فیض آباد دھرنے کا فیض۔۔۔ آؤ فرض کریں


فرض کریں کہ پاکستان کی فوج آج یہ اعلان کردے کہ کوئی اچھا اور برا طالبان نہیں، اس سر زمین پر کوئی دہشت گرد نہیں۔ ہم نے جو آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد شروع کئے تھے، وہ غلط تھے۔ آج سے ہم سب بھائی بھائی ہیں کیونکہ یہ ملک کی بہتری اور وسیع تر مفاد میں ہے۔ اس لئے آج سے ہم اپنے دشمنوں سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ قیدیوں کو رہا کرتے ہیں، افغان سرحد کو کھول دیتے ہیں، مقدمات کو ختم کرتے ہیں، سزائے موت کے منتظر افراد کو ان کے گھر بھیجتے ہیں۔ کیا ہوگا؟ کچھ زیادہ نہیں۔۔۔  بس ان آپریشن کے نتیجے میں شہید ہونے والے فوجیوں کی ماؤں اور بیواؤں کی آہ عرش سنے گی۔ سانحہ پشاور آرمی پبلک اسکول کے آڈیٹوریم میں بیٹھے بچوں کو اچانک سے تازہ خون کی مہک محسوس ہو گی۔ اس میدان میں سناٹے کے باوجود کوئی پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بھاگتا ہوا محسوس ہو گا۔ ڈیڑھ سو گھروں میں ایک بار پھر سے خاموش ماتم ہو گا۔

چلیں فرض کرتے ہیں کہ پاکستان بنانا ایک سنگین غلطی تھی اور یہ اعلا ن کر کے بر صغیر کے تمام مسلمانوں سے معافی مانگ لی جائے۔ سانحہ ڈھاکہ کے اصل مجرموں کا سرعام نام لیا جائے۔ بلوچستان سے زیادتیوں پر سرعام معافی مانگی جائے۔ بلوچستان اور پاکستان کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگانے والوں کو گلے لگا کر کہا جائے، بھئی ہم سے تو نہیں سنبھلتا، اب تم سنبھالو۔ جہاں اتنا فرض کیا، یہ بھی کرلیں کہ بلدیہ فیکٹری سانحہ میں ڈھائی سو سے زائد افراد کو جلانے والے ذمہ داروں کو سندھ کا وزیر اعلی بنا دیا جائے۔

فرض کریں عدالت یہ کہہ دے کہ ممتاز قادری کو پھانسی دینا ایک غلط فیصلہ تھا، ہم اس پر شرمندہ ہیں۔ جو کچھ بھٹو کے ساتھ ہوا وہ درست تھا کیونکہ ضیاہ الحق ہی وہ متقی پرہیز گار تھا جس نے اس بہکے ہوئے اور برائی میں ڈوبے ملک کو وہ راستہ دیا جو سیدھا مغفرت کے طرف لے جاتا ہے۔ فرض کریں کہ یہ مان لیا جائے کہ جن لوگوں کو اب تک پھانسیاں دی جا چکیں وہ سب غلط تھیں۔ جیلوں میں گنجائش کم ہے بلکہ ان کی ضرورت ہی نہیں۔  ان کی بلند و بالا کنکریٹ کی دیواروں کو ڈھا دیا جائے، سب قیدیوں کو گھر بھیج دیا جائے۔ نواز شریف کو عدالت میں بلا کر کہا جائے کہ ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں۔ آپ ایک معزز ہستی ہیں، ہماری کیا اوقات جو آپ کو پانامہ یا اقامہ پر طلب کریں۔ آپ نے توہین عدالت نہیں کی، ہم نے توہین شریف کی ہے۔ ہم آج کھڑے ہوکر آپ سے معافی مانگتے ہیں اور آج سے آپ کو اور آپ کی آئندہ کی نسلوں کو مزید دولت سمیٹنے کی تحریری اجازت دیتے ہیں۔

فرض کریں کہ مشرف کو بلا کر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے سزا سنا دی جائے اور پوچھا جائے کہ بے نظیر کے قتل کا جائے وقوعہ کیسے دھو دیا گیا، وجہ بتائیں؟ 3 نومبر کی ایمرجنسی کیوں لگائی تھی؟ 12 مئی کے سانحہ کےذمہ دار آپ ہیں۔ فرض کریں کہ این آر او کرنے والے تمام سیاستدانوں کو ملنے والا استثنی ختم کر کے ہتھکڑیاں لگا دی جائیں۔ فرض کر لیتے ہیں کہ عمران خان کو کوئی تگڑا جج بلائے اور کہے کہ 126 دن کے دھرنے اور اسکے خرچے کا حساب بتاو اور اس امپائر کا نام بھی بتاو جس کی انگلی اٹھنے کے اشارے پر تم نے قوم کو تگنی کا ناچ نچایا، جب تک نہیں بتاؤ گے، یہاں سے ہل نہیں پاؤ گے۔ تم کیا بلا ہو، ہم نے کل میڈیا کے نمائندوں کو بتا دیا تھا کہ تم یہاں سے ہل نہین سکتے جب تک ہمیں ٹیلی ویژن پر براہ راست نہیں دکھاتے۔

