مرنے والوں کو مرنے دیا جائے


حکومت پنجاب کی جانب سے آئے روز کسی نئی سڑک یا پل کی تعمیر کے منصوبے کا افتتاح دیکھنے اور سننے میں آ تا ہے خاص طور پر لاہور جیسے کثیر آباد ی کے حامل شہر میں جہاں سڑکیں اور پل بنا کر ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے وہیں بد قسمتی سے ٹریفک کا نظام دن بہ دن بد تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سکول اور دفاتر کے اوقات میں تو گھر سے نکلنے والا منزل پر پہنچے نہ پہنچے ذہنی اذیت کی آخری حد کو ضرور پہنچ جاتا ہے۔ سڑکوں کی تزین وآرائش مثال کے طور پررنگ روغن اور گرین بیلٹ پر جنتی محنت کی جا رہی ہے اتنی ہی توجہ اگر ڈرائیونگ لائسنس کے حصول اور پالیسی پر دی جاتی تو سکرین کی اونچائی تک قد نکال لینے والا ہر دوسرا بچہ سڑکوں پر کرتب نہ دکھا رہا ہوتا۔

ہمارے ملک میں ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کو اول تو ضروری سمجھا ہی نہیں جاتا اور اگر کوئی غلطی سے اسے حاصل کرنے کا سوچ بھی لے تو اسے کسی خاطر خواہ امتحان کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، سفارش یا چند سو روپے کے بدلے آپ با آسانی لائسنس حاصل کر سکتے ہیں کون کافر آپ کو پوچھے گا آیا آپ کو گاڑی چلانا آتی بھی ہے یا نہیں؟ ٹریفک وارڈنز کی غفلت سے لے کر ہمارے عوام کی ذہنیت، ٹریفک قوانین کی لا علمی و عدم پیروی اور بہت سی وجوہات ہیں جو روزمرہ کے ٹریفک جام کے ساتھ ساتھ حادثات کا سبب بھی بنتی ہیں۔ غیرلائسنس یافتہ ڈرا ئیور بڑے مزے سے غلط ٹرن لے کر یا بند سگنل میں نکل جاتا ہے اور وہاں موجود ٹریفک وارڈن خواب خرگوش کے مزے لیتا رہتا ہے۔ ایک منٹ کی تاخیربرداشت نہ کرنے والے شہریوں کی لین تبدیل کرنے کے چکر میں پیچھے آنے والی دس گاڑیوں کو روک د ینے والی جلدی بد ترین ٹریفک جام کا سبب بنتی ہے اور کچھ تو ایسے جلد باز شہری ہیں جو سگنل سرخ سے پیلا ہوا نہیں تو اگلی گاڑی کو ڈپر یا ہارن دینا شروع ہوجاتے ہیں اب ان کو کون سمجھائے کہ سامنے والا ہالی وڈ کی کسی ایکشن مووی کی شوٹنگ پر تو ہے نہیں جو اگلی گاڑیوں کو اڑاتا ہوا نکل جائے اور اورآپ کو راستہ مل جائے۔

ٹریفک کے ایسے بے قابو حالات میں جہاں آئے دن بین الا اقوامی ماہرین کو بلا کر ان کے مدد سے روڈ سٹریکچر بہتر بنانے کے لئے اقدامات کیے جاتے ہیں وہی پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی اربوں روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے کئی عوام سہولت منصوبے متعارف کروائے جا رہے ہیں جس میں اورنج لائن ٹرین کسی بگڑی ہوئی اولاد کی طرح قومی خزانہ کھانے میں مصروف ہے۔ میٹروبس بھی انہی منصوبوں میں سے پایہ تکمیل تک پہنچنے والا ایسا منصوبہ ہے جسے ترکی کے ماہرین کی مدد سے تیار کیا گیا اور اس منصوبے کے لئے گجو متہ تا شاہدرہ الگ ٹریک بنایا گیا ہے اسی وجہ سے اسے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جنگلہ بس کا نام بھی دیا گیا ہے۔ میٹرو بس اسی جنگلے میں سے شہر کی بے ہنگم ٹریفک کو منہ چڑاتی نکل جاتی ہے۔

دوسری جانب ایمولینسس کا حال یہ ہے کہ شہر میں وی وی آئی پیز کے استقبال میں روکی جانے والی ٹریفک میں گھنٹوں پھنسی رہتی ہیں اور ان میں موجود زندگی اور موت کی جنگ لڑتے کتنے ایسے لوگ سڑکوں پر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں جوٹریفک جام کے باعث بر وقت ہسپتال نہیں پہنچ پاتے، کیا کسی ماہر کی مدد سے کوئی ایسا منصوبہ متعارف نہیں کروایا جا سکتا؟ جس میں شہر کے بڑے ہسپتالوں کے ساتھ ایمولینسس کے لئے الگ روٹ بنایا جائے ایمبولینسس ان روٹس کو استعمال کرتے ہوئے ٹریفک میں پھنسے بغیر زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا لوگوں کو کم سے کم وقت میں ہسپتال پہنچا سکیں اور بر وقت طبعی امداد سے قیمتی جانوں کو بچا یا جا سکے۔ یوں لگتا ہے کہ فلائی اوورز، بسوں اور ٹرینوں پر دھڑا دھڑ عوام کا پیسہ صرف کرنے والی حکومت کی اس مسئلے کی جانب عدم توجہ ایک خاموش پیغام دے رہی ہے کہ مرنے والوں کو مرنے دیا جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).