آگہی کے تابع ہو۔ اگر ہم یونان میں ہوتے تو خدا جانے، کتنی توہین کے مرتکب ہوتے۔

مُورکھ نوں کیہ پند نصیحت، پتھر نوں کیہ پالا
دُدھاں اندر کاگ نوہائیے، اَنت کالے دا کالا
میاں محمد بخش


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).