تمہاری بیٹی تمہارے گناہوں کی سزا ہے


میری والدہ محض اکیس سال کی تھیں جب ان کی شادی ہوئی۔ میرے والد ان کے پھوپھی زاد تھے۔ شادی کے ایک سال بعد میری بڑی بہن کی پیدائش ہوئی، اس سے اگلے سال میری اور اس سے اگلے سال مجھ سے چھوٹی بہن پیدا ہوئی۔ میری اس بہن کا نام یسریٰ رکھا گیا۔ وہ تین ماہ کی ہوئی تو اسے گردن توڑ بخار ہو گیا۔ میری والدہ نے سادہ بی اے ہی کر رکھا تھا۔ جبکہ میرے والد بھی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ وہ یسریٰ کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب جان گئے کہ بچی کو گردن توڑ بخار ہوا ہے مگر انہوں نے میرے والدین کو بتایا کہ اسے ڈبل نمونیا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب یسریٰ کو صبح شام ڈیکاڈرون کے انجیکشن لگاتے تھے جس کا اثر اس کے دماغ کی بیرونی جھلی پر پڑا اور وہ ہمیشہ کے لیے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی۔

میرے والدین اسے ڈبل نمونیے سے متاثرہ ہی سمجھ رہے تھے۔ ایک دن وہ بہت رو رہی تھی تو میری والدہ نے میرے والد کوکہا کہ مجھے لگتا ہے یہ ٹھیک نہیں ہے، ہمیں اسے کسی اسپتال لے کر جانا چاہئیے۔ وہ دونوں میری بہن کو لے کر اسپتال پہنچے۔ ڈاکٹر نے تفصیلی معائینہ کرنے کے بعد اسے اسپتال میں داخل کر لیا۔ کافی روز تک وہ اسپتال میں داخل رہی۔ ڈاکٹرز نے میرے والدین کو بتایا کہ آپ کی بیٹی کو گردن توڑ بخار ہوا تھا، اگر آپ اسے پہلے لے آتے تو شائد ہم کچھ کر پاتے۔ یہ سننا تھا کہ میرے والدین کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ ان کی بچی ہمیشہ کے لیے ذہنی طور پر معذور ہوگئی ہے؟ انہیں یقین نہیں آرہا تھا۔ اسے جھٹکے پڑتے تھے۔ جب بھی اسے جھٹکا پڑتا تو میرے والد بے ہوش ہو جاتے تھے۔  وہ اپنی بیٹیوں کو کسی پریشانی میں نہیں دیکھ سکتے۔

اس کے بعد میرے والدین کی ساری توجہ صرف اس پر مرکوز ہو کر رہ گئی۔ انہوں نے لاہور کے ہر اسپتال کی خاک چھانی، کسی ڈاکٹر کو نہیں چھوڑا، جس کا سنتے اس کے پاس چل پڑتے۔ یہ 1994ء تھا۔ اسپتالوں میں جدید مشینری بھی نہیں تھی۔ ایک اسپتال میں اسکا نام ویٹنگ لسٹ میں لکھا گیا کہ جیسے ہی حکومت مشین خریدے گی اس لسٹ کے مطابق آپ کی بچی کو علاج کے لیے بلایا جائے گا۔ ایک ڈاکٹر کی لاپرواہی نے ان تینوں کی زندگی تبدیل کر کے رکھ دی تھی۔ ایک دفعہ میری نانی ہمارے گھر آئی۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کی بیٹی کو گھر کے بھی سارے کام کرنے ہیں اور تین بیٹیوں کو بھی سنبھالنا ہے تو وہ یسریٰ کو اپنے ساتھ لے گئیں تاکہ ہماری والدہ ہم دونوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔ تقریباً پانچ سال بعد ہماری وہ بہن ہمارے گھر واپس آئی تھی۔

