عطا آباد جھیل میں آباد گاؤں


ہم نے سنا ہے کہ آپ ہمارے گاؤں آ رہے ہیں۔ ۔ ۔
ویران ریسٹ ہاؤس یونانی دیو مالا کا ایک ’’لوٹس آئے لینڈ‘‘ تھا۔ ۔ ۔ افیونیوں کا ایک جزیرہ تھا۔ یہاں آپ کو شمال کی بہترین روایتی خوراک ملتی تھی اور اس کے باغ بہاراں میں ملتی تھی اور ذرا سی ہوا کے چلنے سے آپ کی ڈائننگ ٹیبل پر ٹپ ٹپ سیب گرنے لگتے تھے، چیریوں کے چہرے سرخ ہو جاتے تھے اور خوبانیوں کے زرد سورج طلوع ہونے لگتے تھے۔ استقبالیہ کے درو دیوار پر میری تصویریں آویزاں تھیں کہ ’’را کا پوشی نگر‘‘ کے سفر کے کچھ دن یہاں گزرے تھے۔ جب اسرار نے اپنے خاندان کی سب سے قیمتی متاع، ایک منقش اونی چوغہ جو اس کے وادئی یاسین کے گورنر عزیز اوڑھا کرتے تھے، تحفے کے طور پر مجھے پہنا دیا۔ ۔ ۔

میں نے دیکھا کہ شاہد زیدی صاحب۔ ۔ ۔ ایک بہت تناور سیب کے درخت کے گھاس پر گرے ہوئے کچے سیبوں کو اٹھا رہے ہیں، اُنہیں کچر کچر کھا رہے ہیں اور مسکرا رہے ہیں اور ہوا کا ایک تیز جھونکا را کا پوشی کی جانب سے اترا اور سیبوں کی گویا بارش ہونے لگی۔ ۔ ۔ اور میں فکر مند ہو گیا۔ ۔ ۔ اگر اُن میں سے کوئی سیب براہ راست زیدی کی کھوپڑی پر گرتا تو وہ فی الفور جاں بحق ہو جاتا۔ ۔ ۔ زیدی فوٹو گرافر کا آخری چشم و چراغ گل ہو جاتا۔ ۔ ۔ ویسے مرنا تو سب کو ہے لیکن ایک سیب کے گرنے سے مرجانا بھی ایک منفرد اعزاز ہے۔ بے شک کشش ثقل دریافت ہو پھر بھی سبحان اللہ۔ ۔ ۔ اگر مجھے یہ اعزاز نصیب ہو تو اخباروں میں اور ٹیلی ویژن پر بریکنگ نیوز کی کیا ہی شاندار سرخی لگے گی۔ ۔ ۔ ملک کے مایہ ناز۔ ۔ ۔ پتہ نہیں کیا کیا ناز۔ ۔ ۔ آج انتقال کر گئے۔ ۔ ۔

اچھے بھلے پنیر کے آملیٹ کا ناشتہ را کا پوشی کے سائے میں کر رہے تھے کہ ناگہانی طور پر ایک سیب اُن کی کھوپڑی پر آگرا۔ ۔ ۔ جاں بحق ہو گئے۔ ۔ ۔ اللہ مغفرت کرے عجب آوارہ گرد مرد تھا۔ ۔ ۔ اُن کے آخری الفاظ تھے۔ ۔ ۔ مجھے ایک اور پنیر کا آملیٹ لادو۔ ۔ ۔ عجب پیٹو مرد تھا۔ ۔ ۔ اگلے روز ہم نے دریا پار کیا اور ہنزہ میں قدم رکھا۔ ۔ ۔ اور تب مجھے خیال آیا کہ دریائے گلگت کے بہاؤ میں کچھ برس پیشتر ایک چٹانی رکاوٹ آ گئی اور بہت سے گاؤں اس کے پانیوں میں ڈوب گئے تھے۔ ایک وسیع جھیل نمودار ہو گئی تھی، بلند چٹانوں میں گھری ایک جھیل جس کی تہ میں گاؤں شاید ابھی تک آباد تھے۔ ۔ ۔ چنانچہ میری خواہش کے مطابق ہم کریم آباد کی بلندیوں کی جانب نہ گئے۔ عطاء آباد جھیل کی جانب شاہراہ قراقرم کے مسافر ہو گئے۔ ۔ ۔