یہ بھی تو فرض کرسکتے ہیں کہ شرمین عبید چنائے اس بار ایک فلم بنائے اور اس میں دکھائے کہ ہمارے ملک میں زیادتی کا شکار ہونے والی عورتیں اپنی مرضی سے ریپ کرواتی ہیں۔ بلوچستان کی ڈاکٹر شازیہ ہو یا مظفر گڑھ کی مختاراں بی بی، ڈیرہ اسماعیل خان کی سولہ سالہ بے لباس کی جانے والی لڑکی ہو یا زیادتی کا شکار ہونے والی منگھوپیر کے خالی پلاٹ سے ملنے والی چھ سالہ بچی کی لاش، یہ جو کچھ بھی ہوا ان کی ایما پر ہوا۔ کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ اس کے بعد ان کو ایک محل، پر آسائش زندگی، باہر کے ملک کی شہریت اور نیک نامی ملے گی۔

فرض کر لیتے ہیں کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا قتل جائز تھا۔ سانحہ ماڈل ٹاون درست، لال مسجد ناجائز، وزیر ستان و سوات آپریشن غلط، سلالہ چیک پوسٹ پر امریکیوں کے ہاتھوں پاکستانی فوجیوں کا مارے جانا درست۔ ارے جان چھوٹی بھوکے ننگے بنگالیوں سے، اچھا ہوا محترمہ فاطمہ جناح مر گئیں۔ ان کی اتنی جرات کہ ایک فوجی آمر کے سامنے کھڑی ہوئیں۔

بھٹو کو تو خدا کبھی نہ بخشے، جس نے احمدیوں کو خارج از اسلام قرار دیا۔ اس ملک کو آئین دیا۔ ارے پڑے رہنے دیتا نوے ہزار فوجیوں کو بھارت کی جیلوں میں، بڑی جلدی تھی واپس لانے کی۔ بڑا عذاب آئے گا اس پر جو اس دور میں اس نے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کی کوشش کی۔ ویسے کارگل سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ نواز شریف کا درست ہی تھا، کیا ہوا زیادہ سے زیادہ پاکستانی حکومت نے اسے اپنانے سے انکار کر دیا۔ فیصلہ درست ہی ہوگا۔

مشرف نے بھی بارہ اکتوبر کو اقتدار پر قبضہ کر کے اچھا اقدام کیا ،بھئی کیا لوٹ کھانا، عیش کرنا صرف سیاستدانوں کا حق ہے؟ سب کو برابر کا حصہ ملنا چائیے۔ ویسے وہ ملا ریڈیو فضل اللہ، اس کا سسر  صوفی محمد، وہ دو بھی بھلے تھے۔ اور وہ بھی بھلا آدمی ہے جو بتاتا ہے کہ ملا فضل اللہ نے اپنے استاد صوفی محمد کی بیٹی سے زبردستہ شادی کی تھی۔ وہ جو ڈرون حملے ہوتے ہیں، وہ بھی ٹھیک ہوتے ہیں۔ کیا ہوا جو ٹارگٹ کے ساتھ ساتھ چند ناحق بھی مارے جائیں۔ سنا نہیں گیہوں کے ساتھ گھن بھی تو پستی ہے۔ سب چھوڑیں ایک بات تو فرض کرنا ہم بھول ہی گئے وہ امریکہ کی ڈو مور اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو ہمارے پچھلے پندرہ برسوں میں لگ بھگ ستر ہزار سے زائد معصوم پاکستانی مارے گئے، وہ بھی ٹھیک ہی مارے گئے۔ ویسے بھی اس ملک کی آبادی بہت زیادہ ہے اسی بہانے کچھ کم ہوئی۔

