یمن کی فراموش کردہ جنگ کا احوال


\"mujahid

سعودی عرب نے یمن میں شروع کی گئی جنگ کے ایک برس بعد دوبارہ حملے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی عرب نے دیگر عرب ملکوں کے اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے 25 مارچ 2015 کو یمن میں ایرانی تعاون سے قوت پکڑنے والے حوثی قبائل کی بغاوت ختم کرنے کے لئے فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا۔ جنگ بندی کا تازہ اعلان منگل کو صوبہ حجہ کے ایک شہر کی مارکیٹ پر دو میزائل پھینکنے کے واقعہ کے بعد کیا گیا ہے۔ اس حملہ میں 107 شہری ہلاک ہو گئے تھے جن میں 25 بچے بھی شامل تھے۔ شروع میں سعودی حکام نے اسے باغیوں کے خلاف جائز ہدف قرار دیا تھا تاہم تفصیلات سامنے آنے کے بعد بظاہر حملے بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ عرب اتحاد کی فضائیہ صدر عبدربو منصور الہادی کی فوجوں کی مدد کرنے کے لئے متحرک رہے گی۔ اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ چند ماہ پہلے اعلان شدہ جنگ بندی کی طرح یہ اعلان بھی وقتی ثابت ہو گا یا یمن میں جنگ کو ختم کرنے کے لئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا جائے گا۔ بظاہر اس بات کا امکان نہیں ہے۔

گزشتہ ایک برس کے دوران سعودی بمباری اور زمین پر اس کی مالی اور عسکری امداد سے جنگ لڑنے والی سرکاری فوج کی کارروائیوں میں 6 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں 40 فیصد تعداد بچوں اور عورتوں پر مشتمل ہے۔ اقوام متحدہ قرار دے چکی ہے کہ اس جنگ میں طرفین مسلمہ اصولوں سے انحراف کے مرتکب ہو رہے ہیں اور بعض صورتوں میں انسانیت کے خلاف جرائم سرزد ہوئے ہیں۔ گزشتہ ستمبر میں ایک فضائی حملہ میں ایک شادی میں شریک لوگوں پر بم پھینکے گئے تھے اور 131 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 25 ملین آبادی کے غریب اور تنازعات سے بھرپور اس ملک میں طاقتور سعودی عرب کی مداخلت سے صورتحال پیچیدہ اور مشکل ہو چکی ہے۔ ملک کے متعدد علاقوں میں قحط کی صورتحال ہے اور اکثر صورتوں میں بچوں کو مناسب غذا اور علاج میسر نہیں آتا۔ اس دوران دنیا کی توجہ شام کی جنگ اور بشار الاسد کی حکومت کے خاتمہ اور شام اور عراق میں داعش کو ختم کرنے کی طرف مبذول رہی ہے۔ ستمبر میں روس نے موثر طریقے سے دمشق حکومت کی اعانت کا اعلان کر کے 5 برس سے جاری شامی خانہ جنگی اور داعش کے خلاف کارروائیوں میں تحریک پیدا کی تھی۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی عرب یمن میں استحکام پیدا کرنے اور صدر الہادی کی عالمی طور سے تسلیم شدہ حکومت کو دوبارہ استوار کرنے کے لئے جنگی کارروائی میں مصروف رہا ہے۔ اس مقصد میں اسے اس حد تک تو کامیابی نصیب ہوئی ہے کہ سرکاری فوجیں عدن پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں اور صدر منصور الہادی اپنے ملک واپس چلے گئے ہیں۔ لیکن اس دوران حکومت میں شامل متعدد شخصیتوں کو دہشت گرد حملوں میں ہلاک کیا گیا ہے۔ ملک کا دارالحکومت صنعا بدستور باغی قبائل حوثیوں کے قبضہ میں ہے۔ اس کے علاوہ القاعدہ کا مقامی ونگ زیادہ مضبوط اور مستعد ہو گیا ہے۔ اس دوران چھوٹے بڑے کئی دہشت گرد گروہ بھی پیدا ہوئے ہیں اور ملک کے حالات مزید پیچیدہ اور مشکل ہو چکے ہیں۔ داعش نے یمن میں اپنی موجودگی کا احساس دلوایا ہے اور اپنے ہمدردوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ کیا ہے۔ دولت اسلامیہ نے یمن میں ہونے والے کئی حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔
اس تنازعہ کی طویل تاریخ ہے جس کا تعلق یمن کے قبائلی معاشرے اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم سے ہے۔ اس کے علاوہ سابق صدر علی عبداللہ صالح نے اقتدار کی ہوس اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے صنعا میں مضبوط حکومت کے قیام میں رکاوٹ کھڑی کی ہے۔ خود اقتدار سے محروم ہونے کے بعد انہوں نے انہی حوثی قبائل کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت پر حملے شروع کر دئیے جن کے خلاف اپنے دور حکومت میں وہ خود جنگ کرتے رہے تھے۔ صالح اور حوثی قبائل کے عسکری گروہوں نے مل کر 2014 میں صنعا سے صدر الہادی اور ان کی حکومت کو عدن میں پناہ لینے پر مجبور کیا لیکن جلد ہی یہ شہر بھی ان کے قبضے سے نکل گیا اور ملک کی قیادت کو سعودی عرب میں پناہ لینا پڑی۔ ان حالات میں سعودی عرب نے گزشتہ برس مارچ میں حوثی اور صالح کی افواج کو حتمی شکست دینے کے لئے باقاعدہ حملوں کا آغاز کیا اور اس جنگ جوئی میں پاکستان سمیت متعدد عرب اور اسلامی ملکوں کو شامل ہونے کی دعوت دی۔ قومی اسمبلی کی قرارداد کے بعد حکومت نے یمن کے خلاف جنگ کا حصہ بننے سے گریز کیا تھا لیکن سعودی عرب نے شروع میں ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد جلد ہی 34 ملکوں کے فوجی اتحاد کے قیام کا یک طرفہ اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان بھی اس اتحاد کا حصہ ہے۔ پاکستان کی حکومت اس بارے میں اب تک کوئی دو ٹوک موقف اختیار نہیں کر سکی ہے۔ لیکن سعودی عرب نے اس ماہ کے دوران جن مشترکہ جنگی مشقوں کا انعقاد کیا تھا، پاکستان کے وزیراعظم اور آرمی چیف دیگر مسلمان ملکوں کے سربراہوں کے ہمراہ ان کے آخری سیشن میں شریک ہوئے تھے۔ پاکستان کی طرف سے البتہ یہ اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ سعودی عرب کے خلاف جارحیت برداشت نہیں کی جائے گی۔ حالانکہ سعودی عرب کو فی الوقت کسی ملک سے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن تمام عالمی اصولوں کے تناظر میں یمن میں سعودی حملے ہمسایہ ملک کے خلاف جارحیت ہی قرار پائیں گے۔
سعودی عرب کی یمن کے بارے میں بے چینی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایران حوثی قبائل کی مالی اور عسکری امداد کر رہا ہے۔ سعودی حکام کو اندیشہ ہے کہ اس کے ہمسائے میں ایرانی اثر و رسوخ میں اضافہ اس کی سکیورٹی کے لئے خطرہ ہے۔ شام میں سعودی مداخلت اور عسکری گروہوں کی امداد کرنے کا مقصد بھی ایرانی اثر و رسوخ کو محدود کرنا تھا۔ تاہم ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ممالک ایران کی منڈیوں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح اسے ریجنل معاملات میں مداخلت کرنے کا باالواسطہ اختیار مل چکا ہے۔ یہ صورتحال سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے لئے مزید پریشانی کا سبب ہے کہ ان کا دیرینہ حلیف امریکہ جو ایران کو شیطانی قوت اور فساد کی جڑ قرار دیتا تھا ، اب اس کے ساتھ راہ و رسم بڑھاتے ہوئے علاقائی عرب ملکوں کے مفادات کو نظر انداز کر رہا ہے۔ مغرب کی طرف سے داعش کے قوت پکڑنے اور سیاسی اسلام کے فروغ کے نتیجہ میں سعوی عرب کے نظام اور مزاج پر بھی نکتہ چینی سامنے آنے لگی ہے۔ اس کے باوجود مغربی ممالک سعودی عرب کو مکمل طور سے ناراض نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ تیل سے حاصل ہونے والی دولت کی وجہ سے جدید مغربی اسلحہ کا بہت بڑا گاہک ہے۔ 2014 میں سعودی عرب دنیا میں اسلحہ خریدنے والے ملکوں میں سرفہرست تھا۔
امریکہ کی طرف سے یمن میں مصالحت کے لئے مداخلت نہ کرنے کی ایک وجہ تو شام کی جنگ اور داعش کی صورتحال ہے۔ لیکن صدر باراک اوباما نے یہ طے کیا ہے کہ وہ علاقائی معاملات میں امریکی افواج کو ملوث نہیں ہونے دیں گے۔ اسی لئے امریکہ بعض معاملات کے بارے میں واضح رائے رکھنے کے باوجود عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب میں شاہ سلمان کے برسر اقتدار آنے کے بعد مستقبل میں جانشینی کے سوال پر شاہی خاندان میں کھینچا تانی بھی عروج پر رہی ہے۔ شاہ سلمان اپنے بیٹے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان کو جانشین بنانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے طاقتور شہزادوں کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے ، خود کو متحرک طاقتور لیڈر ثابت کرنے اور ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف کو جانشینی سے محروم کرنے کے لئے یمن کی جنگ اور پھر اسلامی فوجی اتحاد کے لئے اقدام کئے ہیں۔ تاہم یہ دونوں منصوبے پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے۔