وہ چل سکتی تھی، بھاگ سکتی تھی، دیکھ سکتی تھی، سن بھی سکتی تھی مگر اسے کسی چیز کی سمجھ نہیں تھی۔ ہم کون ہیں، کہاں رہتے ہیں، اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے بھی وہ ہم پر محتاج تھی۔ ہم اسے اپنے ہاتھوں سے کھلاتے تھے، پانی پلاتے تھے، اسے بیت الخلاء لے کر جاتے تھے۔ ایسے سمجھ لیں جیسے وہ ایک تین ماہ کا بچہ تھی۔ میری بہن کی اس حالت نے میری والدہ کو مضبوط اور پر اعتماد بنا دیا تھا۔ انہوں نے حالات سے لڑنا سیکھ لیا تھا۔ سب سے پہلے تو انہوں نے میرے والد سے ایک الگ گھر لینے کا کہا جس پر میری دادی نے بہت واویلا کیا۔ میری والدہ نے ان سے کہا کہ میری باقی بیٹیاں اپے ساتھ ہونے والی کوئی بھی نا انصافی مجھے بتا سکتی ہیں مگر یہ معصوم تو کچھ ہوش نہیں رکھتی۔ آپ اس کی ذمہ داری لے لیں۔ قیامت کے دن اس کے بارے میں آپ جواب دیں گی؟ اس پر میری دادی نے انکار کردیا اور ہمیں الگ رہنے کی اجازت دے دی۔

میری والدہ نے اس کے ساتھ بہت مشکلات سہیں۔ ہم روزانہ شام میں اپنے گھر سے دادی کے گھر بس پر جاتے تھے۔ جیسے ہی میری والدہ میری بہن کے ساتھ بس پر سوار ہوتیں، کچھ عورتیں ڈر کر اتر جاتیں اور کچھ عجیب عجیب سوالات کرتیں، مختلف پیروں کا بتاتیں۔ میری ایک پھوپھو نے میری والدہ کو کہا کہ تمہاری یہ بیٹی تمہارے گناہوں کی سزا ہے۔ میری والدہ یہ بات بھی چپ کر کے پی گئیں۔ ہمارے گھر کوئی کام والی نہیں ٹکتی تھی۔ کئی مسلمان کام والیاں رکھیں مگر وہ یسریٰ سے خوف کھاتی تھیں۔ بہت محنتوں کے بعد ایک عیسائی عورت ملی جو اپنی وفات تک ہمارے گھر کام کرتی رہی، اس کے بعد اس کی بہو آنے لگی۔ ان دونوں خواتین نے ہمارا بہت ساتھ دیا۔

میری والدہ اس کے حیض کے متعلق بھی بہت پریشان تھیں۔ انہوں نے ڈاکٹرز سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ یہ بچی تو بالکل ہوش نہیں رکھتی، اسے حیض ہوں گے تو یہ خود کا کیسے خیال رکھے گی۔ ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ جب اسے حیض شروع ہوں تو وہ اسے اسپتال لا سکتی ہیں، اس کا ایک آپریشن ہوگا اور اسے پھر زندگی بھر حیض نہیں آئیں گے۔ میری والدہ کی یہاں بھی تسلی نہ ہوئی۔ انہوں نے ڈاکٹر کا فون نمبر لیا اور اس سے وعدہ لیا کہ ایسا جب بھی ہوا وہ ان کی اس سلسلے میں مدد کریں گی لیکن میری والد کو اس مشکل مرحلے سے نہیں گزرنا پڑا۔ اس سے پہلے کہ اسے حیض آتے اس کی وفات ہو گئی۔ اس وقت اس کی عمر چودہ برس تھی۔

اس روز وہ میری بڑی بہن کے ساتھ سو رہی تھی۔ اسی حالت میں موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کر کے لے گیا۔ میری بڑی بہن کی چیخیں سن کر ہم اس کمرے میں پہنچے۔ میرے والد نے یسریٰ کی نبض چیک کی جو کہ تھم چکی تھی۔ تب تک میری والدہ بھی کمرے کے دروازے تک آچکی تھیں۔ کیا ہوا میری یسریٰ کو؟ یہ کہا اور رونے لگی۔ تب سے لے کر اب تک وہ کبھی گہری نیند نہیں سوئیں۔ زرا سا کھٹکا ہوتا ہے اور اٹھ کر بیٹھ جاتی ہیں۔

سب کو وفات کی اطلاع دے دی گئ۔ جب میری نانو ہمارے گھر آئیں تو انہوں نے میری والدہ کو دلاسا دیتے ہوئے کہا کہ شکر کرو تمہارے شوہر اس وقت گھر تھے۔ اگر وہ گھر نہ ہوتے تو اس کی موت کا ذمہ دار بھی تمہیں ٹھہرایا جا چکا ہوتا۔ میری والدہ نے میری پھوپھو سے کہا کہ لو میرے گناہوں کی سزا ختم ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).