ارے ایک منٹ ! لگتا ہے آپ کو گراں گزرا؟ کیا سن کر گھبراہٹ ہو رہی ہے؟ تب ہی تو ہر جگہ کہا، فرض کریں۔ ابھی تو بہت کچھ تھا فرض کرنے کو، لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو فرض کرنے کی ضرورت نہیں، وہ ہو رہی ہیں، وہ ہو چکیں اور آگے بھی ہوں گی۔ ایک مذہبی جماعت نے اسلام آباد میں اکیس روز کا دھرنا دیا۔ جب وہ لاہور سے نکلے تو ہر شہر میں ہر مقام پر ان کی خاطر تواضع ہوئی۔ کسی نے ان سے بات چیت کرنا گوارا نہ کیا۔ حکومت دیکھتی رہی۔ پھر وہ فیض آباد آئے بیٹھے، رکاوٹیں کھڑی کیں، ایمبولینسس کو گزرنے سے روکا، ایک بچہ جان سے گیا، حکومت دیکھتی رہی۔ پھر جڑواں شہر کے لوگ بے بس ہونے لگے۔ اسکول کالجوں میں تدریسی عمل متاثر ہوا، آمدورفت میں تعطل ہوا، حکومت دیکھتی رہی، وزیر قانون زاہد حامد ٹس سے مس نہ ہوئے کیونکہ بقول حکومت کچھ غلط تو ہوا ہی نہیں تھا۔

حکومت کی ہٹ دھرمی جاری رہی۔ عدالت نے حکم صادر کیا کہ دھرنا ہٹایا جائے۔ وزیر داخلہ کو پاکستان کا وژن 2025 دینے کی شہرت حاصل ہے۔ وہ ہمیشہ پاکستان کو کئی سال آگے دیکھنے کے عادی ہیں۔ اگر وہ موجودہ حالات دیکھتے تو شاید انھیں صاف صاف دکھائی دے جاتا کہ ہو کیا رہا ہے؟ انھیں اب کیا کرنا ہے؟ لیکن ان کا نظریہ ہی الگ ہے، سوچ ہی الگ ہے اور اوپر سے انھیں ایک ایسی وزارت دے دی گئی جس کی ذمہ داری حال میں جینے کی ہے نہ کہ 2025 کو دیکھنے کی۔

وزیر داخلہ کسی جگہ یہ کہتے سنائی دیے کہ آپریشن تین گھنٹے کی مار ہے۔ پھر کہا کہ میں نے تو کوئی حکم جاری ہی نہیں کیا اور نہ میری مرضی سے یہ آپریشن ہوا۔ یہ آپریشن تو عدالت کے حکم پر ہوا۔ اس وقت دل چاہا کہ ان کی اس معصومیت پر نظر اتاری جائے اور جن انڈوں سے نظر اترے انہیں فیض آباد کے چوراہے پر پھوڑ دیا جائے کیونکہ بعد میں تو معافی مل ہی جانا تھی۔ بلکہ دل چاہا کہ گھر کا پرانا اضافی سامان لے کر فیض آباد جاؤں، سڑک کے درمیان رکھ کر آگ لگاؤں۔ اس سے مظاہرین کو ٹھنڈ میں کچھ آرام بھی ملتا۔ کسی کی سگریٹ سلگتی۔ میرا گھر بھی صاف ہوجاتا اور یہ تسلی بھی رہتی کہ معافی تو مل ہی جانی ہے۔

مظاہرین کے ہاتھوں میڈیا نمائندوں کو پٹتے دیکھا۔ گاڑیوں کو ٹوٹتے اور جلتے دیکھا، پولیس اور ایف سی جوانوں کو پھٹے سر اور ٹوٹے بازوں کے ساتھ اسٹریچر پر اسپتال جاتے دیکھا، پولیس والے اہنے جلے ہوئے موٹر سائیکل گھسیٹتے لے جا رہے تھے۔ خیال آیا کہ میرے دل میں بھی بڑی آگ لگی ہے۔ کاش میں بھی وہاں ہوتی، کسی ناپسندیدہ وزیر مشیر کے گھر کا ہرا بھرا لان جلاتی، دروازہ توڑتی کہ معافی تو مل ہی جانی ہے بلکہ گھر کو لوٹتے وقت ایک لفافہ بھی میسر آجاتا یہ لو بیٹا واپسی کا کرایہ۔

میڈیا کو کمبل اوڑھا کر جمہوریت میں آمریت کی یاد تازہ کرنے والے اور دو تہائی اکثریت کا نعرہ لگانے والوں سے کوئی پوچھے کہ آپریشن کی کوریج براہ راست نہ ہو لیکن سیاسی مجرے روز ٹی وی پر دکھائے جائیں۔ اوئے نواز شریف۔۔۔ مجھے کیوں نکالا۔۔۔ انکل الطاف۔۔۔ کو گھنٹوں لائیو دکھایا جائے لیکن آپریشن فیض آباد کو لائیو دکھانا ملک کے وسیع تر مفاد کے خلاف ہے۔ ٹی وی پر کیا دکھانا ہے اور کیا نہیں، کیا یہ پہلے بلا کر طے نہیں کیا جا سکتا تھا؟