چینی بھائیوں نے ہماری سہولت کی خاطر شاہراہ کے اُن حصوں میں سرنگیں تعمیر کر دی تھیں جہاں اکثر ذرا سی بارش سے راستے مسدود ہو جاتے تھے۔ اب اوپر سے جو شجر گرتے ہیں، سیلاب آتے ہیں وہ ان سرنگوں کی چھتوں پر سے گرتے، بہتے جھیل کے پانیوں میں اتر جاتے ہیں۔

یہ ’’فرینڈ شپ ٹنل‘‘ اتنی شاندار اور مضبوط بناوٹ کی ہیں کہ مجھے خدشہ ہے کہ چینیوں نے انہیں ہمارے لیے نہیں، اپنے لیے تعمیر کیا ہے، اُن زمانوں کے لیے جب یہاں اُن کا دوستی بھرا راج ہو گا۔ امریکہ آ کر چلا جاتا ہے۔ چین جہاں جاتا ہے، پھر واپس نہیں جاتا۔

عطا آباد جھیل اگرچہ مصنوعی ہے، ایک جغرافیائی تغیر کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے، نشیب میں جو وادی تھی، جتنے گھر تھے وہ اس میں غرق ہو گئے اس کے باوجود بلند چٹانوں کے گرد گردش کرتے ہوئے گہرے پانیوں والی یہ جھیل، شمال کی سب جھیلوں سے الگ اپنی ہی شکل اور دل میں دہشت بھر دینے والی خوبصورتی کی حامل ایک انوکھی جھیل تھی۔ جھیل کے زمرد پانیوں کی سطح پر سیاحوں سے بھری موٹر بوٹس تیرتی چلی جاتی تھیں۔ ۔ ۔ البتہ سیاحوں نے زرد رنگ کی لائف جیکٹس پہن رکھی تھیں کہ اس جھیل کی گہرائی کی تہ میں شاید ابھی تک کچھ گاؤں سانس لیتے تھے۔ ۔ ۔

گلگت سے پھنڈر تک جانے والے کوہستانی راستے کے درمیان ایک جھیل خلطی نام کی پڑتی ہے۔ ۔ ۔ اور یہ جھیل بھی دریا کی روانی میں ایک ناگہانی پتھریلی رکاوٹ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی، اور جب میں اپنے بال بچوں سمیت وہاں سے گزرا تھا تو اب مجھے یہی خیال آتا تھا کہ کیا اس جھیل کے پانیوں میں ڈوب چکے گاؤں واقعی غرق ہو چکے ہیں یا کیا یہ ممکن ہے کہ ان گاؤں کے چولہے ابھی تک سلگتے ہوں۔ ۔ ۔ ٹھنڈے نہ ہوئے ہوں۔ عطا آباد جھیل کے کناروں میں سے پانیوں میں سے ظاہرہونے والے کچھ شجر تھے، وہ ابھی تک نہ ڈوبے تھے۔

میرے بچپن میں قومی کتب خانے نے جو کہ نسیم حجازی کے جہازی ناول شائع کرتا تھا۔ ۔ ۔ ’’پانی کے بچے‘‘ نام کا ایک ناول شائع کیا جو کسی انگریزی ناول کا اردو ترجمہ باتصویر تھا۔ پانیوں کی تہ میں ایک جہاں آباد ہے۔ بستیاں آباد ہیں اور وہاں کے بچے پانیوں میں تیرتے پھرتے ہیں۔ ۔ ۔ عطاء آباد جھیل کے پانیوں کے پار اگر ہماری نظر اتر سکتی۔ ۔ ۔ اس کی گہرائی میں ڈوب سکتی تو یہاں بھی پانیوں کے بچے تیرتے ہوئے دیکھے جا سکتے تھے۔
چشم تصور کو ذرا وا کیجیے۔ ۔ ۔ پانیوں کے بچے عطا آباد جھیل میں مچھلیوں کی مانند ڈبکیاں لگاتے، تیرتے نظر آنے لگیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar