پریس کانفرنس لائیو نہ دکھانے پر ملا خادم حسین نے صحافیوں کو یرغمال بنا لیا


آج اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے مولوی خادم حسین رضوی صاحب کی طرف سے کی جانے والی پریس کانفرنس کے دوران اُس کو رپورٹ کرنے والے صحافیوں کو کچھ دیر کے لیئے یرغمال بنا دیا گیا۔ مگر مجال ہے کہ پاکستانی میڈیا اس واقعے کو اُس طرح شدت کے ساتھ بیان کرے جس طرح یہ پیش آیا ہے۔

ہمیں اسلام آباد پریس کلب میں موجود کچھ صحافی دوستوں اور اس کے بعد جیو ٹی وی پر چلنے والی کوریج سے پتہ چلا کہ حکومت پاکستان اور مولوی خادم حسین رضوی صاحب کے درمیان دھرنا ختم کرنے والے چھ نکاتی معاھدے کے بعد مولوی صاحب نے پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس ابھی چل ہی رہی تھی کہ مولوی صاحب کو ان کے ایک رفیق نے آکر یہ بتایا کہ آپ یہاں پریس کانفرنس تو کر رہے ہیں مگر یہ ٹی وی چینلز پرلائیو چل نہیں رہی۔

مولوی خادم حسین رضوی صاحب یہ بات سن کر شدید خفا ہوگئے اور اعلان کر دیا کہ جب تک ان کی پریس کانفرنس ٹی وی پر نہیں چلے گی کوئی صحافی یہاں سے نہیں جا سکتا ۔ ان کو صحافی دوستوں نے بڑے معصومانہ انداز میں بتایا کہ کیونکہ پیمرا کا حکم ہے کہ دھرنے کے مقام سے کوئی چیز لائیو آن ایئر نہیں ہونی چاہیئے اس لیے آپ کی پریس کانفرنس لائیو نہیں ہو رہی مگر مولوی صاحب نہ مانے، ان کو سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ ہم تو معمولی ورکر ہیں ہمارا کام صرف رپورٹ کرنا ہوتا ہے خبر آن ایئر کرنا دفتروں میں بیٹھے افسروں کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر وہ پھر بھی نہ مانے۔

یہ پریس کانفرنس ایسی پریس کانفرنس نہیں تھی کہ صرف صحافی سُن سکییں ان کی پریس کانفرنس لائوڈ اسپیکر پرپورا مجمع سُن رہا تھا ، پھر کیا تھا جیسے ہی مجمعے نے سنا کہ صحافیوں کو جانے نہیں دینا، ان کے مجاہدوں نے ڈنڈے سیدھے کیے اور میڈیا کی گاڑیوں کو بھی اپنے حصار میں لے لیا ۔ بڑے بڑے ببر شیر صحافی اس صورتحال پر خاموش تھے۔ وہ بھی چپ تھے جو صحافت کو غرور اور تکبر کا لائسنس سمجھ کرعام آدمی کے ساتھ تین انگلیوں کے ساتھ ہاتھ نہیں ملاتے اور وہ بھی سہمے سہمے سے تھے جو وزیروں اور سیاستدانوں سے سوال پوچھتے ہوئے بدتمیزی کو اپنی بہادری سمجھتے ہیں۔

اللہ بھلا کرے فیض آباد میں موجود رینجرز کے انچارج کمانڈر صاحب کا جن کو کچھ صحافیوں نے فریاد کی کہ ہمیں جانے نہیں دیا جا رہا ۔ کمانڈر صاحب نے دھرنے والوں کے ایک ذمہ دار کو بلایا اور انتہائی سختی سے کہا کہ میڈیا والوں کو جانے دیا جائے ورنہ سخت کارروائی ہوگی۔ جس پر سب صحافی حضرات کی خلاصی ہوئی۔

میں سمجھا تھا کہ اسلام ٓباد کی مین اسٹریم میڈیا کے چیدہ چیدہ صحافیوں کو اس طرح مولویوں کی طرف سے یرغمال بنانے پر ٹی وی چینلز پر طوفان برپا ہو جائے گا ، ان سب کو اپنے آفس پہنچنے تو دو۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کچھ دیر بعد میں ملک کے سب سے بڑے چینلوں میں سے ایک پر ان کے رپورٹر کی زبانی جب میں یہ واقعہ سن رہا تھا تو اس میں واقعے کو عام کر کے پیش کیا گیا۔ واقعہ پورے کا پورا بیان کیا گیا مگر یرغمال کی جگہ بٹھائے رکھا کا لفظ استعمال کیا گیا۔ قید کرنے کی جگہ آنے جانے کی اجازت نہیں تھی کہا گیا ۔

ہم صحافی بھی عجب مخلوق ہیں کمزور پر چڑھ دوڑتے ہیں، اس کا صحیح بھی غلط کردیتے ہیں اورطاقتور کے غلط کو بھی صحیح کرکے پیش کرتے پیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).