میں تم سے شرمندہ ہوں دوست


میں تم سے شرمندہ ہوں دوست!
میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو، کہاں کے ہو، تمھارا نام کیا ہے، تمھیں کن موسموں نے پالا اور کن کٹھنائیوں نے تمھاری شخصیت کی تعمیر کی؟

مجھے کسی اخبار، کسی چینل اور کسی فیس بک اکاؤنٹ نے تمھارے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ تمھارے بارے میں کسی نے کوئی ٹوئٹ کیا، نہ تم کسی سرکاری خبرنامے میں جگہ پاسکے کہ میں تمھارے بارے میں کچھ جان سکتا۔ میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اگر تم شادی شدہ ہو تو تمھارے کتنے بچے ہیں اور کس اسکول میں پڑھتے ہیں۔ یہ بھی کہ تمھیں جس نے جنم دیا وہ بزرگ خاتون رات کے کون سے پہر تک دہلیز سے لگی چار اکناف مقدس الفاظ کے سندیس بھیجتی رہتی ہے۔ یہ بھی کہ تمھارے بوڑھے باپ نے تمھاری راہ تکتے تکتے کتنی راتیں جاگ گزاری ہوں گی۔ اور پھر وہ جس نے اپنی ساری زندگی تمھارے نام لکھ دی، تمھارے جلد گھر نہ پہنچنے سے اس کے دل میں کیسے کیسے ہول اٹھ رہے ہوں گے اور اس نے اپنے سہاگ اور اپنے بچوں کی چھتر چھایا کی سلامتی کے لئے کس کس درگاہ پر منتیں مانی ہوں گی؟

اور یہ تو خیر نہ تم جانتے ہو نہ میں کہ تمھاری عدم موجودی میں تمھاری تھوڑی سی تنخواہ جو تم ڈیوٹی کے ناگزیر بلاوے پر جاتے ہوئے بیوی کی ہتھیلی پر رکھ آئے تھے، کتنے دن تک چلی ہوگی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ روز روز کے ادھار سے تنگ دُکان دار نے ایک روز تمھاری بیوی کو ادھار دینے سے صاف انکار کردیا ہو۔ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ نومبر کی سرد راتوں میں ماں کے گرم وجود سے لگے لگے خالی پیٹ اونگھنے والے تمھارے بچے خالی خولی دلاسوں پر اعتبار لانے سے انکاری ہوگئے ہوں۔ اور یہ بھی کہ تمھاری لاڈلی، ننھی پری کو تمھارے بغیر نیند بھی آتی ہوگی یا نہیں۔

میں تمھارے بارے میں کچھ نہیں جانتا میرے دوست، یہ بھی نہیں کہ تم زندہ بھی ہو یا اس رات کی ہولناک تاریکی میں فیض آباد میں جمع معزز فسادیوں نے اپنی غلیلوں یا پتھروں کی چاند ماری سے یا اپنے مقدس ڈنڈوں اور آہنی راڈوں سے تمھیں راہ عدم کا مسافر بنادیا تھا۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اگر تم ماں کی دعاؤں کے صدقے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے، تو ریاست کی حاکمیت اعلٰی کی قربان گاہ پر اپنے خون کی شردھانجلی پیش کرنے کے عوض تمھیں غازی گردانا جائے گا، یا تم ان بدنصیب کشتگان میں شامل کیے جاؤ گے جن کے لئے اشراف کی لغات میں کوئی باعزت لفظ نہیں ہوتا۔ اور میرے منہ میں خاک اگر تم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے ہو، تو تمھیں ہلاک شدہ کہا جائے گا یا شہید قرار دیا جائے گا، جسے وطن کی ہوائیں دم بدم سلام کہتی ہیں۔

میں ایک بے خبر اور گمراہی کی گرمی سے گرمائے ہوئے ہجوم کے عین درمیان کھڑا ہوں، سو کنفیوژ ہوں۔ لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ تم تین ساڑھے تین ہفتے پہلے حکم حاکم پر گھر سے نکلے تھے کہ مجھے ایک پاگل اور متشدد جتھے کے محاصرے سے آزاد کراسکو، تاکہ میں بغیر کھٹکے کام پر اور میرے بچے اسکول جاسکیں، تاکہ میرے شہر کے معمولات بحال رہیں، میری حکومت اپنی رٹ قائم ہونے کا ڈھونگ رچاسکے اور میرے شہر والے کامل آزادی کے ساتھ اپنی چوری اور یاری، اپنی بے ایمانوں، اپنی منافقتوں اور اپنی کمینگیوں کی بجاآوری میں مگن رہ سکیں۔

میں یہ بھی جانتا ہوں دوست کہ تم فیض آباد کے قرب وجوار میں اکیس روز تک پیٹ بھر خوراک، گرم بستر کی آغوش اور احساس عزت سے محروم رہتے ہوئے، دن رات ایک ٹانگ پر کھڑے رہے کہ غول بیابانی کہیں میرے گھر پر نہ چڑھ دوڑے۔

لیکن ہوا کیا؟

ہوا یہ کہ جب آزمائش کا وقت آیا تو تم نے پلٹ کر دیکھا کہ تمھارا ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا۔ تم جن لوگوں کو محاصرے کی اذیت سے نجات دلانے آئے تھے، جب وقت پڑا تو وہ تمھارے ساتھ نہیں، اپنے دشمنوں کے ساتھ تھے۔ وہ گھڑی محشر کی تھی جب تمھیں معلوم ہوا، کہ تمھارے سامنے فسادی تھے اور تمھارے پیچھے پاگل ہجوم تھا، جس کے ہاتھ میں پتھر تھے اور پناہ لینے کو ان کی جانی پہچانی گلیاں تھیں۔ تم کیا کرتے، کس راہ جاتے کہ تم دو طرفہ پتھراؤ کی زد پر تھے اور شہر کی انجان گلیاں تمھیں پناہ دینے سے انکاری تھیں۔

پاگل ہجوم، فسادی ٹولے، پردوں میں چھپے سازشی، نا اہل افسران اور گھبرائے ہوئے خود غرض حکومتی کارندے، تم ان سب کے رحم و کرم پر تھے اور اس ہنگام نہ زمین تم پر مہربان تھی نہ آسمان۔

میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کامل و اکمل بے بسی کے باوجود تم خود پر برستے پتھروں کو جھکائی دیتے ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہے تھے، تمہارے باپ کا بڑھاپا، تمھاری ماں کی بیماری، تمھاری بیوی کی ناآسودہ خواہشات، تمھارے بچوں کی توتلی ضدیں اور پولیس اکیڈمی میں تمھارے اندر بھری ہوئی فرض شناسی تمھیں مجبور کررہی تھی کہ تم لڑتے رہو، لڑتے رہو یہاں تک کہ نڈھال ہوکر تاریک راہوں کے سفر پر روانہ ہوجاؤ۔

میرے سپاہی، میرے محافظ، میرے دوست میں تمھارا دین دار ہوں کہ اس ہجوم کے درمیان کھڑا ہوں جس نے تم سے غداری کی۔ لاریب کہ میں تمہارا مجرم ہوں کہ تمھارے لیے میری آنکھیں نم ہوئیں نہ میں گلاب کی ٹہنی لیے تمھاری خیریت پوچھنے اسپتال جاسکا (اگر تم خوش قسمتی سے کسی مارچری میں نہیں ہو)

میرے دوست، میں کیا کروں کہ میں تو بس ایسا ہی ہوں، شہر کوفہ کا معزز و مصروف شہری۔ میں احساس ندامت میں اور تو کچھ نہیں کرسکتا البتہ جوش عقیدت میں لرزتے ہاتھوں سے تمھیں سلیوٹ ضرور کروں گا۔ سو جلدی سے میرا ہدیہ عقیدت قبول کرو کہ میری کمینگی اور منافقت سے لبریز دنیا میری راہ تک رہی ہے۔

والسلام
تمھارا منافق مجرم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).