بریلی کی برفی اور پاکستان کا نیا روحانی نسخہ        


بریلی کی برفی کی، توایک زمانے سے دھوم ہے لیکن اس کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ معاملہ سنجیدہ صورت اس وقت اختیار کرگیا، جب ہمارے ازلی دشمن پڑوسی ملک نے ’بریلی کی برفی‘ نامی فلم بنا کر وطن عزیز کے، ان محب وطن شہریوں کی غیرت کو للکارا، جو اپنا سب کچھ تج کر، حتی کہ بریلی کی برفی بھی تج کر قیام پاکستان کے بعد ’اسلام کے قلعے‘ میں ہجرت کر گئے۔ بریلی سے سابقہ تعلق رکھنے والے ڈاکٹر صاحب کے طریقہ علاج کا ایک زمانہ معترف ہے کیونکہ موصوف ذرا سے جسمانی انتشار پر، اس عضو کو ہی کاٹ پھینکنے کے لیے مشہور ہیں، جو ا نتشار کا باعث ہو۔ بھارتی فلم کی وطن عزیز میں مقبولیت سے، ڈاکٹر صاحب کی دینی و قومی حمیت نے ایسا جوش مارا کہ بریلی سے تعلق رکھنے والے محب وطن شہریوں کو اپنی فیوض و برکات سمیٹنے، فیض آباد آنے کا اشارہ دے دیا۔ بریلی سے تعلق رکھنے والے، ڈاکٹر صاحب کے تمام خادم جب فیض آباد پہنچ گئے اور پہنچتے کے ساتھ ہی خوش گفتاری و شیریں کلامی کا آغاز کیا، تو عوام نے بھی مٹھاس کی شدت کے زیر اثر دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔

ڈاکٹر صاحب اس بیماری کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، جو جسم کے اعضاء کو اندر ہی اندر گھول دیتی ہے۔ جیسے بعض سیاسی بیماریاں بھی کسی مملکت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب، اپنے پیشے کے برخلاف سیاست سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں، اس لیے طریقہ علاج ہمیشہ سیاسی و روحانی اپناتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے طریقہ علاج میں تبدیلی سے قوم کو آگاہ کرنے کے لیے فیض آباد کے مقام پر میلہ سجانے کا حکم دیا۔ فیض آباد کو فیض عام کے لیے منتخب کرنے کی بڑی وجہ یہی رہی ہوگی کیونکہ ہر شہری، اسی مقام سے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ میلہ جب سج گیا تو خادم اعلی میلہ نے، ڈاکٹر صاحب کو اپنا مخدوم قرار دے دیا۔ میلہ سجنے کے بعد قوم آگاہ ہوگئی کہ ڈاکٹر صاحب نے طریقہ علاج تبدیل کر لیا ہے اور جیسے ہیرا، ہیرے کو کاٹتا ہے، ا سی طرح خادم اعلی میلہ اور شرکاء کی خوش گفتاری و شیریں کلامی کا علاج بریلی کی برفی سے کیا جائے گا۔ اس طریقہ علاج سے سلسلہ عظمیہ کے پیر صاحب کو سخت اذیت پہنچی کیونکہ میلے کو سجے کئی دن بیت گئے تھے اور سلسلہ عظمیہ کو زک پہنچ رہی تھی۔ اس لیے سلسلہ عظمیہ کے پیر صاحب نے، اپنے ان مریدوں کو طلب کیا جن کو اکثر رگیدتے رہتے ہیں اور حکم دیا کہ اس فیض عام کی بندش، تین دن کے اندر اندر کرنے کا بندوبست کرو۔

مریدین نے منت سماجت کرکے مقامی انتظامیہ کو راضی کیا اور لاٹھیاں دے کر روانہ کیا کہ میلہ تتر بتر کرو، جیسا کہ پیرو مرشد کا حکم ہے۔ تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا معاملہ پیش آ گیا اور دن بھر کی آنکھ مچولی کے بعد میلہ پھر سج گیا۔ پیر و مرشد کے حکم پر میلہ تو ختم کرنا ہی تھا اور کوئی صورت نہیں بن پڑ رہی تھی کہ معاملہ کیسے نمٹایا جائے، ایسے میں کسی سیانے نے مشورہ دیا، ڈاکٹر صاحب سے رجوع کرو اور کہو کہ آپ کے نئے طریقہ علاج سے قوم کماحقہ طور پر آگاہ ہوگئی ہے، آپ کی اور آپ کے خادمین کی طبیعت سیر ہوگئی ہو، تو خادمین سے بوریا بستر سمیٹنے کا معاہدہ کچھ لو اور کچھ دو، کی بنیاد پر کرلیں۔ ڈاکٹر صاحب کو قوم کا ہمیشہ درد رہا ہے، جو کئی دفعہ شدت بھی اختیار کر چکا ہے۔ اسی درد کے پیش نظر منتظمین میلہ سے معاہدہ کر کے میلہ ختم کرانے میں انتظامیہ کی بھرپور مدد کی، بلکہ بطور ضامن دستخظ بھی عنایت فرمادیے کہ معاہدے کی رونق کو چار چاند لگ جائیں۔

مریدین اور انتظامیہ خوشی خوشی معاہدے کی نقل لے کر پیر و مرشد کے پاس دوڑے اور ستائش طلب نظروں میں معاہدے کی نقل پیش کی۔ پیر و مرشد معاہدہ پڑھ کر آگ بگولا ہوگئے اور کہا معاہدہ تو کچھ لو اور د و کی بنیاد پر ہوتا ہے، آپ تو سب کچھ دے کر آئے ہیں، معاہدے پر ڈاکٹر صاحب کے دستخط دیکھ کر بھی پیر و مرشد سخت برہم ہیں کیونکہ اس سے سلسلہ عظمیہ کو زک پہنچی ہے۔ بہر حال قوم اکیس روزہ ہلا گلا دیکھ کر اپنے مشاغل میں مصروف ہوگئی ہے اور ڈاکٹر صاحب کے نئے سیاسی و روحانی علاج سے واقف بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).