اس دوران عالمی منڈیوں میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے سعودی عرب کی اقتصادی حیثیت متاثر ہوئی ہے۔ 2015 میں ملک کا قومی خسارہ ایک سو ارب ڈالر کے لگ بھگ تھا۔ تاہم ریاض کی حکومت نے سہولتوں میں کمی ، ٹیکس میں اضافہ ، غیر ملکوں کی بجائے سعودی شہریوں کے کام کرنے کی حوصلہ افزائی جیسے اقدامات کے ذریعے قومی اخراجات میں کمی کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان موثر اقدامات سے کسی حد تک ملک کے اخراجات پورے ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ سعودی عرب دنیا میں تیل پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور وہ اپنی پیداوار بڑھا کر بھی کم قیمت کے باوجود کافی مالی  وسائل حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن علاقے میں سعودی عرب کے سیاسی اور عسکری عزائم اس کے لئے مالی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔ دی وال اسٹریٹ جنرل کی اطلاع کے مطابق سعودی عرب بڑھتی ہوئی مالی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے عالمی منڈیوں سے قرضہ لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں سعودی عرب نے 8 ارب ڈالر کے قرضے حاصل کئے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کی پیٹرولیم کمپنی آرامکو کے حصص فروخت کر کے بھی وسائل حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ماہرین البتہ اس بارے میں متفق نہیں ہیں کہ تیل کی قیمتیں اگر موجودہ سطح پر برقرار رہتی ہیں تو سعودی عرب، یمن اور دیگر علاقوں میں کب تک تنازعات کا حصہ بنا رہنے کے قابل ہو گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں کمی کی ایک وجہ خود پیداوار پر کنٹرول نہ کرنے کی سعودی پالیسی بھی ہے۔ سعودی عرب ، ایران اور روس کو نقصان پہنچانے کے نقطہ نظر سے اپنی پیداوار کم کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس کا خیال ہے کہ وہ اپنے بے پناہ وسائل کی وجہ سے اس بوجھ کو برداشت کرنے کی سکت رکھتا ہے لیکن ایران کے لئے زیادہ مشکلات پیدا ہوں گی۔ تاہم جوہری معاہدے کے بعد ایران کی قوت اور اقتصادی صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے منجمد شدہ فنڈز بھی اسے واپس ملنے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ آزادی سے تیل اور دیگر مصنوعات برآمد کر کے وسائل حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ ان نئے امکانات کے باوجود ایران مشرق وسطیٰ میں اپنے ہمدرد گروہوں اور ملکوں کی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہی پالیسی سعودی عرب کے ساتھ تصادم کی صورتحال میں اضافہ بھی کر رہی ہے۔ اور خطے میں مسلک کی بنیاد پر تقسیم اور محاذ آرائی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں یمن دراصل ایران اور سعودی عرب جیسے بڑے اور طاقتور ملکوں کی طبع آزمائی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سعودی عرب اور ایران پر بھی اس محاذ آرائی کے دور رس اور طویل المدت اثرات مرتب ہوں گے لیکن فی الوقت یمنی باشندے ہلاکت کا شکار ہیں اور یہ بے وسیلہ ملک بیرونی مداخلت کے سبب تباہ ہو رہا ہے۔
یمن میں داخلی کشمکش کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔ 1990 میں جنوبی اور شمالی یمن کی خود مختار مملکتوں کو ری پبلک آف یمن کے نام سے متحد کر لیا گیا تھا۔ تاہم اسی برس کویت پر صدام حسین کے حملہ کے بعد یمن کے صدر صالح نے اس کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں 8 لاکھ یمنی باشندوں کو سعودی عرب سے نکال دیا گیا تھا۔ اس طرح اس غریب ملک پر مالی دباؤ اور انتشار بڑھا اور قبائلی بنیادوں پر جنگ میں مزید اضافہ ہوا۔ سعودی عرب کی فوجی مداخلت نے اسے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ یمن میں بحران اور جنگ کی صورتحال کی وجہ سے ہی القاعدہ ، داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو اپنی قوت بڑھانے کا موقع ملا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر علاقائی قیادت نے عقل کے ناخن نہ لئے تو یہ گروہ یمن جیسے ملک سے قوت حاصل کرتے ہوئے سعودی عرب اور ایران میں داخل ہونے کی صلاحیت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں دنیا ایک ایسے فساد کا سامنا کر سکتی ہے جس کا تصور بھی محال ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments