بچی کے ساتھ فیض آباد سے بھاگتے ہوئے خونی جنونی مکالمہ


”پاپا۔ یہ لوگ گاڑیوں کو کیوں آگ لگا رہے ہیں“
” یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے۔ اپنا بیگ مجھے دو اور تیز چلو“
”جب ہم سب مسلمان ہیں تو اسلام کو کس سے خطرہ ہے؟ “
”بس چپ رہو۔ یہاں سب کو سب سے خطرہ ہے۔ “

”پاپا یہ دیکھیں۔ یہ خون کس کا گرا ہوا ہے روڈ پر۔ لگتا ہے کسی گائے کی قربانی ہوئی ہے؟ “
x“ نہیں بیٹا۔ یہ گائے نہیں بیچارہ ’بکرا‘ تھا۔ ’گائے‘ تو اس قربانی سے اور مقدس ہو گئی ہے۔ “

( بھائی صاحب! بچی کو خون مت دکھائیں پلیز اسے یہاں سے لے کے نکلیں فورآ۔ شدید خطرہ اور اشتعال ہے یہاں پر )
x“آں آں آں۔ آں اوں اوں اوں۔ پاپااااا۔ “
”چپ رابعہ۔ پلیز ہم نکل رہے ہیں بیٹا۔ ادھر دیکھو ذرا۔ آنسو گیس سے بچنے کو رومالی ماسک بیچ رہا ہے وہ پٹھان بچہ۔
آؤ اس سے ایک ایک ماسک لیں۔ “

”نہیں آں آں۔ وہ خون کس کا گرا تھا۔ خون۔ بتائیں مجھے ”
”بائیس کروڑ میں سے ایک فیصد طبقے سے اظہار لاتعلقی کے حلف نامے کا عنوان بدلے جانے پر خون بہایا گیا ہے۔
اتنی بات ہے۔
اب یہ خون جنتی ہے یا جہنمی۔ اس کا فیصلہ اس کی سیاسی و پیشہ ورانہ وابستگی دیکھ کر کیا جا سکے گا“

” یہ پیشہ ورانہ اور وابستگی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ “
” زبان بند رکھو اور یہ گیلا رومال آنکھوں پہ رکھتی رہو اور مت چلاؤ بس ہم یہاں سے نکلنے ہی والے ہیں۔“
”پاپاپا۔ ہا اا اا اا اا ا۔ آں آں اوں اوں“
”الو کی پٹھی۔ آنسو گیس سے مرو گی نہیں تم۔ مت چیخو اور تیز چلو یہاں سے نکلنا ہے ہمیں۔ “
”کیوں نہ چیخوں پاپا؟ وہ دیکھیں یہ لوگ تو پولیس والوں کو ان کی گاڑیوں میں گھس گھس کے مار رہے ہیں۔ کیوں پاپا“
”بیٹا یہ محرومی اور وہ غصہ ہے جو اس نظام سے ہے اور اسے خود اسی نظام کے مقدس رکھوالے کیش کروا رہے ہیں“

”رکھوالے کسے کہتے ہیں“
”حفاظت کرنے والے۔ “
”کس کی حفاظت پاپا؟ “
”نظام کی حفاظت۔ اسلام کی حفاظت۔ ”
”اور عوام کی حفاظت؟ “
”ہاں وہ بھی یہی کرتے ہیں“
”مگر رکھوالے اب کدھر ہیں“
” وہ نرسری کا قاعدہ قانون سمجھ رہے ہیں۔ “

” بتائیں نا یہ رکھوالے کیا کرتے ہیں“
”یہ خون بہانے والوں کو پیدا کرتے ہیں پھر ان کی پرورش کرتےہیں پھر ان سے ڈرتے ہیں اور پھر ان سے مرتے ہیں۔ کمزور جمہوریتوں میں بس سسٹم ایسے ہی چلتے ہیں۔“
”سسٹم کیا ہوتا ہے“
”یہ جو مرکزی روڈ پر انتہائی حساس ادارہ کے عین سامنے چند درجن شدت پسند پانچویں پولیس وین کو آگ لگا رہے ہیں نا۔ یہ سسٹم ہوتا ہے“

”آاف واقعی۔ اتنا ڈراؤنا منظر۔ ان لوگوں نے ڈنڈے، پٹرول اور ماچسیں کیوں اٹھا رکھی ہیں“
”ان کے بزرگوں نے کہا ہے کہ بیس دن سے بند انٹر چینج، عدالتی حکم پر زبردستی کھلوانے کا مطلب ناموس رسالت پر حملہ ہے۔ توہین رسالت ہے“
”رسالت کسے کہتے ہیں“
”رسالت اس عمل کو کہتے ہیں جب طائف میں پتھر لگنے سے پاؤں لہولہان ہو جائیں تو بددعا تک دیے بغیر حلم اختیار کیا جائے اور لوگوں کو عذاب دینے سے منع کیا جائے“
”مگر یہ سب تو بہت شدید غصے میں ہیں۔ “
”عوام کا یہی غصہ اگر منظم ہو جائے تو بائیس کروڑ کیا، بائیس لاکھ کیا، بائیس ہزار بھی سسٹم بدل سکتے ہیں اورسسٹم کا مطلب میں تمہیں بتا چکا ہوں۔ بس اسی لیے فیصلہ ساز انہیں مذہب مسلک قوم میں تقسیم کر دیتے ہیں“

”فیصلہ ساز کون ہیں“
”بس اب چپ۔ ڈرپوک لڑکی۔
۔ مجھے کیا پتہ فیصلہ ساز کون ہیں۔ ۔ سیلفی بھی لے لی ہے۔ آؤ اب گھر واپس بھاگیں۔ کچھ دیر بعد پتہ چل جائے گا کہ فیصلہ ساز کون ہیں۔

اور لو جی۔ ہم مقدس جلوس کے ایریا سے نکل آئے۔ دیکھو ذرا۔
”وہ دیکھیں پاپا۔ اتنے بڑے بڑے گملے کیسے کھینچ لے آئے روڈ پر اور ٹوٹے گملوں کے سارے پھول پتے سڑک پر بکھرے پڑے ہیں۔ “
”یہ پھول پتوں کا موسم نہیں بیٹا۔ یہ معذوروں کا فضلہ بکھرا پڑا ہے“
”فضلہ کیا ہوتا ہے؟ “
”عقیدوں کی افزائش سے بنی ریاست کی رٹ۔ “

”اف۔ اتنی مشکل باتیں۔“
”مطالعہ پاکستان کی ٹیچر سے ”رٹ رٹ “ تو سنا تھا۔ آپ نے ’ر‘ پر زیر لگا دی۔ ہاہاہا۔
”ہاہاہاہا۔ أگیا گھر۔ اندر جاؤ بستہ اتارو اور کھانا کھاؤ“
”نہیں پہلے ظہر کی نماز پڑھ کے دعا کروں گی کہ اے اللہ قربانی کے بکرے روڈ پر ذبح کرنے کرانے والوں کو عقل دے۔ ”
”بیٹا۔ عقل انہیں کافی ہے۔ رحم اور شرم دینے کی دعا کرنا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).