غزوہ بدر میں ہندوؤں کا کردار


یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے۔ تازہ تازہ مارشل لا لگا تھا۔ مشرقی پاکستان کو ٹوٹے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ اور ہم جیسے کند ذہن بچوں کو عظیم اساتذہ کرام ہمارے معصوم دماغوں میں، علم کے بڑے بڑے ذخائر انڈیلنے کی کوشش کررہے تھے اور ہم تھے کہ شاہ دولے شاہ کے چوہے بننے میں بس لب بام تک آپہنچے تھے۔

معاشرتی علوم کے استاد آتے، تو وہ ہمیں بتاتے کہ کس طرح ہندو کافر بتوں کے پجاری، مسمانوں کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں اور تو اور یہ جو بنگلادیش بنا تھا وہ بھی ہندو اساتذہ نے مغربی پاکستان کے خلاف اسکولوں میں نابالغ بچوں کے اندر زہر بھرا تھا، جس سے مکتی باہنی بنی اور اس نے مسلمانوں کا قتل عام کرکے ہم سے علیحدگی اختیار کرلی۔ پھر ہمارے استاد، اس امید کا اظہار بھی کرتے کہ دیکھنا جلد ہی بنگالیوں کا احساس ہوجائے گا کہ ان کے ساتھ کتنا بڑا ہاتھ ہوگیا ہے۔ اور وہ دن دور نہیں کہ جب تاریخ دیکھے گی کہ وہ کس طرح گِڑگڑا کر، معافیاں مانگ مانگ کر دوبارہ مشرقی پاکستان بنا کر ہمارے مغربی پاکستان کے ساتھ ملنے کی التجا کریں گے۔

اسی طرح اردو کے استاد آتے تو وہ اکبر الہٰ آبادی کے نظم ’’کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں‘‘ یا آدمی نامہ سے پتا نہیں کہاں سے’’بھٹو‘‘ نکال لیتے اور پھر اسے پھانسی دلا ہی کر دم لیتے؛ کیونکہ ’’بھٹو‘‘ ان کے بقول ہندو کافروں بت پرستوں کے ایجنٹ تھے بلکہ خود بھی لگ بھگ ہندو ہی تھے اور ان کو پھانسی لگانا امیرالمومنین جنرل ضیا پر واجب ہی نہیں بلکہ فرض عین بھی تھا۔

اسی طرح جب اسلامیات کے قاری صاحب آتے تو صنم پرست عرب مشرکوں کے ساتھ ہندوؤں کو بھی خوب رگیدتے اور کہتے کہ جتنا اسلام کو ہندوؤں نے نقصان پہنچایا ہے، اتنا کسی اور نے نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل پاکستان میں ہر فرقہ، دوسرے فرقے کو یہی الزام دیتا ہے۔ اس وقت اسکول کی ہر کلاس میں تقریباً ہر استاد ہمیں ہندوؤں کے بارے ہی میں کسی نہ کسی سازش کا بتاتا اور ڈراتا۔

استاد تو استاد اگر کبھی ہم بھول چوک کر کوئی اردو، معاشرتی علوم، کی کتاب یا امدادی ٹیسٹ پیپر بھی پڑھنے کے لیے کھول لیتے تو وہاں بھی ہندو ہی ہندو سازشیں کرتے نظر آتے اور ان میں سے کئی سازشیں اگرچہ ہمارے زیرک راہنما، ناکام بنا چکے تھے مگر سازشیں تھیں کہ اپنی جگہ پر۔ ایک عام ہندو سے لے کر ہندو لیڈر بھی آندھی و طوفان ہوتے یا خوفناک بلاوں کی صورت میں حملہ آور ہوتا رہتا تھا۔

بھارت میں بلائیں دو ہی تو ہیں ایک ساورکر اک گاندھی ہے
اک جھوٹ کا چلتا جھکڑ ہے اک مکر کی اٹھتی آندھی ہے

