بھیڑ اور لگڑ بگڑ کی کہانی


پرانے زمانے میں ایک بھیڑ ہوتی تھی۔ اتنی ہی معصوم جتنی آج کل ہوتی ہیں۔ معصومیت کا وہ معیار ہمارے یہاں بے وقوفی کہلاتا ہے جس پہ اس کہانی کا مرکزی کردار‘ یہ بھیڑ، پوری اترتی تھی۔ ایک دن کافی اچھا موسم تھا۔ ہلکی ہلکی خنکی تھی لیکن دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ بھیڑ پورا انجوائے پروگرام چلا رہی تھی۔ ادھر جاتی، اُدھر جاتی، جہاں دل کہتا وہاں جا کر اپنے کام کے پودے یا گھاس چر لیتی۔ اس کے بعد پھر چھلانگیں مارنے لگتی۔ اچانک اسے آس پاس کے ماحول میں تبدیلی محسوس ہوئی۔ اس نے یہ نوٹ کیا کہ پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں آہستہ آہستہ کم ہونے لگی ہیں۔ بچپن میں اس نے سنا تھا کہ جنگل میں پرندے اور جانور اچانک خاموش ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آس پاس کہیں کوئی لگڑ بگڑ موجود ہے۔ لیکن اس کی جانے بلا، وہ بے فکری سے کدکڑے مارتی ہوئی کھابہ پروگرام چلاتی رہی۔ ایک مرتبہ پھر اسے جنگل کے سناٹے سے خوف محسوس ہوا مگر اس نے اپنے آپ کو تسلی دی اور سوچ لیا کہ ان شاء للہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا، یہ میرا وہم ہے۔

اب وہ سر جھکائے جنگل میں اپنے مطلب کی چیزیں ڈھونڈ رہی تھی کہ اچانک اسے ایک عجیب سی بو آئی۔ اس کے ماں باپ نے بتایا تھا کہ یہ منحوس قسم کی بو تبھی آتی ہے جب کوئی لگڑ بگڑ قریب ہو۔ اسے اندازہ تھا کہ لگڑ بگڑ ایک مرتبہ آ گیا تو نری موت ہے۔ لیکن وہ دل ہی دل میں یہ بھی سوچتی تھی کہ شاید اسے میں نظر نہ ہی آؤں۔ کیا پتا وہ مجھے دیکھ لے پھر بھی نہ مارے۔ اس نے اپنے آپ کو یقین دلا لیا کہ نہیں، یہ لگڑ بگڑ کی بو نہیں ہو سکتی۔ یہ کوئی اور چیز ہو گی۔
کچھ دیر کے بعد بار بار اس کی ناک سے وہی مخصوص بھبکے ٹکرانے لگے جو ایک وحشی لگڑ بگڑ کی نشانی ہوتے ہیں۔ وہ اندرکھاتے پریشان ضرور تھی لیکن اوپر سے اسی طرح مطمئن کھڑی رہی۔ اس نے سنا تھا کہ اگر آپ اونچی آواز میں کوئی بات کریں تو آپ کا اپنا دماغ بھی چار پانچ بار کہنے اور سننے کے بعد اس بات کو سچ مان لیتا ہے۔ اس نے زور زور سے یہ کہنا شروع کر دیا۔”یہ لگڑ بگڑ نہیں ہو گا۔ ان شاللہ یہ لگڑ بگڑ نہیں ہوگا‘‘۔

کہانی کہنے والوں کا خیال ہے کہ لگڑ بگڑ اس کی آواز سن کر اور نزدیک پہنچ گئے ہوں گے لیکن بھیڑ بے غم تھی۔ ابھی وہ اونچی آواز میں یہ گردان کر ہی رہی تھی کہ اسے لگڑ بگڑوں کی قہقہے نما آواز سنائی دی۔ یہ آواز بچپن میں اس کی نانی اسے بطور سیمپل سنایا کرتی تھیں جب ایک بے بی لگڑ بگڑ شیر سے لڑائی کے دوران زخمی ہو کے ان لوگوں کے نزدیک کہیں پڑا رہتا تھا۔ اب اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ وہ کچھ کچھ اس نتیجے پہ پہنچ رہی تھی کہ یہ لگڑ بگڑ ہی کی آواز ہے لیکن اس کا ذہن یہ ماننے پہ آمادہ نہیں تھا۔ لگڑ بگڑ یہاں آ کیسے سکتا ہے؟ پورے جنگل کے جانوروں کو چھوڑ کے وہ مجھے ہی مارنے آیا ہو گا۔ بھیڑ نے یہ سوچا اور اپنے برے خیالات کو ایک طرف جھٹک کے پھر سے پرسکون ہو گئی۔ اس نے کمال بے خوبی سے اپنے آپ کو منوا لیا تھا کہ یہ آواز اس موذی جانور کی ہو ہی نہیں سکتی۔

اس نے چرنے کے لیے سر جھکایا ہی تھا کہ آوازیں دوبارہ آنا شروع ہو گئیں۔ سر نیچے رکھے رکھے اسے یوں لگ رہا تھا کہ یہ آوازیں قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہیں لیکن اس کی تسلیاں اپنی جگہ پرتپاک طریقے سے قائم تھیں۔ آخرکار جب وہ بھیانک آواز اسے اپنے آس پاس محسوس ہوئی تو اس نے دعا مانگی۔ اے میرے پاک پروردگار! کاش یہ لگڑ بگڑ نہ ہو۔ دعا مانگنے کے بعد بھی وہ ادھر سے نہ ہلی۔ اس نے تھوڑی تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کے آس پاس کنکھیوں سے جھانکنا شروع کر دیا۔ دیکھنے والوں کو لگتا کہ وہ کچھ کھا رہی ہے لیکن اصل میں بڑے محتاط طریقے سے وہیں کھڑے کھڑے وہ چار چفیرے نظریں دوڑاتے ہوئے جائزہ لے رہی تھی۔ ایک بار جو اس نے آنکھیں سیدھی کیں تو سامنے کا منظر ناقابل یقین تھا۔

لگڑ بگڑ اس سے چند سو فٹ دور سامنے کھڑا ہوا تھا۔ بھیڑ لیکن اپنے سٹائل میں ہنسنے لگی۔ اس نے خود کو ڈانٹا کہ اے ڈرپوک مخلوق! تو بربادی سے ہمکنار ہو، تجھے کیا ڈر ہے جو ہر سایہ تجھے لگڑ بگڑ کا سایہ دکھائی دیتا ہے اور ہر جانور تجھے اسی درندے کے مانند نظر آتا ہے۔ وہ ہو گا کوئی اور جنگلی جانور۔ تف ہے تجھ پہ اور تیری چھوٹی عقل پر جو ڈر کے مارے اس قدر برباد ہو چکی ہے کہ سیدھی نظروں پہ ایفیکٹ ڈال رہی ہے۔ پھر منہ چلاتے چلاتے اسے اچانک خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ میرا وہم ہی ہے۔

یہ سوچتے ہوئے جو اس نے سامنے دیکھا تو بہت سے لگڑ بگڑ شکار کی تلاش میں سامنے دوڑتے نظر آ رہے تھے۔ وہ سٹپٹا گئی۔ چونکہ وہ سامنے نظر آنے والی اس بات پہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھی اس لیے ایک مرتبہ پھر اپنے ذہن میں اس نے دہرایا۔ یہ لگڑ بگڑ نہیں ہیں۔ یقینا، یہ لگڑ بگڑ ہو ہی نہیں سکتے۔ اس نے اب اونچی آواز میں یہ بات اپنے آپ کو اس لیے نہیں سنائی کہ دور کہیں دل میں یہ خیال جڑیں پکڑ چکا تھا کہ بچُّو…! یہ لگڑ بگڑ ہی ہیں، کب تک اپنے آپ کو تم دھوکہ دو گی؟ اتنی دیر میں دو لگڑ بگڑ اس سے محض دو سو فٹ کی دوری پہ پہنچ چکے تھے۔ یا میرے خدا! کیا آگے بڑھتے ہوئے یہ جانور واقعی لگڑ بگڑ ہیں؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، اگر وہ ہوئے بھی تو انہیں میں نظر ہی نہیں آؤں گی۔ مجھے، ایک معصوم سی بھیڑ کو مار کے انہیں کیا ملے گا؟

جب لگڑ بگڑوں کا اور اس بھیڑ کا درمیانی فاصلہ صرف تیس، پینتیس فٹ رہ گیا تو بھیڑ نے پلان میں تھوڑی تبدیلی کرنا چاہی۔ اسے اگرچہ یقین نہیں تھا کہ یہ جانور لگڑ بگڑ ہی ہیں لیکن پھر بھی اس نے سوچا کہ اسے ان سے کچھ ڈسٹنس تو رکھنا ہی چاہیے۔ وہ جو بھی جانور ہوں، لگتے تو خطرناک ہی ہیں، تو کیوں نہ ان سے تھوڑا دور ہو لیا جائے؟ جیسے ہی اس نے یہ بات اپنے دماغ میں طے کی تو اس نے آگے کو چلنا شروع کر دیا۔ ابھی ذرا آگے گئی تھی کہ اس نے سوچا مڑ کے دیکھ ہی لیا جائے وہ جانور، چاہے وہ جو بھی ہوں، وہ اب کہاں ہیں؟ اس نے گردن موڑ لی۔

لگڑ بگڑ دانت نکوستے ہوئے اس کی طرف دوڑے چلے آ رہے تھے۔ اس کی حالت پتلی ہو گئی۔ اس نے سوچا کہ کاش اگر یہ جانور واقعی لگڑ بگڑ ہیں تو میرے قریب آنے تک یہ مرغیوں میں تبدیل ہو جائیں، یا چلو گھوڑے ہی بن جائیں، کچھ بھی ہو بس میں بچ جاؤں۔ یہ سوچتے سوچتے اس نے تیزی سے بھاگنا شروع کر دیا۔ لگڑ بگڑ بھی سپرنٹ لگائے ہوئے تھے۔ ہاتھ آیا شکار کون جانے دیتا ہے۔ شکار بھی ایسا جسے ہانکا لگائے بغیر ہی سامنے پا لیا ہو۔ جو اپنی مرضی سے، اپنی خوشی سے عین لگڑ بگڑوں کے سامنے اپنی پشت کیے دوڑ رہا ہو۔

اب جو اس نے تیزی سے بھاگنا شروع کیا تو اس کے دماغ میں آیا کہ بھیڑ بیٹی، یہ اگر یہ واقعی لگڑ بگڑ ہیں تو بھی یہ تجھے چھو نہیں پائیں گے۔ تجھ پہ خاص اکرام ہوا ہے جو تو اس چراگاہ میں چھوڑی گئی تھی۔ تیرا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا، کجا یہ کہ وہ تجھے ٹچ بھی کر جائیں۔ اس نے بھاگتے بھاگتے پھر سے پیچھے مڑ کے دیکھا تو اسے لگڑ بگڑوں کی بہتی رال اپنی پچھلی ٹانگوں پہ گرتی محسوس ہوئی۔ وہ بے فکر رہی۔ وہ یقین رکھتی تھی کہ اول تو یہ جانور لگڑ بگڑ نہیں ہے، اور اگر ہے تو بھی اسے چھونے سے پہلے وہ مرغی یا گھوڑا بن جائے گا۔

پھر جب لگڑ بگڑ نے اپنے پنجے اس کی پشت پہ مارے اور اسے ادھیڑ دیا تو وہ سُن ہو گئی۔ اس سے مزید بھاگا نہیں جا رہا تھا۔ بہتا خون اسے تیزی سے کمزور کر رہا تھا۔ آخرکار وہ گر گئی۔ جس وقت لگڑ بگڑ نے اپنا منہ اس کی گردن پہ رکھ کے تناول ماحضر فرمانا چاہا تو بھیڑ کے منہ سے نکلا… ہاں، میرے جنگل کے رفیقو! یہ لگڑ بگڑ ہی تھے، ایسے دانت انہیں کے ہوتے ہیں!

(ترک کالم نگار عزیز نیسن کا ایڈوپٹڈ ورژن)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain