دھرنا اگر میرے پاکستان میں ہوتا


اسلام آباد اور پنڈی میں لوگ ابھی بستروں میں تھے۔ نمازی گھروں کو واپس جا رہے تھے۔ صبح کی روشنی ابھی پوری طرح پھیلی نہیں تھی۔ سڑکوں پر ابھی اکا دکا گاڑیاں ہی تھیں۔ کسی کو اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ کیسے مسجدوں میں آئے مسافر فیض آباد پہنچے۔ ریلوے سٹیشن میں سویرے کی گاڑی سے اترنے والے مسافر بھی سیدھے فیض آباد پہنچے۔ کچھ بسوں نے اسلام آباد پنڈی کے اڈوں کی جانب جاتے رخ بدلا مختلف سمتوں سے آ کر وہ بھی فیض آباد چوک میں کھڑی ہو گئیں۔

ایک انقلابی جماعت کی لمبی منصوبہ بندی کامیاب ہو گئی۔ اسلام آباد میں مختلف مقامات پر قبضہ کر کے دھرنا دے دیا گیا۔ دھرنا دینے والا ہجوم بہت چارج بھی تھا، جذباتی نعرے بھی لگا رہا تھا۔ ان کا لیڈر بھی دھرنے کے مرکزی مقام پر موجود تھا۔ اپنے لیڈر کو درمیان میں پا کر مظاہرین نے نعروں سے اسلام آباد پنڈی کے درو دیوار دہلانے شروع کر دیے۔ ڈیڑھ دو گھنٹوں میں ہی دونوں شہر مکمل مفلوج ہو کر رہ گئے۔
دو ٹی وی چینلوں نے انقلابی ترانے بجانے شروع کر دیے۔

اس وقت صبح کے سات بجے ہیں جب ڈی سی نے میئر اسلام آباد کو واقعے کی اطلاع دینے کے لیے فون کیا ہے۔ میئر نے کال ریسیو کرتے ہی کہا آپ دفتر پہنچیں مجھے معلوم ہو چکا ہے میں آ رہا ہوں۔ پنڈی کے میئر اپنے دفتر پہنچ رہے ہیں۔ دس منٹ بعد پنڈی اسلام آباد انتظامیہ ویڈیو کال پر اکٹھی ہو جاتی ہے۔ پنڈی کے میئر اپنی دوسری ٹرم لے رہے ہیں زیادہ تجربہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سکول کالج جانے والے بچے قومی اثاثہ قرار دیے جا چکے ہیں۔ کوئی ایک بچہ بھی زخمی ہوا تو عدالت ہم سب کو سیدھا جیل بھیجے گی۔ فوری طور پر بچوں کو لانے والی ٹرانسپورٹ معطل کریں سکول کالجوں میں چھٹی کا اعلان کریں۔

وزیراعظم کے دفتر میں ہنگامی میٹنگ شروع ہو چکی ہے۔ سیکرٹری اطلاعات نے بتایا ہے کہ دو ٹی وی چینل ایمرجنسی پروٹوکول پر عمل نہیں کر رہے انقلابی ترانے بجا رہے ہیں۔ سیکرٹری داخلہ اجلاس میں سب سے آخر میں پہنچتے ہیں۔ وزیر داخلہ کے گھورنے پر بتاتے ہیں کہ سر انٹیلی جنس ایجنسیوں سے اپ ڈیٹ لے رہا تھا۔ ان سے بڑی غفلت ہوئی ہے وہ صورتحال سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر میں مکمل معلومات فراہم ہو جائیں گی۔

اتنے میں انقلابی ٹی وی پر پنڈی سے فوجی ترجمان کا بیان چلنا شروع ہوتا ہے۔ اس بیان میں مظاہرین سے پر امن انداز میں معاملہ کرنے کا مشورہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم اپنے وزیر دفاع کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ کہتے سر مجھے پتہ ہے۔ سیکرٹری دفاع نے اس کی برطرفی کے آڈر بھجوا دیے ہیں۔ چیف صاحب نے معزرت کی ہے کہ یہ پتہ نہیں کدھر سے پرانے ڈیزائن کا ایک ریٹائر ترجمان بچا ہوا تھا۔ میئر راولپنڈی اپنے ہیلی کاپٹر میں اسلام آباد آنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ میں اس مشکل وقت میں اپنے لوگوں میں رہوں گا۔

وزیر اعظم پوچھتے ہیں کہ اب میئر اسلام آباد کو کیا کہنا ہے۔ امن و امان کے وہی ذمہ دار ہیں۔ میئر اسلام آباد ویڈیو کال پر آ جاتے ہیں۔ وزیراعظم انہیں بتاتے ہیں کہ ہم ایمرجنسی لگانے کو تیار ہیں۔ میئر اسلام آباد کہتے ہیں کہ آپ ایمرجنسی نہیں لگائیں گے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے آپ ہماری معاونت کریں۔ یہ تقریبا پندرہ ہزار لوگ ہیں۔ پولیس چیف نے اپنی ساری فورس موو کر دی ہے شہریوں کو کوئی نقصان ہم کسی صورت نہیں پہنچنے دیں گے۔