یہ وہی میڈیا ہے جس نے چند منٹوں میں طے کیا تھا کہ راولپنڈی راجہ بازار سے چہلم میں گزرنے والے جلوس میں خون خرابہ نہ دکھانا ہی بہتر ہے تاکہ اور جگہوں پر افراتفری نہ پھیل سکے۔ لیکن یہ جو معاہدہ حکومت پاکستان اور مذہبی جماعت کے مابین ہوا ہے اور اس میں درج شرائط کے مطابق آپ نے اس دھرنے میں ہونے والی املاک اور جان کے نقصان سے مذہبی جماعت کو بری الذمہ قرار دیا ہے۔ فساد برپا کرنے والے اور پر تشدد مظاہرے میں شریک افراد پر مقدمات ختم کرنے میں جو رضامندی دکھائی ہے اور سب پر دستخط کر کے وزیر داخلہ نے معصومیت سے کہا کہ میں یہ سب کرنے پر ناخوش ہوں لیکن مجھے کرنا پڑا۔ تو مجھے آج یہ سب فرض کرنے پر خوف محسوس نہیں ہوا۔

دنیا بھر میں مظاہرے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر مظاہرے پرتشدد ہوں تو جان و مال املاک کا نقصان کرنے والوں کو سزا بھی دی جاتی ہے آج میڈیا پر آپ آکر کہہ رہے ہیں کہ ڈیڑھ سے دو ہزار افراد نے ریاست کی رٹ کو چیلنچ کردیا تو آپ نے کیا کیا؟ آپ نے انھیں ایسا بار بار کرنے کی تحریری جازت دے ڈالی۔ آپ نے روایت ڈالی کہ آو شہر کو جلاو، مارو اور مرو، ہاتھ جھاڑو ، معافی لے چلے جاو آپ کو یاد نہیں رہا کہ وہ جو پولیس والا اس آپریشن کی زد میں آکر مارا گیا اسے اس معاہدے نے شہید سے جاں بحق کے درجے پر پہنچا دیا۔ دو روز قبل اس کے گھر والے اسے شہید کہتے تھے آج انھیں لوگ کہیں گے کہ وہ حق پر نہیں تھا، وہ جہنم واصل ہوا۔

حکومت بھی سرخرو ہوئی، استعفی کے بعد عاشقان رسول کے پیچھے سر جھکائے کھڑی ہوگئی۔ جسٹس صاحب نے بھی فوج پر تنقیدی ریماررکس دے کر ستائش سمیٹی اور گھر نکل لئے۔ آپ بھی آج وزیر ہیں، کل نہیں ہوں گے۔ کیا پتہ اگلی حکومت میں بھی نہ ہوں لیکن یہ ملک تو رہے گا۔ جسے یہ نیا راستہ دکھا دیا گیا کہ اس پاک ذات جس پر ہمارا ایمان مکمل ہوتا ہے جس کے ہم امتی ہیں جس پر ہماری جان مال سب قربان ہے اسکا نام استعمال کر کے افراتفری پھیلائی جائے، تشدد کا راستہ اپنایا جائے۔ ایمبولینسیں روکی جائیں، تقاریر میں نئی نئی گالیاں متعارف کروائی جائیں۔ ماؤں کے لخت جگر اپنوں ہی سے لڑوانے کے لئے میدان میں اتار کر میرے شہید اور تمہارے جاں بحق قرار دلوائے جائیں اور بعد میں معاہدہ کر کے ”جو ہوا اسے بھول جاو، مٹی ڈالو اور آگے بڑھ جاو ”کی مثال قائم کردی جائے۔

یاد رکھئے، جان سے جانے والوں کی ذمہ داری ریاست کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس جہاں میں تو کوئی معاہدہ کر کے مقدمات سے اور استعفی دے کر اپنی حکومت اور جان بچائی جا سکتی ہے لیکن جس کے نام پر یہ سب ہوا روز محشر اس کے سامنے کھڑے ہوکر پوچھ گچھ ضرور ہو گی، اس روز نہ کوئی میجر جنرل ہوگا اور نہ وزیر داخلہ، نہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج اور نہ ہی کوئی پیغمبر کا نوکر ہونے کا دعوے دار خادم حسین رضوی۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar