پاک فوج سیاسی ایجنڈے پر نظر ثانی کرے


فیض آباد دھرنے کے خلاف ناکام آپریشن اور ملک بھر میں شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ وفاقی حکومت معاملات کا ادراک کرنے اور ان پر کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ریاستی اداروں میں اس بات پر شدید اختلاف موجود ہے کہ آگے بڑھنے کا بہترین راستہ کون سا ہے۔ البتہ ملک اس وقت جس صورت حال کا سامنا کر رہا ہے، اس میں یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ مذہبی گروہوں کو حاصل ہونے والی نئی طاقت ملک و قوم کے لئے نئے مصائب کا پیغام ہے۔ حکومت فیض آباد دھرنا کی اہمیت اور اس کے اثرات کا قبل از وقت اندازہ کرنے میں ناکام رہی اور جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر کارروائی کی گئی تو بہت  تاخیر ہو چکی تھی۔ اس دوران دھرنا قائدین اپنے روابط اور پوزیشن مستحکم کر چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ وزیر داخلہ یہ اعلان کرتے رہے کہ ان کے حکم پر تین گھنٹے میں دھرنا دینے والے دو ہزار لوگوں کو منتشر کیا جا سکتا ہے لیکن پولیس کو جب یہ فیصلہ کن اقدام کرنے کا اختیار دیا گیا تو اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ ہائی کورٹ مظاہرین کو دہشت گرد اور اسلامی روایات کا منحرف تو قرار دے رہی تھی اور یہ حکم دیا گیا تھا کہ ہر قیمت پر انہیں منتشر کرکے شہری زندگی بحال کی جائے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ مظاہرین پر گولی نہ چلائی جائے۔ اس طرح آپریشن کرنے والی سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے خود کو بے بس سمجھا۔ بے دلی سے ہونے والے اس آپریشن کا وہی انجام ہونا تھا جو زور زبردستی سے کروائے جانے والے کسی کام کا ہو سکتا تھا۔

رہی سہی کسر پاک فوج نے پوری کر دی۔ پولیس کارروائی شروع ہوتے ہی آئی ایس پی آر کے سربراہ نے یہ پیغام نشر کیا کہ پاک فوج کے سربراہ نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے کیونکہ تصادم سے ملکی مفادات کو زک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ابھی اس بیان کے مضمرات کو سجھنے کی کوشش ہی کی جا رہی تھی کہ پولیس کی ناکامی اور مظاہرین کی خود سری سے عاجز آئی ہوئی حکومت کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ اس صورتحال میں مظاہرین کہیں اسلام آباد کی اہم تنصیبات پر دھاوا نہ بول دیں۔ اس لئے وزارت داخلہ نے آئین کی شق 245 کے تحت فوج کو اہم مقامات پر تعینات کرنے کی درخواست کی۔ اس کے جواب میں  لکھا گیا خط جو بظاہر خفیہ تھا وزارت داخلہ تک پہنچنے سے پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچ چکا تھا۔ اس میں  فوج نے واضح کیا کہ وہ آئینی ذمہ داری تو پوری کرے گی لیکن  مظاہرین کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔ یعنی اس سوال کا جواب دینے اور نشر کرنے کی کوشش کی گئی جو وزارت داخلہ نے دریافت ہی نہیں کیا تھا۔ فوج کو صرف دارالحکومت کی اہم تنصیبات کی حفاظت کےلئے بلایا گیا تھا لیکن فوج اپنے اس ’’خفیہ‘‘ جواب میں یہ بتا رہی تھی کہ حکومت نے تو ابھی پولیس کو بھرپور طریقے سے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی رینجرز کو تحریری طور پر کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو بغور پڑھنے کا مشورہ بھی دیا گیا تھا جس میں مظاہرین پر گولی نہ چلانے کا کہا گیا تھا۔ اس خط کے ذریعے فوج نے یہ بات واضح کر دی کہ وہ اگر آئین توڑنے اور حکومت کو فارغ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تو اسے کامیاب ہوتا بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔

آج پاک فوج کے سربراہ نے آئی ایس آئی کے سربراہ کے ہمراہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات میں واضح کر دیا ہے کہ فوج کسی صورت فیض آباد کے مظاہرین کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی۔ عملی طور پر یہ پیغام میجر جنرل آصف غفور کے ٹویٹ کے ذریعے مظاہرین کو کل ہی دے دیا گیا تھا، بس وزیر اعظم کی غلط فہمی آج دور کی گئی ہے۔ اسی لئے کل شور و ہنگامہ کے باوجود  نہ پولیس مؤثر کارروائی کرسکی، نہ دھرنا لیڈر گرفتار ہوئے اور نہ فیض آباد انٹر چینج سے انہیں ہٹایا جا سکا۔ البتہ کل تک صرف راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہری مشکلات کا شکار تھے، اب ملک بھر کے تمام شہروں میں مظاہرین کی ٹولیاں قانون کی دھجیاں بکھیرتی دکھائی دیتی ہیں۔ شہری زندگی بھی متاثر ہے اور سرکاری املاک اور اہم شخصیات کی رہائش گاہیں بھی ان کے نشانے پر ہیں۔ فوج کے سربراہ ان عناصر سے سیاسی مذاکرات کا مشورہ دے رہے ہیں جو ملک کے نظام کے باغی ہیں اور اپنی مرضی کا قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ آرمی چیف وزیراعظم کو یہ بتا کر آئے ہیں کہ عوام فوج سے محبت کرتے ہیں، وہ ان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔

حیرت انگیز طور پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم عباسی کو یہ بھی کہا ہے کہ انتخابی بل سے ختم نبوت کا حلف نامہ نکالنے کی سازش کرنے والوں کا پتہ لگا کر انہیں سزا دی جائے۔ گویا جنرل باجوہ ملک کے منتخب اور بااختیار وزیراعظم کو مولوی خادم رضوی کا پیغام پہنچا کر آئے ہیں۔ اگر پاک فوج کے سربراہ بھی پارلیمانی معاملات میں ہونے والی اونچ نیچ کو سازش قرار دیں گے تو ان دعوؤں یا اعلانات کی کیا اہمیت باقی رہ جائے گی کہ فوج آئین کا احترام کرتی ہے۔ گزشتہ دو روز کے دوران فوج کے رویہ نے واضح کیا ہے کہ وہ آئین کی صرف اس تشریح کو مانتی ہے جسے وہ خود درست سمجھتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتی ہے کہ ملک کی عدالتیں، پارلیمنٹ اور حکومت فوج کا موقف سامنے آنے کے بعد اختلاف رائے کا حوصلہ نہیں کر سکتیں۔ اس کا مظاہرہ دسمبر 2014 میں پشاور آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملہ کے بعد اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں قائم کروا کے بھی کیا جا چکا ہے۔ اور اب ملک میں فساد کی صورت حال پیدا کرنے والے عناصر سے دو ٹوک ہمدردی کا اظہار کرکے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ فوج آئین کا احترام تو کرتی ہے لیکن وہ اس کی شرائط خود ہی متعین کرے گی۔ حکومت یا عدالتوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ پارلیمنٹ تو ویسے بھی ایسے بے زبان لوگوں کا گروہ ہے جو ہر گھڑی یہ دیکھتا ہے کہ آنے والے دن میں کس سیاسی لیڈر کے پیچھے کھڑا ہو کر ’’قومی‘‘ مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

اس لئے عجب نہیں ہے کہ ملک کے وزیر قانون زاہد حامد نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ملاقات کی ہے اور اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ جلد یا بدیر یہ اعلان سامنے آ سکتا ہے۔ گویا مظاہرین نے ملک کے سب سے طاقتور ادارے کی اعانت سے ووٹ کی طاقت پر مان اور غرور کرنے والی حکومت کو گھٹنوں کے بل آنے پر مجبور کرنے کا اہتمام کر لیا ہے۔ حکومت نے سراسمیگی کے عالم میں اگرچہ ملک میں ٹیلی ویژن نشریات بند کیں اور فیس بک و ٹویٹر وغیرہ پر پابندی عائد کی لیکن کل تک بے وقعت قرار دیئے جانے والے گروہ اور مغلظات بکنے والے لیڈروں کے ہاتھوں منتخب حکومت کی توہین کا تماشہ اہل پاکستان ہی نہیں پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ فوج یہ قیاس کر رہی ہے کہ حکومت کا قافیہ تنگ کرکے اور حکمران پارٹی کے راستے مسدود کرکے وہ قومی مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔ لیکن وہ شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ قومی مفاد کی جو محدود توجیہ و تشریح آئندہ انتخابات میں من پسند مہرے آگے پیچھے کرنے کےلئے کی جا رہی ہے، ملک کے مفادات اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ یہ درست ہے کہ ملک میں انتخابی نظام چلنا اور ووٹ کی بنیاد پر حکومتیں قائم اور تبدیل ہونا بھی اہم ہے اور اس سے دنیا میں پاکستان کی اہمیت اور عزت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن ملک کے مفادات صرف ملک میں حکومت سازی کےلئے گٹھ جوڑ سے منسلک کرکے نہیں دیکھے جا سکتے۔ یہ بات اگر سیاستدانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے تو فوج کو بھی اسے اچھی طرح ذہن نشین کرنا ہوگا۔ فوج اپنے عمل اور کردار سے واضح کر چکی ہے کہ ملکی سیاست میں اس کی ترجیحات صرف اصولی معاملات تک نہیں ہیں بلکہ وہ اس بات پر بھی اپنی دسترس برقرار رکھنا چاہتی ہے کہ کون سے گروہ بالآخر لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ اس لئے قومی مفادات کے بارے میں چند دہائی پرانا سبق ازبر کرنے کی بجائے اس کے نئے پہلوؤں کا ادراک کر لیا جائے تو آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔

ان میں ایک پہلو تو یہ ہے کہ انتہا پسندانہ نعرے لگانے والے کسی مذہبی گروہ کو سیاسی مقاصد کےلئے استعمال کرنے کا جو نتیجہ 80 کی دہائی میں برآمد ہوا تھا، اکیسویں صدی میں بھی اس سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ پاکستان کے ہر مسلک کا مولوی ایک ہی طرح سوچتا ہے اور سیاسی طاقت اور اثر و رسوخ ملنے کے بعد مزید اختیار کا مطالبہ کرتا ہے۔ لبیک تحریک کی حمایت میں پرجوش فوجی قیادت کو اس پہلو پر غور کرنا چاہئے۔ اسی تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ اب قومی مفاد صرف اس بات تک محدود نہیں ہے کہ ملک میں کس کی پسند کی حکومت بنتی ہے اور کون سا گروہ برسر اقتدار آتا ہے بلکہ دنیا کے ساتھ معاملات، ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات، علاقے میں امن و امان اور خوشحالی کے منصوبوں میں ملکی کردار بھی قومی مفاد کے حوالے سے بے حد اہم ہے۔ ابھی اہل پاکستان افغانستان کی دو جنگوں کے دوران امریکہ سے ہونے والی قربت کے نتائج کو سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں اور امریکہ کی دھمکی نما خفگی کو چین کا ہاتھ تھام کر مسترد کرنے کی خواہش پالنے پر مصر ہیں۔ لیکن اگر ہم یہ بھول رہے ہیں تو یہ جان لینا بھی مناسب ہوگا کہ جس چین کے سہارے اور سی پیک منصوبے کے تحت ہم خوشحال اور مضبوط ہونے کا خواب دیکھتے ہیں، وہ بھی ہر قسم کی مذہبی انتہا پسندی کو اپنے مفادات اور مقاصد کے خلاف سمجھتا ہے۔ اس لئے قومی مفاد کا تقاضہ یہ ہے کہ ملک سے نئی اور پرانی ۔۔۔۔ ہر طرح کی مذہبی جنونیت کو ختم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کسی منتخب عہدے پر فائز نہیں بلکہ ایک پروفیشنل ادارے کے نامزد سربراہ ہیں۔ ان سے پیشہ ورانہ طریقہ سے اپنے ادارے کو منتخب حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کےلئے استعمال کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ لیکن ان کی سربراہی میں اگر یہ ادارہ آئینی موشگافیوں اور سیاسی پیچیدگیوں میں ملوث ہوگا اور منتخب حکومت کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا تو بطور سپہ سالار یہ جنرل باجوہ کی ذاتی ناکامی ہوگی۔ اس سے نہ ملک میں پائیدار امن بحال ہو سکے گا، نہ جمہوریت مضبوط ہوگی اور نہ بے یقینی ختم ہوگی۔ دنیا بھی مشکوک نظروں سے پاکستان کی طرف دیکھے گی اور تہی دست عوام بھی نعرے لگانے کے بعد تھکے ہارے بالآخر روزگار اور ضروریات زندگی کا مطالبہ کریں گے۔ اس لئے فوج نے اپنے لئے جو سیاسی ایجنڈا ترتیب دیا ہے، اسے اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اسی میں پاکستان اور اس کی فوج کا فائدہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali