’اسی تسی لسی پیتی‘


رچرڈ ہالبروک کو پاکستان کا نیا وائسرائے کہیں یا انکل سام کا نیا روپ۔ چاہے اسے آپ اسلام کا سب سے بڑا دشمن مانیں یا آصف زرداری کا سب سے اچھا دوست۔ رچرڈ ہالبروک کی ایک بات سے مجھے سو فیصد اتفاق ہے۔ انہوں نے واشنگٹن میں ایک بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سوات کے مہاجرین کو آئی ڈی پی نہ کہا جائے یہ لوگ انسان ہیں کسی بیوروکریٹ کی بنائی ہوئی اصطلاح نہیں۔

آئی ڈی پی جس کی بھی اختراع ہے اس نے ایک مخفف ایجاد کر کے، بلکہ غالباً اقوام متحدہ کی کسی رپورٹ سے سرقہ کر کے سمجھا ہے کہ مسلۂ حل ہو گیا۔ سوات کے مہاجرین، یا مالاکنڈ کے بے گھر مسافر، یا ہماری آپ کی طرح کے ماؤں بہنوں بچوں والے تیس لاکھ سے زائد لوگوں کو جس نے بھی آئی ڈی پی کہا ہے اس نے متاثرین کے ساتھ بھی زیادتی کی ہے اور ان کے میزبانوں کے ساتھ بھی۔
سوات کے مہاجرین کی طرف ہماری بے رخی کی وجوہات لسانی، سیاسی اور سیدھی سادی کمینگی تو ہوں گی ہی لیکن اس کی ایک وجہ ان کو دیا جانے والا نام بھی ہے۔ کسی بابو کا بنایا ہوا مخفف کسی کے دل میں کیا ہمدردی پیدا کرے گا؟

اگر تقسیم ہندوستان کے وقت پاکستان آنے والے مہاجرین کو اگر آئی ڈی پی کی طرز پر‘ کم مسلم آبادی والی ریاستوں میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بغیر ٹکٹ ٹرینوں پر سفر کرنے والے مسافر‘ کا نام دیا جاتا تو سندھ میں کون انہیں گلے لگاتا۔

اگر مکہ سے ہجرت کرنے والے صحابہ کرام کو کوئی ’مکہ کے مفرور‘ کہتا تو مدینہ کے کتنے انصار ان پر اپنے دروازے کھولتے۔
اور اگر واقعہِ کربلا کے بعد سیدین کے لٹے پٹے قافلوں کو ’حاکم وقت کے خلاف ہنگامہ آرائی کرنے والے خانوادے کے ارکان‘ یا کوئی اور اچھا سا مخفف ڈھونڈ لیا جاتا تو ان کے نوحے کون پڑھتا۔

آئی ڈی پی تو سننے میں بھی اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کا غریب کزن لگتا ہے۔ یا کوئی ایسی چھوٹی سیاسی جماعت جس کا بانی تک یہ بھول گیا ہو کہ وہ کن الفاظ سے مل کر بنی تھی۔
یا پھر آئی ای ڈی کا بھائی لگتا ہے۔ یہ اصطلاح امریکیوں نے عراق میں ایجاد کی تھی۔ امپرووائیزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائیس۔ جسے پرانے زمانے میں پاکستانی اخبارات دیسی ساخت کا بم کہتے تھے۔ (اب ایسا نہیں کہتے کیونکہ دیسی بچہ پرورش پا کر پانچ سو کلو گرام کا ہو چکا ہے اور شہزور ٹرک سے کم کسی بھی چیز میں فٹ نہیں آتا)۔

اردو کے پرانے قاعدوں میں پڑھایا جاتا تھا کہ کچھ الفاظ مجہول ہوتے ہیں یعنی صرف زبان میں موسیقیت کے لیے استعمال کیے جاتے جیسے گپ شپ میں شپ۔ پوری صورتحال کو دیکھ کر فلم مسٹر انڈیا کا وہ سین یاد آتا ہے جس میں سری دیوی چینی رقاصہ کا روپ دھار کر ولن کے سامنے بظاہر چینی زبان میں گانا گاتی ہے گانے کا ایک مصرع ہے: ’اسی تسی لسی پیتی‘ وہ ایسے لمبے سر میں گاتی ہے کہ ولن بھی داد دیتا ہے۔ یہی مصرع آئی ڈی پی پر بھی صادق آتا ہے۔
سوات میں لاکھوں لوگوں نے بے وطنی کا کشٹ کاٹا، اپنے ہم وطنوں کے کٹھور پن کا زہر چکھا۔ اور ’اسی تسی صرف لسی پیتی‘۔
11 جون 2009


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).