بھٹوز کے بغیر پیپلز پارٹی کا پچاسواں یوم تاسیس


ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین کو جب ان کی ذات میں کوئی عیب دکھائی نہیں دیتا تو یہ الزام لگا دیا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب نے بھی سیاسی پرورش آمر ایوب خان کی آغوش میں پائی، اور ان کی سیاست ایوب خان کی فوجی ٹوپی کے سائے تلے پروان چڑھی، مخالفین ذوالفقار علی بھٹو پر یہ الزام بھی لگاتے کہ وہ ایوب خان کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔

جنرل ضیا ء الحق یہ ارمان دل میں ہی لیے اس جہان سے اٹھ گیا کہ اسے بھٹوصاحب کی بدعنوانی، کرپشن اور لوٹ مار کا کوئی ثبوت ہاتھ لگتا کیونکہ وہ ذوالفقا ر علی بھٹو کو پاکستانی اور عالمی سطح پر خائن ثابت کرنے کی آگ میں شب و روز جلتا تھا۔ بہت سارے قرطاس ایبض شائع بھی کیے مگر تمام کاوشیں بیکار ثابت ہوئیں قومی دولت پانی کی طرح بہانے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کے اجلے سیاسی کردار پر کوئی بدنما داغ نہ لگا سکا۔ جبکہ اس کا اپنا ظاہردامن و باطن سانحہ اوجڑی کیمپ کے سیاہ دھوئیں سے بھی سیاہ نکلا۔

30 نومبر 2017 کو پاکستان پیپلز پارٹی ( تلوار کے نشان والی) خیر سے 50 برس کی ہو گئی ہے اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی گولڈن جوبلی ہے۔ 30 نومبر1967 کے دن سندھ کی عظیم روحانی و سیاسی شخصیت مخدوم طالب المولی کے گھر ہالہ شریف میں اس پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو پہلے چیئرمین منتخب ہوئے، باقی ممبران میں بھی صاف، شفاف اور بے داغ کردار کے حامل رہنما شامل تھے جن میں جے اے رحیم (وفاقی وزیر) خورشید حسن میر (وفاقی وزیر)، ملک معراج خالد( پنجاب کے وزیر اعلی) غلام مصطفی خان جتوئی (سندھ کے وزیر اعلی و وفاقی وزیر مواصلات)، غلام مصطفی کھر (پنجاب کے گورنر و وزیر اعلی رہے) ڈاکٹر مبشر حسن (وفاقی وزیر خزانہ)، عبدالحفیظ پیرزادہ (وزیر تعلیم و وزیر قانون)، ڈاکٹر غلام حسین (وفاقی وزیر)، شیخ رفیق احمد ( صوبائی اسمبلی کے اسپیکر) شیخ محمد رشید بابائے سوشلزم (وفاقی وزیر صحت) رسول بخش تالپور (29 اپریل 1972 سے 14 فروری 1973 تک سندھ کے 10 ویں گورنر رہے) میر علی احمد تالپور (ضیا دور میں وزیر دفاع رہے) معروف دانشور ادیب صحافی محمد حنیف رامے (پنجاب کے وزیر اعلی) صحافی، دانشور مولانا کوثر نیازی (وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات) معروف مزدور راہنما مختار رانا، اور معروف ترقی پسند راہنما معراج محمد خان سمیت بہت سے ترقی پسند رہنماؤں کے نام قابل ذکر و فخر ہیں۔ نومبر 1968سے نومبر 1978تک پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں منائے جاتے رہے۔ 30 نومبر1978 کے دن مانایا جانے والا یوم تاسیس اس حوالے سے منفرد حثیت کا حامل تھا کہ اس یوم تاسیس پر پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے عوام اور پارٹی کارکنان کے نام جیل سے اپنا آخری پیغام جاری کیا تھا۔ بعد ازاں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت میں پیپلز پارٹی اپنا یوم تاسیس مناتی رہیں اور عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تجدید کرتی رہیں۔

20 ستمبر1996 کے بعد بیگم نصرت بھٹو ہر لحاظ سے خاموش ہو گئیں تو پھر ذوالفقار علی بھٹو کی بھٹو بیٹی کی فکر انگیز اور سحرانگیز شخصیت کی راہنمائی و قیادت میں پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس منایا جاتا رہا مگر جیالوں، متوالوں اور ذوالفقار علی بھٹو کے دیوانوں پروانوں کے جذبات میں وہ گرمی دیکھنے میں نہ رہی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد تو معاملات مزید سرد مہری کا شکار ہوتے گئے۔ جس کی جھلک 4 اپریل اور 27 دسمبر کے روز منائی جانے والی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی ’’برسیوں‘‘ کے مواقع پر واضح نظر آتی رہی۔ ان دونوں دونوں پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ کے قومی خزانے سے بھاری رقوم خرچ کرکے اخبارات کے خصوصی ایڈیشن شائع کروانے پڑے جبکہ پہلے اخبارات اپنے طور پر شہیدوں کی سیاسی بصیرت، لیاقت، نظریات، ذہانت فطانت اور پالیسیوں کے تناظر میں اسپیشل ضمیمہ جات شائع کر کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا کرتے تھے۔ جس سے عوام اور پیپلز پارٹی کے جیالے کارکنان اپنے تشنگی دور کرکے اپنے سیاسی عقیدے کو مزید پختگی عطا کرتے اور ان خصوصی ضمیمہ جات میں شہیدوں کی ملکی اور بین الاقوامی کامیابیوں کے تذکرے عوامی محبت کو مزید وسعت دینے اور گہرا کرنے کا سبب ٹھہرتے۔

ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے اپنی ہم عصر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں منفرد اور بڑی بڑی کامیابیاں اپنے نام کیں، ملک کو ’’آئین 1973‘‘ کے نام سے مشہور دستور دیا، اس پارٹی کی قیادت نے ملک کے بڑے حصے کی علیحدگی کے باوجو د پاکستانی قوم کو دنیا میں سر اٹھا کے چلنے کے قابل کیا، جنگ 1971 میں دشمن کے ہاتھوں قید ہونے والے ایک لاکھ کے قریب سول و فوجی باعزت رہا کروانے کا سہرا بھی پیپلز پارٹی کے سر ہے۔

مغربی پاکستان کا پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ جس پر دشمن نے قبضہ کرلیا تھا واپس حاصل کرنے بھی ذوالفقار علی بھٹو کی بے پناہ لیاقت، ذہانت اور سیاسی تدبر و بصیرت کا کمال ہے۔ ورنہ ہمارے مسلم برادر عرب ممالک اسرائیل سے وہ علاقے واپس لینے میں کامیاب نہ ہوسکے جو اسرائیل نے 1967کی جنگ میں عربوں سے ہتھیائے تھے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت اور ورکروں نے جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خاتمے کے لیے اپنی لازوال جدوجہد کی ہے اور اس حوالے سے ایک تاریخ رقم کی ہے، مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سیاسی جدوجہد میں قربایوں کا ذکر آتا ہے تو پیپلز پارٹی سرفہرست شمار ہوتی ہے اور اگر آمریت سے لڑائی کا حوالہ درکار ہو تو بھی پیپلز پارٹی کے علاوہ کوئی دوسرا نام اذہان میں نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی (آج والی نہیں) ایک سیاسی جماعت نہیں، ایک سوچ اور نظریہ کا نام ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی سے ایک کروڑ اختلافات ہوں، اس کی قیادت میں لاکھ برائیاں موجود ہوں اس کے باوجود اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پیپلز پارٹی اس ملک کی سیاست کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور فوجی جرنیلوں کے ڈرائینگ روموں سے نکال کر ہاریوں، مزدوروں کسانوں اور غریبوں کی جھونپڑیوں میں لے کر آئی۔ پیپلز پارٹی کو مزدور کسان، ہاری طلباء کھیت مزدوروں اور دیہی مزدوروں نے اپنی آواز قرار دیا، اس کو اپنے خاندان کا درجہ دیا، یہی وجہ ہے کہ جب آمر ضیا الحق نے اس کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا تو تمام طبقات کے لوگوں نے اس کی رہائی کے لیے قربانیاں دیں، خودسوزی کرکے اپنی زندگیاں ذوالفقار علی بھٹو پر نچاور کردیں یہ سب کچھ جیالوں نے بھٹو کی زندگی کی شمع کو گل ہونے سے بچانے کے لیے کیا۔ اپنے سیاسی اور محبوب قائد کی جان بچانے کے لیے اس لازوال قربانی کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے پاکستان کو پہلی مسلم جوہری ریاست بنانے میں اہم کردار ادا کیا تو بے نظیر بھٹو شہید کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی سے مزین کرکے دشمن کی نیندیں حرام کردیں۔ یہ ذوالفقا ر علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قیادت کا کارنامہ ہے کہ آج پاکستان بڑی سے بڑی طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتاہے اور کسی دشمن کو یہ جرآت و ہمت نہیں کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے سابقہ اور موجودہ رفقائے کار، معتمدین ذوالفقا ر علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے اپنے تمام تر سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں کہ پاکستان کو جوہری قوت اور ایٹمی ٹیکنالوجی دینے کا سہرا باپ بیٹی (ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو)کے سر ہے۔

30 نومبر ہے اور، پیپلزپارٹی اپنا پچاسواں یوم تاسیس بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو شہید کے بغیر منارہی ہے۔ اس بار نئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں یہ یوم تاسیس منایا جا رہا ہے، پی پی پی کی قیادت سنبھالنے کے بعد بلاول بھٹو زرداری کے ناتواں اور ناتجربہ کار کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری عوام کو اسی طرح متاثر کرپائیں گے جیسے ان کی والدہ اور ناناجان سے عوام متاثر ہوئے، اور ان کے دلوں پرحکمرانی کی اور کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے؟ کیا بلاول بھٹو زرداری اس سیاست کی جھلکیاں عوام کو دکھا پائیں گے جس سے عالمی رائے عامہ سمیت ملکی ووزٹر ان کے گرویدہ ہو جائیں اور ان کی شخصیت کو قابل بھروسہ سمجھیں۔

اگلے عام انتخابات میں وقت بہت کم باقی رہ گیا ہے، پیپلز پارٹی کے کارکنان سمیت عام پاکستانی بھی یہ سمجھنے لگا ہے کہ منشور و دستور کی مناسبت سے تمام پارٹیاں ایک جیسی ہیں، سب سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں پروگرام ترتیب دینے لگی ہیں، سب کی سب جیتنے والے امیدواروں کی دوڑ میں شامل ہیں، بلاول بھٹو زرداری اگر پیپلز پارٹی کو 1970 کی نہج پر لیجانے کے خواہاں ہیں تو انہیں پیپلز پارٹی کے ترقی پسندانہ نظریات کی طرف رجوع کرنا ہوگا، ذوالفقا ر علی بھٹو کی سیاست، سوچ، اورنظریات کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنانا ہوگا، سوشلسٹ نظام حکومت کو نعرہ نہیں منشور کا حصہ بنانا ہوگا، بڑی بڑی گاڑیوں اور بنگلوں والوں کے طوائف کرنے کی بجائے ’’ بارش میں ٹپکتی چھتوں والے گھروں اور جھونپڑیوں کے پاس جانا ہوگا، پیدل اور موٹرسائیکل سواروں کو اپنی قربت میں جگہ دینی ہوگی۔ بابا ہیرا سائیں پیدا کرنے ہوں گے۔

مجھے یہ بات کہتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ بھٹو شہید اور بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کوئی چاچا غلام رسول، عارف خان، سیٹھ بشیر احمد جیسا ورکر پیدا نہیں کر پائی۔ اس نے صرف ملک ریاض حسین قبیل کے لوگ ہی پیدا کیے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرمایہ دار وں کو پارٹی میں شامل کرنے کی بجائے غریبوں کے دلوں پر دستک دیں، غریبوں کسانوں، ہاریوں اور مزدوروں کی سیاست کو دوبارہ زندہ کریں تو۔ ’’جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا‘‘ کے نعرہ کو حقیقت بنایا جا سکے گا۔ ورنہ عوام دوسری سیاسی جماعتوں اور پیپلز پارٹی میں کوئی فرق نہ سمجھتے ہوئے اس سے دور رہیں گے۔ پیپلز پارٹی اور عوام میں فاصلے بڑھتے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).