حاشر ابن ارشاد کی کایا پلٹ کی کہانی


حاشر ابن ارشاد کے یکے بعد دیگرے دو ایسے کالم چھپے کہ پڑھنے والوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔ کہنے والوں نے بہت کچھ کہا لیکن ایک کمنٹ نے سمندر کو کوزے میں سمو دیا۔ کالم شیئر کرتے ہوئے ایک صاحب نے لکھا ” ایسا کالم تو کوئی ولی ہی لکھ سکتا ہے”۔ جہاں سب اس کایا پلٹ پر حیران ہیں وہاں اس حادثے کے پیچھے والی کہانی سے لاعلم۔ مجھے حاشر کی ہمشیرہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے بمشکل مجھے یہ کالم لکھنے کی اجازت دی ہے۔ حاشر کی عاجزی اپنی جگہ لیکن ان کی کہانی بیان نہ ہونا یقیناً ایک المیہ ہوگا۔

بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ حاشر بچپن اور لڑکپن میں بے حد مذہبی واقعی ہوئے تھے۔ ان کی مذہب سے محبت اور عقیدت ان کو کئی رستوں اور پھر کئی چاہی، ان چاہی منزلوں پر لے گئی۔ شاید پڑھنے والے یہ سن کر حیران ہو جائیں کہ جس عمر میں لڑکے بالے لڑکیوں کے پیچھے ان کے کالج جایا کرتے تھے، حاشر پانچ وقت کی نماز کے ساتھ مسجد میں جھاڑو بھی لگایا کرتے تھے۔ لیکن سوال پوچھنے کی فطرت اور ہمیشہ کچھ اور جاننے کی کھوج ان کو کچھ ایسے لوگوں کے در پر لے گئی جنھوں نے ان کی گمراہی میں اہم کردار ادا کیا۔ میں ان لوگوں کے نام لے کر ان کی زندگیاں خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔ لیکن یہ ان کا ہی اثر و رسوخ تھا جس کئی وجہ سے حاشر ایک ایسی کھوج میں نکل پڑے جس کی منزل صرف اور صرف گمراہی تھی۔ دکھ کی بات حاشر کا گمراہ ہونا نہ تھا بلکہ یہ تھا کہ وہ دوسروں کو بھی اس گمراہی کی طرف راغب کرتے رہے۔ اپنی پر اثر شخصیت اور مسحور کن بیانات سے وہ ایک کے بعد ایک شخص کو گمراہ کرتے رہے۔

برس ہا برس گزر گئے، میری امید، کہ حاشر کبھی ہدایت کی طرف پلٹیں گے، بجھنے لگی۔ لیکن الله کے کام نرالے ہوتے ہیں ان کے لاشعور میں دبی محبت کی کوئی چنگاری ابھی بجھی نہ تھی۔ ایک دن وہ گھر پر استراحت فرما رہے تھے، کوئی مصروفیت نہیں تھی، راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ اچانک فون بجا، علم ہوا کہ ایک ضروری میٹنگ کے لئے اسلام آباد جانا پڑے گا۔ حاشر نے گھر سے رخت سفر باندھا تو ان کے فرشتوں کے بھی علم میں نہ تھا کہ آج کا دن ان کی زندگی میں کس قدر تبدیلی لے آئے گا۔ اسلام آباد میں دھرنے کا شور تھا اور ہر اشارے پر بے پناہ رش۔ ایسے ہی ایک اشارے پر پھنسے جب کافی دیر ہو گئی تو حاشر نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ پھر یوں لگا کوئی جلوہ رونما ہو گیا ہو۔ ایک نورانی چہرہ ساتھ کھڑی پیجارو میں سے ان کو دیکھ رہا تھا۔ حاشر کو یوں لگا کسی نے ان کو بت بنا دیا ہو۔ نورانی روشن چہرے پر موجود آنکھوں میں سے ایک آگ سی نکل رہی تھی۔ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں حاشر کی نظر سے سارا بچپن گزر گیا۔ آس پاس سے سب غائب ہونے لگا۔ حاشر کو اپنا وجود ایک روئی کے گالے کی مانند ہلکا محسوس ہونے لگا، یوں لگا کہ ٹھنڈی ہوا ان کے وجود کو کہیں اڑائے لے جا رہی ہو۔ حاشر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ ہر قطرے کے ساتھ ان کے ہزاروں گناہ ان کی آنکھوں سے بہنے لگے۔ روشن نورانی چہرے پر موجود آگ بھری آنکھیں اب ٹھنڈی ہونے لگیں۔ بزرگ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی اور پھر پجارو ایک جھٹکے سے آگے بڑھ گئی۔ بعد میں علم ہوا کہ وہ بزرگ اسلام آباد کے مشہور پیر صاحب تھے اور دھرنے کو عزت بخشنے تشریف لائے تھے۔ لیکن حقیقت۔۔۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ حاشر کو سیدھی راہ دکھانے آئے تھے۔

حاشر اپنی میٹنگ میں جانے کے بجائے گھر کی طرف واپس روانہ ہو گئے۔ گھر پر لینا حاشر ان کو دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔ حاشر ایک بلکل مختلف انسان لگ رہے تھے۔ آنسووں کی جھڑی تھی کہ رکتی نہ تھی۔ لینا نے حاشر کو حوصلہ دیا اور فوری طور پر آئی پیڈ لا کر دیا تاکے وہ اپنے دل کا حال ٹائپ کر سکیں۔ بس یہی وہ لمحہ تھا جب حاشر نے وہ لکھ ڈالا جو “ہم سب” کے رہتے تک امر رہے گا۔

امید ہے حاشر اب اس راستے پر مستقل مزاجی سے چلیں گے اور اپنے جیسے اور “ہم سب” کے بہت سے لکھنے والوں کو سیدھا راستہ دکھاتے جائیں گے۔ مجھے اب اس بات کا یقین آ چکا ہے کہ گمراہ ہوئے لوگ چاہے کتنا ہی دور چلے جائیں، کبھی نہ کبھی ان کی جڑیں ان کو واپس کھینچ لاتیں ہیں۔ ویلکم بیک حاشر ابن ارشاد۔ ویلکم بیک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).