’آرمی چیف نے قوم کو ایک بڑے سانحہ سے بچا لیا‘


دھرنا

حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی نقل صبح سویرے مقامی میڈیا گروپس نے شیئر کی، تحریک لبیک یا رسول اللہ کے فیس بک پیچ پر بھی اس کی تصدیق کر دی گئی ہے تاہم معاہدے میں شامل محمد افضل قادری کہتے ہیں کہ اصل اعلان پریس کانفرنس میں ہو گا۔

اس معاہدے پر دو حکومتی ذمہ داران وزیر داخلہ اور سیکریٹری داخلہ کے دستخط موجود ہیں جبکہ دھرنا دینے والی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ کے سربراہ خادم حسین رضوی، جماعت کے سرپرست اعلیٰ پیر محمد افضل قادری اور مرکزی ناظم اعلیٰ محمد وحید نور کے دستخط موجود ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ابھی انتظار کیجیے۔‘

جماعت کے سرپرست اعلیٰ پیر محمد افضل قادری نے، جو معاہدے میں شامل تھے، بی بی سی کو بتایا کہ ’معاہدے پر ہمارے دستخط تو ہیں لیکن ابھی انتظار کیجیے ہم پریس کانفرنس میں بتائیں گے۔‘

دوسری طرف دھرنا دینے والی جماعت کے سیکریٹری ناظم نشرواشاعت زبیر احمد قصوری نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’دھرنا ابھی ختم نہیں ہوا،ابھی کچھ چیزیں مشروط ہیں، خادم حسین رضوی پریس کانفرنس میں اپنے فیصلے کا اعلان کریں گے۔‘

صبح سات بجے پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم ڈھائی گھنٹے گزر جانے کے باوجود ابھی تک اس کا انعقاد نہیں ہو سکا۔

خیال رہے کہ پاکستان کے مختلف نجی ٹی وی چینلوں پر یہ اطلاعات آرہی تھیں کہ اسلام آباد انتظامیہ مختلف علاقوں سے کنٹینرز ہٹا رہی ہے تاہم بعد میں یہ سننے کو ملا کہ دھرنا دینے والے شرکا دوبارہ کنیٹر لگا رہے ہیں۔

چھ نکات پر مشتمل اس معاہدے کی کے آخر میں یہ درج ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے ملک کو بڑے سانحے سے بچا لیا ہے جبکہ بتایا گیا ہے کہ یہ معاہدہ کرنے میں فوج کے حاضر سروس افسر میجر جنرل فیض حمید کی مدد شامل تھی۔

معاہدے میں درج ہے: ‘یہ تمام معاہدہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور ان کے نمائندے کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا، جس کے لیے ہم ان کے مشکور ہیں کہ انھوں نے قوم کو ایک بہت بڑے سانحہ سے بچا لیا۔’

وزیر کی برطرفی کا پہلا مطالبہ تھا تاہم تحریک لبیک کا کہنا ہے کہ وہ وزیر قانون کے حوالے سے کوئی فتویٰ جاری نہیں کرے گی۔

اس معاہدے کی نقل ملنے سے قبل ہی وزیر قانون کے رضا کارانہ طور پر مستعفی ہونے کی خبر سرکاری میڈیا نے جاری کر دی تھی۔

تحریک لبیک کی جانب سے معاہدے میں الیکشن ایکٹ میں سیون بی اور سیون سی اور حلف نامے کی شمولیت پر حکومت کی ستائش کی ہے تاہم یہ بھی کہا ہے کہ اس میں ترمیم کرنے والوں کا پتہ لگانے کے لیے راجہ ظفر الحق کی رپورٹ 30 دن میں منظر عام پر لائیں۔

اس سے قبل بی بی سی سے گفتگو میں راجہ ظفر الحق نے بتایا تھا کہ ساڑھے تین سال تک اس قانون کے حوالے سے کمیٹی کے اجلا س ہویے اور ذمہ داران کا پتہ لگانے کے لیے وقت چاہیے۔

معاہدے میں دھرنا دینے والی جماعت کے حلاف مقدمات اور گرفتار ہونے والے افراد کو تین روز میں ختم کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔

25 نومبر یعنی دھرنے کے حلاف حکومتی آپریشن کے لیے انکوائری بورڈ کی تشکیل اور 30 دن میں رپورٹ دینے کو کہا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ملک کے وفاقی وزیر داخلہ کو آج ہائی کورٹ میں پیش ہونا ہے، جبکہ انھوں نے گذشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا کہ آپریشن انھوں نے نہیں بلکہ اسلام آباد انتظامیہ نے کروایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp