اب پتے بازی کھیلیں گے۔۔۔


اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے سب سے پہلا دھرنا تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ کے رہنما مفتی جعفر حسین کی قیادت میں جنرل ضیا کے زکوۃ آرڈیننس کے خلاف دیا گیا کیونکہ اس قانون میں فقہِ جعفریہ کو ملحوظ نہیں رکھا گیا تھا۔ پانچ جولائی 1980 کو ہزاروں لوگ خاموشی سے زمین پر بیٹھ گئے اور اگلے روز ضیا حکومت نے اہلِ تشیع کو اس آرڈیننس سے مستثنیٰ رکھنے کا مطالبہ تسلیم کر لیا۔

مگر اسلام آباد میں سیاسی دھرنوں کی موجد جماعتِ اسلامی ہے۔ پہلا دھرنا میر مرتضی بھٹو کے قتل کے ایک ماہ بعد قاضی حسین احمد کے ‘ملین مارچ’ میں شامل پانچ چھ ہزار لوگوں نے اکتوبر 1996 میں دیا۔ اتفاق ہے کہ نومبر میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت صدر فاروق لغاری نے برطرف کردی۔

دوسرا دھرنا امیرِ جماعتِ اسلامی منور حسن کی قیادت میں دسمبر 2010 میں پارلیمنٹ کے نزدیک پریڈ لین میں دیا گیا۔ اس کا محرک امریکہ کی خواہش پر قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن اور توہینِ مذہب کے قانون میں ترمیم کا خدشہ بتایا گیا مگر یہ ایک علامتی دھرنا تھا۔

جنوری 2013 میں طاہر القادری نے پاکستان میں گڈگورننس کے انقلاب اور شفاف انتخابی نظام کے لیے انفرادی دھرنا دیا. 2014 میں طاہر القادری نے عمران خان کے ہمراہ اسلام آباد میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اجتماعی دھرنا دیا۔ گذشتہ برس عمران خان نے پاناما کیس کے پس منظر میں اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کیا۔ اس برس تحریک لبیک یا رسول اللہ کے دو دھڑوں نے یکے بعد دیگرے دھرنے دیے اور ان میں سے ایک تاحال جاری ہے۔

یہ بحث تاقیامت ہو سکتی ہے کہ کس دھرنے کے پیچھے کون سی طاقت، سازش، مقصد اور ہدف تھا یا ہے۔ مگر ہر دھرنے نے ریاستی رٹ کو پہلے سے زیادہ کمزور کیا۔ پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عزت گئی، پھر پارلیمنٹ کا وقار تار تار ہوا ، پھر عدلیہ کے احکامات اور فیصلوں کو غیر سنجیدگی سے لینے کا عمل شروع ہوا ، پھر میڈیا ٹکے سیر ہوتا چلا گیا اور اب فوج بھی سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز کو ایک ہی پلڑے میں رکھ کے پرامن رہنے کی اپیل کرنے کی حالت پر آ گئی ہے۔

شروع کے دھرنوں میں بات تنقید سے شروع ہو کے دھمکیوں پر ختم ہو جاتی تھی۔ پھر بات دھمکیوں سے شروع اور گالم گلوچ پر ختم ہونے لگی۔اب بات گالم گلوچ سے شروع ہوتی ہے اور آگ لگائے بغیر ختم نہیں ہوتی۔ ترقی کی یہی رفتار رہی تو اگلے دھرنے میں بات آگ لگانے سے شروع ہو گی اور راکھ کر دینے پر ہی ختم ہوگی۔

اس سے پیغام کیا گیا ؟ یہ گیا کہ اگر آپ کے پاس دو ہزار لوگ ہوں تو آپ زندگی اور اختیار کو گھٹنوں کے بل بٹھا سکتے ہیں اور اگر آپ مذہب بھی بیچ میں لے آئیں تو ہزار بندے بھی ریاست کو لطیفہ بنانے کے لئے کافی ہیں۔ شہرت اور راتوں رات لیڈری ملنے کا بونس الگ۔ اِسٹک ہولڈر بنئے اور سٹیک ہولڈر بن جائیے۔ ایک ایسی روایت پڑ گئی ہے کہ آئندہ فرشتوں کی بھی حکومت آجائے، سکون سے وقت نہیں کاٹ پائے گی۔اداروں ، سیاستدانوں اور میڈیا کی ایک دوسرے پر الزام تراشی سے بھی وبا نہیں ٹلے گی۔

یہ تیر وہ ہے کہ جو لوٹ کر بھی آتا ہے۔

جوا کوئی بھی ہو شروع شروع میں بہت مزہ آتا ہے ۔ لت پڑ جائے تو وہ وقت بھی آجاتا ہے کہ گھر اور اہلِ خانہ کو بھی جیتنے کی آس میں بلاتاسف بازی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔

ریاست چلانے والے ایک عرصے سے اقتدارِ اعلی ، آئین اور قانون کو بطور تاش پھینٹ رہے ہیں۔ مگر اب ڈرنا چاہئے اُس وقت سے جب پتوں میں جان پڑ جائے اور اگلی چال پتے خود چلیں اور کھلاڑیوں کو مات دے دیں۔ شاید یہ وقت سر پے آن پہنچا ہے۔

کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں

نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے

یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا

تماشہ کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے

کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا ( افتخار عارف )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).