اخلاقیات کی موت


پچھلے دنوں سے جاری بے چینی اور لاقانونیت کی فضا نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہر شخص یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ حکومت کہاں ہے کیا کررہی ہے ۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ہر طرف گالی کی گونج ہے، بچہ بچہ اس کا مطلب پوچھ رہا ہے۔ اول تو ایسی ترمیم کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ الیکشن قوانین کے ختم نبوت حلف نامے میں ترامیم سازش تھیں یا کلریکل غلطی لیکن یہ اتنی فاش حرکت تھی جس کی نظیر نہیں ملتی اور جس وقت اس کی نشاندہی ہوئی تو وزارت ِ قانون کو اسے ذمے داری سے قبول کرتے ہوئے ، وزیر قانون سمیت ان ذمہ داروں کو جنھوں نے یہ غلطی کی استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا اور اخلاقی ذمہ داری نبھانی چاہیے لیکن ہٹ دھرمی اور ضد نے یہ دن دکھایا کہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آگیا۔

ایک مرتبہ جب طے ہو چکا اور ختم نبوت کا قانون بن چکا تھا تو، الیکشن ایکٹ 2017، کے تحت منسلک حلف نامے میں ترمیم کرنے کی کیا ضرورت تھی، قومی اسمبلی میں بھی اسے پاس کرلیا گیا اور قانون بنانا اور منظور کرنا کھیل ہوگیا۔ غلطی تسلیم کرتے ہوئے دوبارہ قانون کو بنایا گیا اور منظور کیا گیا لیکن اخلاقیات کا تقاضہ تھا کہ وزیر قانون استعفیٰ دے دیتے لیکن اس بات کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیا گیا اور بالآخر 25 تاریخ کو بیس تاریخ سے جاری دھرنے کو ختم کرنے کے لیے عدالت کے احکامات پر آپریشن کیا گیا اور 7 جاں بحق ہوگئے، پورے ملک میں تشدد کی لہر اور ہنگامے پھوٹ پڑے۔ دباؤ کے نتیجے میں وزیر قانون کو استعفیٰ دینا پڑا۔ سوچیں اگر اخلاقیات کو نبھاتے ہوئے اس حرکت کے ذمہ داران پہلے ہی استعفیٰ دے دیتے تو سات افراد کی جان نہ جاتی، لوگوں کی املاک تباہ نہیں ہوتیں اور نہ ہی پورے ملک میں بد امنی نہ پھیلتی۔

حکومت میں آنے کے بعد ایسا لگتا ہے کے اخلاقیات تو چھو کر نہیں گزرتی بلکہ اپنے آپ کو مطلق العنان حکمراں سمجھنے لگتے ہیں۔ دنیا میں کسی بھی ملک کی مثال لے لیجیے، کہیں کوئی حادثہ ہوا اسی وقت متعلقہ وزیر مستعفی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ڈھٹائی کی روایت ہے بڑے سے بڑا حادثہ ہوجائے صرف بیان بازی سے کام چلا لیا جاتا ہے اور اللہ اللہ خیر صلا۔ کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ اس واقعہ یا حادثہ کی ذمہ داری لے اور سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرے۔ عجیب عجیب تاویلات پیش کی جاتی ہیں اور اپنے آپ کو بچالیا جاتا ہے۔

اس بار معاملہ مختلف تھا یہ ہمارے عقیدے اور ایمان کا معاملہ ہے۔ ختم نبوت کا معاملہ 71 کے آئین میں طے ہوچکا تھا پھر اس سے چھیڑ چھاڑ کیوں کی گئی اور اگر ایسا ہوگیا تھا تو وزیرقانون ذمہ داری نبھاتے اور اپنا استعفیٰ پیش کردیتے۔ ذمہ داران کو پیش کرتے اور قرار واقعی سزا دی جاتی لیکن اس واقعہ کو مختلف حیلے بہانوں کے ڈھیر میں چھپانے کوشش کی گئی۔ جب پانی سر سے گزر گیا تو آنکھیں کھلیں اور وہی کرنا پڑا جو پہلے کرتے تو شاید اتنا سب کچھ نہ ہوتا اور جگ ہنسائی نہ ہوتی۔ معصوم جانیں ضائع نہ ہوتیں۔ املاک کا نقصان تو پورا ہو جائے گا لیکن جان واپس نہ آئے گی۔ حکومت کے کرتا دھرتا ضد ہٹ دھرمی کی پالیسی کے بجائے سوجھ بوجھ سے کام لیتے تو اتنا وبال نہ ہوتا۔ ایک فرد کے نا اہل ہونے سے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ حکومت تو ان کی پارٹی کی ہی ہے۔ خدا کا شکر ہے معاملہ سدھر گیا اور بات سنبھل گئی۔

نہ جانے ملک کے حالات کس طرف جارہے ہیں، کون کیا چاہ رہا ہے لیکن عوام کی بھلائی کا کوئی نہیں سوچ رہا، عوام کس طرح گزارا کر رہے ہیں اس کی ترجیحات کیا ہیں۔ عوام کے حقوق کیا ہیں۔ بس غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ عوام کو استعمال کیا جارہا ہے اور ٹشو پیپر کی طرح ڈسٹ بن کی نذر کردیا جاتا ہے۔ ملک میں تعلیم، صحت اور مہنگائی کا کوئی ذمہ دار نہیں۔ پینے کاصاف پانی نہیں، مریض کو علاج کی سہولت نہیں اور ہم سب کو ان مسائل میں الجھا رکھا ہے۔ کاش ہمارے ایوان ِ اقتدار میں عوام کی بات بھی سنی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).