کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں


ادبی رسالوں کے زوال اور اختتام کی داستاں یاد ماضی ہوئی۔ دیگر ادبی روایات کی زبوں حالی کس مستقبل کی نشان دہی کرتی ہے وہ بھی عیاں ہے۔ اس کے معاشرتی فکر پر اثرات محسوس ضرور کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم جو تخلیقی سوتا انسان کے خمیر سے پھوٹتا ہے، اظہار کی راہ ضرور نکال لیتا ہے۔ چنانچہ تمام نامساعد حالت کے باوجود رقص، موسیقی، مصوری اور سنگ تراشی جیسے فنون لطیفہ کا شعلہ اس ملک میں بھی فروزاں رہا اور ان کے عدم وجود کے فریب خیال میں مبتلا
؎ کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل

تو شعر و ادب کی دنیا کی ویرانی بھی صرف ظاہری ہے، کیونکہ انسانی سرشت میں شامل جمالیاتی احساس ازلی ہے۔ معاشی حالات کے نامساعد ہونے سے تخلیقی عمل کا دھارا سست پڑنا سمجھ میں آتا ہے۔ دوسرا سبب شاید اتنا ہی اہم ہے اور وہ ہے وسیلے یا ذرائع اظہار کی عدم دستیابی۔

رسائل کے بعد ادبی محافل اور مشاعرے بھی نہ رہے اور کتاب کو زوال آیا تو رابطے کی صورت باقی نہ رہی۔ پھر افسانہ نویس یا شاعر اپنے قاری تک کیسے رسائی حاصل کرے؟ آئنے میں خود ہی تماشا ہو اور خود ہی تماشائی؟

کچھ صاحبان ثروت نے کبھی چار تو کبھی پانچ ماہ میں رونما ہونے والے ”سہ ماہی“ کتابی سلسلوں کے دم پر اس خلا کو پر کیا، جو بہرحال سودائے جنوں تھا۔ انتخاب سے اشاعت تک کے ہفت خوں طے کرنے والے ایسے جرائد کی پیداواری لاگت ان کی ضخامت کے باعث 600-800 سے کم کرنا عملا ممکن نہ تھا۔ ترسیل کے اخراجات اضافی نتیجہ یہ کہ وہ زیادہ ترعزازی تقسیم ہوئے۔ عام قاری تک نہ پہنچ پائے۔ ہم رہے پیاسے کے پیاسے۔

اس مشکل کا آساں حل تو اب الیکٹرانک میڈیا پر ”پیِ ڈی ایف“ ہی بنتا ہے لیکن وہ جو کاغذ کے لمس اور خوش بو کا نشہ ہے وہ ابھی مغرب میں اسی طرح باقی ہے تو ہم سے کب چھوٹے گا۔ پس چہ باید کرد؟ کچھ علاج سکا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔ اصل چیلنج نفی میں نہیں اثبات میں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ موجودہ سہ ماہی ادبی کتابی سلسلوں کی ضخامت کو تین پر تقسیم کرکے اسے ماہانہ کر دیا جائے؟ اس سے معیارکے متاثر ہونے کا کوئی امکان نہیں لیکن قیمت کے کم ہونے سے فروخت زیادہ ہو جاےؑ گی۔ انتظامی مسائل سے نمٹنے کے لیے رضاکارانہ خدمات سے استفادہ کیا جائے، مثلا یہ اندازہ کرنے کے لیے کہ ایک تہائی قیمت پر خریداری میں کتنا اضافہ متوقع ہے، ترسیل کے انفرادی اخراجات کم کرنے کے لیے مختلف شہروں اور قصبوں میں ایسے مراکز بنائے جائیں، جہاں سے رسالہ دستیاب ہو۔

ادب پرور افراد کہاں نہیں جو یہ کام بخوشی کریں گے۔ اس سے بک اسٹال کا کمیشن جو غالبا چالیس فی صد ہوتا ہے، بچے گا اور پرچا ایک ہی تاریخ پر ہر جگہ دستیاب ہوگا۔ معیاری ادب کی ترویج کے لیے قاری کی شراکت کے نظام کو فروغ دیا جائے۔ اس وقت جو صورت احوال میرے مشاہدے میں ہے، یہ ہے کہ بیش تر احباب صرف اعزازی کاپی کے حصول میں زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں اور وہ ان کے ڈرائنگ روم یا لائبریری میں نئی کی نئی صاف ستھری رکھی رہتی ہے یا وہ صرف اپنی تخلیق یا اپنے ذوق کے موضوع (افسانہ، غزل، نظم) کو دیکھ لینا کافی سمجھتے ہیں، جب کہ وہ اگلے تین ماہ میں بہت سے ادب کے تشنہ کام احباب کی ضرورت پوری کرسکتی ہے۔

یہ اطلاع اپنی سہولت کے مطابق فیس بک پر دی جاسکتی ہے کہ تازہ شمارہ مستعار دینے کے لیے دستیاب ہے اور یہ چشمہؑ فیض جاری رہ سکتا ہے۔ میرے نزدیک یہ ادب کو الماری میں قید کردینے سے بہتر ہے۔ ممکن ہے میری بات غیر عملی زیادہ ہو اور کچھ اسے خواب آرزو قرار دیں لیکن خواہش میں خیر کا پہلو نکلتا ہو تو دیوانے کا خواب بھی سن لینا چاہیے۔

احمد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد اقبال

احمد اقبال 45 سال سے کہانیاں لکھ رہے ہیں موروثی طور شاعر بھی ہیں مزاحیہ کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع ہو کے قبولیت عامہ کی سند حاصل کر چکا ہے سرگزشت زیر ترتیب ہے. معاشیات میں ایم اے کیا مگر سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ملکی تاریخ کے چشم دید گواہ بھی ہیں.

ahmad-iqbal has 32 posts and counting.See all posts by ahmad-iqbal