چھوئی موئی اور پگڑ


چھوئی موئی یعنی Touch me not ایک پھول کا نام ہے، جسے لاجونتی بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا پھول ہے جو ہاتھ لگتے ہی بکھر جاتا ہے؛ جس پر ”قرب شبنم“ بھی گراں گزرتی ہے۔

جب ہم عورت کے لیے چھوئی موئی کا استعارہ استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں وہ لڑکی نظر آتی ہے جسے بچپن ہی سے گڑیوں کے ساتھ کھیلنا سکھایا جاتا ہے۔ دُپٹا ٹھیک سے اوڑھو اور نظر نیچی رکھو؛ خبردار جو گھر سے باہر قدم نکالا۔ محض اپنے گھر کی چار دیواری کے فانوس میں شمع کی طرح جلتی رہو، پگھلتی رہو۔ یہ لڑکی سردیوں میں لحاف میں گھس کر کاپی پینسل نکال کر اپنے سامنے بلب کی روشنی میں ”باجی کی ڈاک“ کے نام خط لکھتی رہتی ہے اور اپنا نام پتا نہیں لکھتی۔

وہ اپنا نام پتا کیوں نہیں لکھتی؟ شاید اس کا نہ کوی نام ہے نہ پتا، شاید وہ کسی اور ہی دنیا میں رہتی ہے جہاں کوئی اندلسی شہزادہ اسے گھوڑے پر بیٹھا کر افق کے پار لے جائے گا، آخر یہ لڑکی کون ہے؟

یہ سیتا ہے۔ وفا کی پتلی جی ہاں وفا کی پتلی! جو اپنے پتی کے لیے ستی بھی ہو جاتی ہے اور مرتے دم تک اپنے مجازی خدا کی پرستش کرتی رہتی ہے۔

بیسویں صدی کے نفسیات دان کال یونگ کہتا ہےکہ ہر عورت میں ایک مرد ہوتا ہے اور ہر مرد میں ایک عورت۔ چھوئی موئی وہ عورت ہے جس نے اپنے اندر کے مرد کو ماں باپ اور معاشرے کی مدد سے دفن کردیا ہے۔ اب اس کے مقابل مرد کو دیکھیے جس کی گھنی اور رعب دار مونچھیں ہیں ورزشی جسم اور سر پر پگڑ رکھتا ہے۔ اکڑ اکڑ کر چلتا ہے۔ اس کے اندر نہ کوئی جمالیاتی حس ہے نہ ہی کوئی لطیف جذبہ سمجھیں تو ایک چلتا پھرتا تودہ مردانگی ہے؛ غور سے دیکھا جائے تو یہ وہ مرد ہے جس نے اپنے اندر کی عورت کو ماردیا ہے۔ اب وہ خالص ان چھوا موا مرد ہے۔

ہوسکتا ہے کہ آپ کہیں کے یہ تو فیوڈل معاشرے کے آدم اور حوا ہیں۔ جدید شہری زندگی میں ان کی شکلیں بدل گئی ہیں۔ آپ نے بلکل صحیح کہا، واقعی اب تو یہ صرف ٹی وی کے سوپ اوپیرا اور خواتین کے رسائل میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ اب بھی کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔ شہری زندگی سے مجھے یاد آیا کہ ہماری ایک دوست جسے Coffee morning parties کا بہت شوق ہے۔ اس نے ایک دن اپنے آپ کو فیمنسٹ ڈکلیر کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے لمبے اور گھنے بال بوائے کٹ میں بدل گئے۔ آواز مردوں کی طرح بھاری ہونا شروع ہوگئی، اس کے لباس میں بھی تبدیلی آ گئی اب وہ پاور پیڈز والا ہائی شولڈر کوٹ پہنتی ہے۔ صرف پگڑ کی کثر رہ گئی ہے۔ لیکن ٹھیریے میں آپ کو ایک پریس کانفرنس کا کلپ دکھاتی ہوں۔

ناظرین یہ کوئی پٹھان مرد نہیں یہ عائشہ گلالئی ہیں۔ زرا سنیے ”عمران خان جعلی پٹھان ہیں، میں اصلی پٹھان ہوں، آج میں نے پگڑ اس لیے باندھا ہے کیونکہ مرد کا مقابلہ کرنے کے لیے عورت کو مرد بنا پڑے گا“۔

زرا سوچیے عورت ہوتے ہوئے اپنی ہی نسائیت، خوبصورتی اور قوتوں کا انکار عورت کی اپنی ذات کا انکار بن جاتا ہے پورے مرد کی طاقت اختیار کرنے کے لئے اپنی تمام تر نسائیت سے محروم ہے۔ جدید عورت تو وہ ہے جس نے اپنی تمام تر نسائیت کے حسن کے ساتھ اپنے اندر کا مرد بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔

میری ”ہم سب“ پہ چھپنے والی تحریر کے بارے میں بہت سے تبصرے ہوئے، لیکن ان میں سے ایک کمنٹ ایسا بھی تھا۔ جس کو پڑھ کر میں نے ضروری سمجھا کے اس پہ کچھ لکھا جائے۔ چنانچہ میرے خیال میں جنھوں نے یہ کمنٹ کیا ہے یہ حضرت ان مردوں میں سے ہیں، جو اپنے اندر کی عورت کا گلا گھونٹ کر بغیر کفن دفن کے اس کا مردہ بھی غائب کر دیتے ہیں۔ اور جب وہ ان کے سامنے دوبارہ کھڑی ہوجاتی ہے تو وہ خوفزدہ ہو کر کہتے ہیں۔
”ہم نے اس کو مار کر اس کا مردہ بھی غائب کر دیا تھا۔ پھر یہ زندہ کیسے ہو گئی“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).