ماں کے قدموں تلے ابّا کی پنشن ہے


رحیمہ اور انیسہ تحریکِ پا کستان کے سرگرم کارکن مجاہد اللہ کی بیٹیاں تھیں۔ مجاہد اللہ نے حیدر آباد میں سکونت اختیار کی، مجاہد اللہ لبرل سوچ کے آدمی تھے، اپنی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلواناچاہتے تھے لیکن مالی حالات کی تنگی اور اچھے رشتوں کو موجودگی میں انہوں نے اپنی بیوی کے سمجھانے پر اپنی بیٹیوں کو گھر بٹھا نا مناسب نہیں سمجھا۔ یوں بھی گھر میں ادبی ماحول تھا۔ لڑکیاں میٹرک تو کر ہی چکی تھیں، ادبی رسالوں اورماحول کی وجہ سے لڑکیاں بڑی سمجھدار اور بالغ نظر ہو چکی تھیں، اچھے برے حالات سے نبٹنے کی پو ری صلاحیت رکھتی تھی اور جو رشتے آئے تھے وہ بھی بڑے اچھے گھرانوں کے تھے چنا نچہ انہیں اطمینان کے ساتھ بیاہ دیا گیا۔

رحیمہ کے دو بیٹے تھے اور دونوں نے باہر جا کر شادیاں کر لیں تھیں اور وہیں رہ گئے تھے۔ جب کہ انیسہ کے چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہوئے بڑا جاوید اور چھوٹا شاہد جو کراچی میں رہتا تھا۔ دونوں بہنیں اب بڑھاپے کی دہلیز پر بیٹھی تھیں۔ دونوں ایک دوسرے کی غمگسار تھیں انیسہ کی بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش تھیں۔ لیکن ماں کی طرف سے انہیں ہر وقت فکر لاحق رہتی وہ اکثر ماں کو فون کر کے حال احوال لے لیا کرتیں ماں انہیں گھر کی ایک ایک بات خوشی خوشی بتایا کرتی کون سا پوتا کلاس میں اول آیا کس نے کیا شرارت کی بہو نے کیا پکایا، اور کیسا پکایا۔

ایک روز ماں کے فون میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی جاوید فون ٹھیک کرانے لے گیا لیکن پھر کبھی وہ فون ٹھیک ہو کر نہ آیا کیوں کہ بہو کو شک تھا کہ ماں اپنی بیٹیوں کو گھر کی ایک ایک بات بتاتی ہے۔ بیٹیاں آئیں تو ماں کو اپنا فون دے گئیں لیکن کچھ دن بعد وہ بھی خراب ہو گیا۔ کراچی والا بیٹا آیا تو وہ ماں کو اپنے ساتھ لے گیا اس نے ماں کو فون بھی دلایا اور ان کا اچھے سے خیال بھی رکھا ایک روز بیٹے نے ماں سے کہا اب وہ ہمیشہ کے لیے اس کے پاس ہی رہے انیسہ کو رحیمہ کی یاد آرہی تھی اس نے شاہد سے کہا کہ وہ رحیمہ کو بھی بلا لے تب وہ اس کے پاس رہ سکتی ہے، رحیمہ کو بلوا لیا گیا۔

انیسہ اور رحیمہ دونوں بہت خوش تھیں رحیمہ انیسہ کی قسمت پر رشک کرتی تھی کہ خدا نے اسے اتنے اچھے بیٹے دیے۔ ایک دن جاوید آ گیا اور ماں سے کہا کہ بچے اور بہو اسے یاد کر رہے ہیں۔ اس پر شاہد نے ہنگامہ کر دیا کہ اسے بھی جنت کمانے دی جا ئے ماں کی خدمت کا اسے بھی اتنا ہی حق ہے جتنا جاوید کو ہے۔ انیسہ کو بھی اپنے پوتا پوتی یاد آرہے تھے وہ خود بھی جانا چا ہتی تھی۔ اسے لگا جیسے شاہد کو اس کی ضرورت ہے کیوں کہ بہو امید سے تھی۔ اس نے شاہد سے کہا کہ رحیمہ کو اپنے پاس رکھ لے وہ مشکل کے وقت بہت مدد گار ہو گی۔ شاہد کو یہ سن کر غصہ آگیا کہ اس کی ماں یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ اسے مطلب کے لیے رکھنا چاہتا ہے۔ انیسہ عجیب شش و پنج میں تھی۔ وہ دونوں بیٹوں میں سے کسی کو ناراض نہیں کرنا چا ہتی تھی، لیکن مسئلہ الجھنے کے بجا ئے مزید الجھ گیا تھا۔ جاوید نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ ماں کو اپنے ساتھ لے کر ہی جائے گا۔

رات انیسہ اور رحیمہ دیر تک کمرے میں باتیں کرتی رہیں انیسہ بہت خوش تھی کیوں کہ رحیمہ نے اسے بتایا کہ دونوں بیٹے اسے بہت چاہتے ہیں دونوں کی باتیں اس نے چھپ کر سنیں وہ کہہ رہے تھے کہ ان کی تعلیم و تربیت میں ان کی ماں نے کس طرح رات دن ایک کر دیا۔ باپ کی موت کے بعد انہیں باپ بن کر پالا کسی کمی کا حساس نہیں ہو نے دیا۔ انیسہ، رحیمہ کے منہ سے یہ سب سن کر مسکرا رہی تھی اس کی زندگی بھر کی ساری تھکن دور ہو گئی تھی۔ رحیمہ سو چکی تھی لیکن انیسہ اپنے بچوں کی خود سے محبت اور اس کی قربانیوں کا اعتراف سن کر بہت مسرور تھی اس کی نیند اڑ چکی تھی۔ اسے پیشاب کی حاجت ہوئی تو باتھ روم کی طرف چل دی اس کے بیٹوں کی اب بھی آوازیں آرہی تھیں اس نے سوچا ان کی اس سے محبت کی باتیں وہ خود بھی تو اپنے منہ سے سنے۔

بیٹوں کی فطرت بیٹیوں سے مختلف ہو تی ہے۔ وہ ماں کی محبت الفاظ سے نہیں کرتے ان کا رویہ اس کی گواہی دیتا ہے۔ یہ تو نگوڑی لڑکیاں ہیں ہر وقت آئی لو یو آئی مس یو کرتی رہتی ہیں۔ چوں چوں پوں پوں سے ہی انہیں فرصت نہیں ملتی۔ کاش خدا ایسے بیٹے ہر کسی کو دے۔ اس نے دروازے سے کان لگا دیے۔ شاہدکی غصے میں بھری آواز اسے سنا ئی دی۔ ابا کی پینشن پر میرا بھی حق ہے امّی اتنے دن تمہا رے پاس رہیں، میرا بھی ان پر اتنا ہی حق ہے جتنا تمہارا۔
امّی پر یا ابا کی پینشن پر؟ جاوید کی آواز سنائی دی۔

تو تم کون سا امّی کو ان کی محبت میں لے جا رہے ہو، ویسے بھی تم جس مکان میں رہتے ہو وہ ابّا کا ہی ہے۔ کرایہ تو بچ رہا ہے نا تمہارا، میں تو کرا ئے کے مکا ن میں رہتا ہوں، اس لیے پنشن کا تو میں ہی حق دا ر ہوا نا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).