وزیر داخلہ بولتے ہیں کہ سر ہمیں مداخلت کرنی ہو گی۔ قومی اسمبلی کی داخلہ کمیٹی نے ہمارا حشر کر دینا ہے۔ میئر اسلام آباد کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ صاحب آپ بس ہماری معاونت کریں اور تیار حالت میں رہیں۔ اس صورتحال سے نپٹنا ہمارا اختیار ہے ہم اس کے لیے تیار ہیں، ہم ہی جواب دہ ہیں۔ ہم نے انقلابی لیڈروں کو مذاکرات میں انگیج کر لیا ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ میئر اسلام آباد ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ تیار رہیں اگر صورتحال بگڑتی ہے تو فوری ایکشن لینا ہوگا۔

مذاکرات کے دو مختصر دور ناکام رہتے ہیں۔ انقلابی قائدین اپنی طرف سے اسلام آباد پر قبضہ کر کے تختہ الٹا چکے ہیں۔ آدھا دن گزر چکا ہے۔ دوبارہ ویڈیو کال پر سب جمع ہوتے ہیں۔ وزیر داخلہ بتاتے ہیں کہ انقلابی ٹی وی چینل بند کر دیے گئے ہیں۔ جھوٹی خبریں چلانے والے کراچی اور لاہور میں ٹی وی دفتروں سے گرفتار کر لئے گئے ہیں۔

پنڈی اور اسلام آباد کے میئر دھرنا مظاہرین سے براہ راست مخاطب ہونے فیض آباد پہنچتے ہیں۔ دونوں میئر اپنے پاس موجود کاغذات کا معائنہ کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے میئر اپنے ساتھی میئر سے کہتے ہیں کہ سر آپ سینیئر ہیں۔ واقعہ مگر میرے علاقے میں ہوا ہے تو اب یہ فیصلہ مجھے سنانے دیں۔

لوگو میری بات دھیان سے سنو میں میئر اسلام آباد تم سے مخاطب ہوں۔ عوامی انقلاب پارٹی کا چیئرمین چھیمہ باندری تم لوگوں کو بغاوت پر اکسا کر یہاں لے آیا ہے۔ یہاں پر آپ لوگوں کی کل تعداد گیارہ ہزار چھ سو اکہتر ہے۔ انٹیلی جنس اداروں نے تمام ریکارڈ چیک کر کے سب لوگوں کو شناخت کر لیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ لال انقلاب پارٹی کے اپنے حلف یافتہ کارکن صرف سولہ سو ہیں۔

ان دونوں شہروں میں کام کے اوقات سویرے آٹھ بجے سے شروع ہوتے ہیں۔ آپ کے دھرنے کے سات گھنٹوں میں ہمیں جو سرکاری وسائل موو کرنے پڑے ہیں اس پر پنڈی اسلام آباد کے شہریوں کے ٹیکس سے ہمیں بارہ کروڑ خرچنے پڑے ہیں۔ کاروباری نقصان کا تخمینہ ستر کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس سب کی پائی پائی آپ سے وصولی جائے گی۔ آپ کے پاس سوچنے کے لیے پندرہ منٹ ہیں۔

پندرہ منٹ بعد آپ اپنے سیل فون سے چیک کریں انشا اللہ تعالی سب کے بنک اکاؤنٹ سے پیسے بحق سرکار ضبط ہو چکے ہوں گے۔ جن لوگوں نے آپ کے اس انقلاب پر سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کے بنک کھاتوں سے سرکار نے پچاس کروڑ بحق سرکار ضبط کر لیے ہیں۔ وہ اب حوالات میں زیر تفتیش ہیں۔

اسلام آباد کے چیف جسٹس نے ہماری درخواست قبول کر لی ہے۔ عدالتیں سزائیں سنانے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کریں گی۔ ٹھیک بیس منٹ بعد ہمارے مستعد ملازمین آپ سب کو باجماعت پانی پھینک کر نہلانا شروع کر دیں گے۔ میں آپ سے معذرت کرتا ہوں ہم راول ڈیم میں پانی کی شدید کمی کی وجہ سے آپ کو صاف پانی سے نہلانے سے قاصر ہیں۔

دفتری اوقات ختم ہونے کے بعد وفاقی کابینہ جڑواں شہروں کے میئر صاحبان کے حسن انتظام کی ریلیکس ماحول میں تعریف کر رہی تھی۔ ٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ قومی اسمبلی کی داخلہ و دفاعی کمیٹیوں نے دونوں وزرا کو طلب کر کے یہ رپورٹ مانگی ہے کہ غفلت کے مرتکب افسران کی لسٹ سمیت پیش ہوں تاکہ انہیں برطرف کیا جا سکے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi