قوم کو ناراض بھائیوں سے مذاکرات مبارک ہوں، مگر صاحب!


اسی اور نوے کی دہائی میں خاص اسٹریٹجک مقاصد کے لئے ایک خاص مسلک کے عسکریت پسند حلقوں کو ریاست کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس سرپرستی کے ذریعہ بیرونی جہادوں کو چار چاند لگے، جہاد ایک جگہ ختم نہیں ہوتا تھا کہ دوسری جگہ شروع ہوجاتا۔ امریکہ تو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد خطے سے نکل گیا، ہم نے مگر جہاد کو ریاست کا مقصد بنا لیا۔

پھر نائن الیون ہوگیا۔ جہاد یکدم دہشت گردی ٹھہرا، ناگزیر حالات کی بدولت ریاست کو وقتی طور پر ان جہادیوں سے منہ موڑنا پڑا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ جہادی جنہیں ہم نے خود اپنے خون سے سینچا تھا ہماری بے وفائی کی وجہ سے ناراض ہوگئے ہیں۔ بازاروں، چوک چوراہوں، مسجدوں اور امام بارگاہوں میں پاکستانیوں کا خون ارزاں ہوا، قوم بلبلا اٹھتی تو بتایا جاتا کہ یہ ہمارے ناراض بھائی ہیں، جبہ پوش ناصحان بتاتے کہ قوم کو اپنے کئے کی سزا مل رہی ہے، پاسبان بتاتے کہ بھائی ناراض ہوجائے تو اسے گھر سے نہیں نکالتے بلکہ مناتے ہیں، اس پر گولی نہیں چلاتے بلکہ اس کی ناراضی کی وجہ جانتے ہیں۔ ہم زخم کا درد اور دل میں ہمدردی لئے اگلے دھماکے کا انتظار کرتے۔

سوات میں طالبان نے اپنی حکومت قائم کر لی تو ریاست کی رٹ کا شور مچا، ہمیں بتایا گیا کہ مقامی لوگوں نے عدالتوں کے فیصلوں میں تکلیف دہ تاخیر کی وجہ سے خالص شرعی طرز پر قضا قائم کی ہے۔ اس کے لئے ناراض بھائیوں کے ایک فریق نے مدد اور رہنمائی فراہم کی ہے۔ آئینی ریاست میں ایسا اقدام اگرچہ غلط راستہ ہے مگر چونکہ مقصد محض جلد حصول انصاف ہے اس لئے ہمیں آئینی تقاضوں سے درگزر کرنا چاہئے۔ ہم نے درگزر سے کام لیا، یہاں تک کہ مینگورہ کی گلیوں میں سرخ رنگ کے چشمے پھوٹ پڑے۔

سوات کے آپریشن میں اس بات کا خیال رکھا گیا کہ ہمارے ناراض بھائیوں کو زیادہ گزند نہ پہنچے، ملا فضل الله سمیت تمام قیادت بخیریت افغانستان پہنچا دی گئی۔ اس دوران دشمن نے بہت چاہا کہ ہم اپنے بھائیوں کے خلاف بندوق استعمال کریں مگر قومی قیادت کی دانشمندانہ پالیسیوں اور محافظوں کے اپنے لوگوں کے خلاف گولی چلانے سے مسلسل تردد نے ہمیں اس ظالمانہ اقدام سے بچائے رکھا۔ اگلے چھہ سال ہمیں عمران خان جیسے ہمدردوں نے بتایا کہ یہ تو ہماری جنگ ہی نہیں ہے، قوم پر دہشت گردی غیر دانشمندانہ فیصلوں کی بدولت تھوپ دی گئی ہے اور ہمیں امریکہ کی جنگ سے نکل آنا چاہئے۔ فاٹا سے فوج واپس بلا لینے اور امریکی ڈرون مار گرانے سے دہشت گردی کا مسئلہ منٹوں میں حل ہوجائے گا۔ ہمیں یہ بھی باور کروا دیا گیا کہ کسی بھی غیر دانشمندانہ اور مصلحت سے عاری اقدام، یعنی فوجی آپریشن سے دہشت گردی کے ناقابل یقین حد تک بڑھنے کا خدشہ ہے نیز یہ کہ ایسے اقدام کی کامیابی کا امکان چالیس فی صد سے زیادہ نہیں۔

2013 کے انتخابات کے بعد ہم اپنے ناراض بھائیوں سے مذاکرات کر رہے تھے۔ قوم کو اچھے دنوں کی نوید سنائی جارہی تھی، پشاور میں دفتر کھولنے کی پیشکش کی جارہی تھی، کے پی کی کابینہ میں وزارتیں دینے کی دعوت دی جارہی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ امریکہ نے قوم کے ناراض سپوت حکیم الله محسود کو ڈرون حملے میں مار دیا۔ پوری قومی قیادت سکتے میں آگئی، وزیر داخلہ بلبلا اٹھے، ہمارے ناراض بھائی ہم سے مزید ناراض ہوگئے۔ اس دفعہ مگر زیادہ کچھ نہ بدلا، ہماری لاابالی طبیعت دیکھتے ہوئے ناراض بھائیوں نے حفظ ماتقدم کے طور پر مذاکرات کے دوران بھی دھماکے اسی رفتار سے جاری رکھے۔

بالآخر ایک دن محافظوں کے درمیان سوٹی بدل تقریب ہوگئی اور جون 2014 میں ایک صبح قوم کو نوید ملی کہ قوم کے محافظوں نے بھائیوں کی سرزنش کا فیصلہ کیا ہے۔ جون 2014  سے دسمبر کی سولہ تاریخ تک آپریشن ضرب عضب ”پولی پولی ڈھولکی“ کی طرح اسلام آباد دھرنے کے عقب میں چلتا رہا۔ پھر محافظوں کے اپنے گھر کو بھی آگ لگ گئی اور اگلے دن ہمیں بتایا گیا کہ جنہیں ہم اب تک ناراض بھائی سمجھتے رہے ہیں وہ تو انڈین را کے ایجنٹ ہیں۔ سارا میڈیا اس بات کی رٹ پر لگ گیا۔ ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ ہندوستانی ایجنٹ تیار کہاں ہورہے تھے، بارہ سال کیوں لگے انہیں پہچاننے میں اور جب یہ عوام کو مار رہے تھے تو ان کے دفاتر کیوں کھلوائے جا رہے تھے۔

پچھلے سال ”اُڑی“ ہوگیا۔ ہم نے پوچھا حافظ سعید کون سے انڈے دیتا ہے تو یار دوستوں نے پچھلے ناراض دوستوں کی کہانی سنائی، ہمیں دبے دبے لفظوں میں بتایا گیا کہ اب کے بے وفائی کی تو پہلے سے بھی زیادہ زورآور ناراض بھائی پیدا ہوں گے، اس دفعہ بھائیوں کے ناراض ہونے سے پہلے ہی انہیں قومی دھارے میں لانے کی نوید سنائی گئی ہے۔ ہمارا قومی دھارا اللہ کے فضل سے بڑا انوکھا ہے۔ ہم اس میں سے عوامی رہنماوں کو ہم مکھن کے بال کی طرح نکالتے ہیں اور ان بھائیوں کو جن کے ناراض ہونے کا اندیشہ ہے چن چن کر شامل کرتے ہیں۔ آج کل پھر بازگشت سنی ہے کہ فوج اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلائے گی۔ جاننا یہ ہے کہ اس دفعہ کتنے بے گناہ شہری مروانے کے بعد ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ بھی کسی قسم کے ”انڈین ایجنٹ“ ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).