اسی طرح ہمارے ایک اور استاد محترم تھے، جو بظاہر تو سائنس پڑھاتے تھے، مگر سائنس سے خدا واسطے کا بیر رکھتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک سائنس سوائے جھوٹ کے پلندے کے اور کچھ نہیں۔ اور وہ یہی پر چپ نہ رہتے بلکہ وہ مختلف مذہبی حوالوں سے ہر روز اس کے باطل ہونے پر مہر تصدیق بھی ثبت کرتے اور سائنس پر ایمان رکھنے والے کو ملحد بلکہ مرتد قرار دیتے۔ ان کے بقول وہ سائنس کو اسی لیے پڑھاتے ہیں کہ اسے مذہب کے ذریعے پاک رکھا جاسکے۔ وہ ”اے بائیوجینیسز“ کے اگر قائل تھے تو صرف حضرت آدم ؑ تک! کہ بس وہی بے جان مٹی سے بنے۔ اور پھر کلاس کے آخر میں، ان کی تان اسی بات پر ٹوٹتی تھی کہ اگر آج کے دور میں ایمان تازہ کرنا ہے تو سربازار گناہ گاروں (وہ بے گناہ صحافیوں، لکھاریوں، جمہوریت کے کارکنوں کو، امیرالمومنین جنرل ضیا کی اسلامی ریاست کے گمراہ عناصر سمجھتے تھے) کو کوڑے لگتے دیکھیں اور سزا پانے والے مجرموں سے عبرت پکڑیں۔

ان کی بار بار ہدایت پر میں صرف ایک ہی دفعہ گناہ گاروں کو کوڑے پڑتے دیکھنے گیا، مگر پھر ایک گناہ گار کو کوڑے لگنے کے دوران پہلے نعرے اور پھر اس کی چیخیں سن کر، دل دہل کر رہ گیا اور پھر میں اس منظر کو برداشت نہ کرسکا اور الٹے پاؤں گھر کا رخ کیا۔ پھر چیخوں والا وہ منظر دوبارہ دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی بلکہ کوڑے مارنے والا تو کئی دن تک خواب میں بھی کوڑا لے کر میرے پیچھے بھاگتا رہا اور میں اس سے بچنے کی سعی لاحاصل کرتے کرتے آدھی رات خوف سے ہڑبڑا کر، پسینے میں شرابور اٹھ بیٹھتا۔ اپنا جسم ٹٹولتا اور خدا کا شکر بجالاتا کہ آج پھر بچ گیا۔

تو صاحبو! ہمیں اس طرح پڑھایا گیا اسکولوں میں، کہ ہمیں ہندو، دنیا کے سب سے بڑے راندہ درگاہ، گنہگار اور واجب القتل محسوس ہوتے تھے اور ہم شکر اداکرتے تھے کہ پاکستان بن گیا ہے ورنہ پتا نہیں ہمارے مذہب اسلام کا کیا بنتا؟ یہ الگ بات ہے کہ جیسے جیسے ہماری پہنچ دوردرشن سے وسیع تر میڈیا تک ہوتی گئی، ایریئل سے ڈش اور ڈش کے بعد کیبل اور پھر کیبل کے ساتھ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، یوٹیوب وغیرہ کی بھی یلغار شروع ہوگئی تو ہندوستان نے اپنے ہندو مذہب کو اتنا گلیمرائیز کردیا، کہ اب یہ میرے سمیت گھر گھر کی کہانی ہے کہ جب بچے کسی شادی میں جاتے ہیں تو اپنی ماما سے صرف نکاح کی رسم دیکھ کر بے چینی سے پوچھے بغیر نہیں رہ پاتے کہ ”ماما! دُلھا، دُلھن سات چکر کب لگائیں گے؟“

اور تو اور ہمارے ایک عزیز کی وفات ہوئی تو لواحقین کے کھانے کے لیے دیگیں اور لکڑیاں بھی لائی گئیں۔ جسے دیکھ کر ہمارے قریبی عزیز کا ایک معصوم بچہ بڑی سنجیدگی سے لکڑیوں کے قریب کھڑے اپنے چاچو سے پوچھنے لگا، ”چاچو! یہ لکڑیاں تایا ابو کو جلانے کے لیے لائے ہیں؟“

اور اس کے مقابلے میں ہم نے اس دور میں اپنی نسل کو سوائے، طالبان، القائدہ یا داعش کے علاوہ کیا دیا ہے؟ اور پتا نہیں کب تک ہم فخر سے کٹے سروں کی نمایش کرتے رہیں گے۔ اور اس کے مقابلے میں اگر کوئی روشن خیال عالم دین ہے تو وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہے۔ اب چونکہ مذہب کو جتنا پاکستان میں خطرہ رہتا ہے اتنا کسی خطہ ارض میں نہیں ہے۔ اور اس کے چوکیداروں کی بھی کمی نہیں۔ جو اپنے مخالف نہ ملیں تو کہیں نہ کہیں سےایجاد کرکے اس پر لٹھ لے کر دوڑ پڑتے ہیں۔ اور سازشی ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے بلکہ ہر وقت پاکستان کےگرد، گرجوں، چیلوں، گِدھوں کی طرح سازشیں لیے منڈھلاتے پھرتے ہیں۔

ہمارے بچپن میں چونکہ بنگلادیش تازہ تازہ الگ ہوا تھا لہذا ہندوؤں کی سازشوں پر زیادہ زور تھا جبکہ اس کے مقابلے میں آج کل ان سازشوں میں موساد اور سی آئی اے بھی را کے ساتھ مل کر ہم جیسی فرشتہ سیرت قوم کو تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ ان میں سے کئی تو نادیدہ ہاتھ بھی ہیں جو لانگ رینج مزائیل کی طرح ہمیں نشانے پر لیے ہوئے ہیں۔

تو اس طرح ہمارا بچپن ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں میں گزرا، جہاں آئے روز اخبارات ہندوؤں کی سازشوں کو طشت از بام کررہے تھے، وہیں دیواروں پر ’’بھارت کو کچل دو‘‘، ’’بنگلا دیش نامنظور‘‘ کے نعرے ہم پر اتنے اثر انداز ہورہے تھے کہ جب اسکول کے ششماہی امتحانات ہوئے تو ہم سے جہاں تک ہوسکا، ہم نے ہندوؤں کی سازشوں کے بارے ہوش ربا انکشافات ضرور کیے۔ پھر کوئی ہفتہ گزرنے کے بعد تمام اساتذہ اپنے اپنے پیریڈ میں ہم سے لئے گئے امتحانات کے پرچہ جات، رزلٹ سمیت دکھا رہے تھے۔ ہم اتنے لائق تو تھے نہیں کہ پرجوش ہوتے بس پاس ہونے ہی پر حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔

اسلامیات کا پیریڈ آیا تو قاری صاحب بھی کلاس میں ہمارے پرچوں سمیت حاضر ہوئے۔ مگر انھوں نے باری باری ہر لڑکے کو اس کا پرچا نما، نامہ اعمال دینے کی بجائے ایک لڑکے کا نام پکارا جو میں نہیں تھا۔ وہ لڑکا اپنی سیٹ پر کھڑا ہوگیا۔ تو قاری صاحب نے اس کا پرچا کھولا اور اس پرچے کے سوال نامے میں پوچھے گئے ایک سوال جس میں غزوہ بدر کے اسباب اور نتائج لکھنے کا کہا گیا تھا، اس کا جواب جو اس لڑکے نے لکھا تھا، پڑھنا شروع کردیا۔

’’مکہ کے ہندو، مسلمانوں پر بہت ظلم کرتے تھے، اور کسی نہ کسی بہانے سے یہ ہندو، مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں لگے رہتے تھے۔ اسی وجہ سے حضور اکرمﷺ، ان ہندوؤں کے مظالم سے تنگ آکر مدینہ ہجرت کرچکے تھے۔ مگر ہندو پھر بھی مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔ اسی دوران، ہندوؤں کے ایک سردار ابوسفیان کے بارے جھوٹی خبر مشہور ہوئی کہ اس کا تجارتی قافلہ مسلمانوں نے لوٹ لیا گیا ہے۔ یہ افواہ سن کر مکہ کے ہندو بھڑک اٹھے اور پھر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے ہندوؤں کے ایک اور بڑے سردار ابوجہل کی قیادت میں ایک ہزار کا لشکر لے کر’’ بدر‘‘ کے میدان میں پہنچ گئے۔ دوسری طرف مسلمان صرف 313 کی تعداد میں تھے اور ان کے پاس تلواریں اور دوسرا سازو سامان بھی کم تھا مگرجب جنگ شروع ہوئی تو مسلمان اس بہادری سے لڑے کہ انھوں نے ہندوؤں کو شکست فاش دے دی۔ اور تو اور اس غزوہ میں ہندوؤں کا سب سے بڑا سردار ابوجہل، دوکم عمر بچوں کے ہاتھوں واصل فی النار جہنم ہوا“۔

قاری صاحب کی شرارتی مسکراہٹ اور وضاحت سے پہلے میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اس میں غلط کیا لکھا ہے؟ کیونکہ میں نے بھی تو ایسے ہی لکھا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).