دھرنے کے معاہدے میں فوج کیسے ثالث بن سکتی ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ


اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے بارے میں سماعت کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ آرمی چیف کی آزادانہ حیثیت کیا ہے اور وہ کیسے دھرنے کے معاملے میں ایگزیکیٹو کا حکم ماننے کی بجائے ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ملک کے ادارے ہی ریاست کے خلاف کام کر رہے ہیں اور اگر فوجیوں کو سیاست کرنے کا شوق ہے تو وہ نوکری سے مستعفی ہو کر سیاست میں آئیں۔

جسٹس شوکت صدیقی نے فیض آباد انٹرچینج کے مقام پر مذہبی جماعت کے دھرنے کے بارے میں نوٹس اور وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو دھرنا ختم کرنے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ملکی آئین میں آرمی چیف کی بطور ثالث بننے کی کیا حیثیت ہے؟ اُنھوں نے کہا کہ ریاست کے ساتھ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟

یہ بھی پڑھیے

’آرمی چیف نے قوم کو بڑے سانحے سے بچا لیا‘

’زاہد حامد نے وزیراعظم کو استعفیٰ پیش کر دیا‘

پاکستان کے مختلف شہروں میں آپریشن کے خلاف احتجاج

عدالت کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدے میں آرمی چیف اور ان کے نمائندے کا شکرایہ ادا کیا گیا ہے جنھوں نے دھرنا ختم کرنے سے متعلق اہم کردار ادا کیا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وفاقی وزیر داخلہ سے استفسار کیا کہ وہ میجر جنرل صاحب کون ہیں جنھوں نے دھرنا ختم کروانے کے لیے آرمی چیف کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی؟ عدالت کا کہنا تھا کہ اس میجر جنرل کا نام سوشل میڈیا پر چل رہا ہے۔

سماعت میں خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سیکٹر انچارج بریگیڈیئر عرفان شکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ سوشل میڈیا پر چھپنے والا مواد غیر تصدیق شدہ ہوتا ہے، اس لیے اس پر ریمارکس بھی نہیں دینے چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ دھرنے کے پیچھے آئی ایس آئی کا کوئی کردار نہیں ہے۔

عدالت نے سوال کیا کہ ’فوجی کیوں خوامخواہ ہیرو بنے پھرتے ہیں؟‘ اور کہا کہ فوج اپنے آئینی کردار کے اندر رہے۔

سوشل میڈیا پر آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیض حمید کا نام لیا جارہا ہے جو آرمی چیف کے نمائندے کی حیثیت سے پیش ہوئے تھے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ سکیورٹی ادارے پورے ملک میں ردالفساد کے نام سے آپریشن کر رہے ہیں تاکہ ملک سے دہشت گردی کو ختم کیا جا سکے۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’کیا ان اداروں کو فیض آباد دھرنا نظر نہیں آیا؟‘

عدالت کے استفسار پر وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ دھرنا دینے والوں کے ساتھ معاہدہ قومی قیادت نے اتفاق رائے سے کیا جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون توڑنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان فوج کا ثالثی کردار قابل قبول نہیں ہے۔

احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ ملک ایک ایسی صورت حال پر آ گیا تھا جہاں خانہ جنگی کا خطرہ تھا اس لیے حالات کو دیکھتے ہوئے معاہدہ کرنا ناگزیر تھا۔

اسلام آباد دھرنا

عدالت کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمات کو فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدے سے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وزیر داخلہ سے استفسار کیا کہ کیا اگر فیض آباد کے قریب حمزہ کیمپ کی بجائے فو ج کا ہیڈ کوراٹر ہوتا تو تب بھی مظاہرین اسی جگہ پر دھرنا دیتے؟ اس پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس کا جواب تو مظاہرین ہی دے سکتے ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ حکومت اور دھرنا دینے والی قیادت کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے اس میں ججوں سے معافی مانگنے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا کیونکہ مظاہرین نے دھرنے کے دوران اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے بارے میں نازیبا الفاظ ادا کیے تھے۔

سماعت کے دوران عدالت نے وزیر داخلہ کی سرزنش بھی کی کہ اُنھوں نے مظاہرین کے خلاف کارروائی کے دوران اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو تنہا چھوڑ دیا۔

عدالت نے وزیر داخلہ سے ان وجوہات کے بارے میں بھی طلب کیا ہے جس کی وجہ سے دھرنا دینے والوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی ناکام ہوئی۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp