پین دی ۔۔۔ اس مکالمے کی


پین دی ۔۔۔! مملکت خداداد پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے اسے دیکھ کر ہم جیسے خون کے گھونٹ پینے پر مجبور ہیں۔ یہ کون سا پین دی ۔۔۔ وطن ہے، جہاں ایک آمر کوئی بھی قانون لے آئے وہ بالکل درست اور عوام کا منتخب نمایندہ قانوں میں ترمیم کرنے چلے تو اسے بے ایمان قرار دے دیا جائے۔ پین دی ۔۔۔، یہ کیسا ملک ہے جہاں منصف منتخب حکمرانوں کو سسلین مافیا کہے، اور تجزیہ کار ٹیلے ویژن پر بیٹھ کے تالیاں‌ پیٹیں، دوسری طرف ایک منصف یہ کہے کہ سرکاری ملازم کس قانون کے تحت ثالث بن بیٹھا، کیا وہ آئین و قانون سے باہر ہے؟ تو پین دی ۔۔۔ کہیں اسے کوئی حق نہیں پہنچتا ایسا کہے۔ پھر منصف ایسے سوال کر کے، اس خدشے کا اظہار کرے کہ اب میں نامعلوم کر دیا جاوں گا، یا ماردیا جاوں گا، تو پین دی ۔۔۔ کیا کہا جائے، یہاں کس کی حکمرانی ہے؟

ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں قلم ہیں، دلیل سے بات کرنا چاہتے ہیں، لہجوں میں ٹھیراو ہے؛ آئین کی بات کرتے ہیں، قانون پر عمل درآمد کرنے پر زور دیتے ہیں؛ ”عوام کی رائے سے، عوام کی حکومت، عوام کے لیے“ کی وکالت کرتے ہیں، تحریر کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ ہیں جو کہتے ہیں، پین دی ۔۔۔ جمہوریت دی۔ پین دی ۔۔۔ ایسے بھی تو ہیں یہاں جو منہ سے آگ کے گولے نکالتے ہیں، پھر یہ کہ آئین کو کاغذ کے ٹکڑے سے بڑھ کر نہیں سمجھتے۔ نہ صرف یہ کہ قانون ان کی نظر میں ردی کی ٹوکری میں پڑے کاغذ کی سی مثال ہے، بل کہ بندوق دکھاکے اپنی حب الوطنی بھی جتلاتے ہیں۔ پین دی ۔۔۔۔ نے دلیل سے بات کرنے والوں کو ٹھکرا دیا ہے، سو پین دی ۔۔۔۔ اس دیس میں اب بندوق کی نالی بات کرتی ہے۔

ان بندوقوں کے کارتوس کون ہیں؟ وہ جو دین کے نام پر دوسروں کے عقائد کے خالص ہونے کی اسناد دیتے ہے، یا مشکوک قرار دیتے ہیں۔ پین دی ۔۔۔ حق گوئی یہاں جان کا خطرہ بن گئی ہے۔ یہ کیسا جبر ہے، کہ کوئی یہ نہیں کہہ پاتا، کہ میرا دین میرے لیے ہے، اور تمھارا دین تمھارے لیے؟

کوئی کہے نہ کہے، میں کہتا ہوں، مجھے کسی ملا، کسی استاد، کسی صحافی، کسی پولِس والے اور کسی دفاعی تجزیہ کار سے اپنی حب الوطنی کی سند اور ایمان کا سرٹفکیٹ نہیں چاہیے؛ نہ کوئی میرے ایمان پر سوالیہ نشان لگائے؛ قلم وہی اٹھاتے ہیں جنھیں امن سے محبت ہوتی ہے۔ قلم اٹھانے والے بندوق اٹھانے پر مجبور ہوئے، تو پین دی ۔۔۔۔ امن برباد ہوجائے گا۔ پین دی ۔۔۔ ڈرو اس دن سے جب قلم اٹھانے والے بندوق اٹھالیں۔ قبضہ گیرو، میرا ایمان میرے لیے ہے اور ہر کسی کا ایمان اس کے لیے۔ حب الوطنی کی بات ہے تو وہ پین دی ۔۔۔ کیسے ملک کا وفادار ہوسکتا ہے، جو ملک کے قانون کی نہ عزت کرتا ہے، نہ پروا۔ درحقیقت وہی پین دی ۔۔۔۔ غدار ہے جو آئین کی توہین کرتا ہے۔

پین دی ۔۔۔! بات محض قبضہ جمانے والے ان طبقوں کی ہوتی تو یہ غم نہ ہوتا۔ دُکھ کی بات یہ ہے مملکت خداداد پاکستان کے شہری سوچنے کو تیار ہی نہیں کہ ان کی پین دی ۔۔۔ نجات کس میں ہے۔ محض سرکار کی دی ہوئی وردی پہن لینے سے کوئی محب وطن کیسے ہوجاتا ہے، یہ کون سا جادو ہے، جو دوسروں کو حب الوطنی کا سرٹفکیٹ دیتا ہے؟

پین دی ۔۔۔۔ یہ مذہبی جنون برباد کردے گا۔ نہیں یقین تو یہ تصور کیجیے آپ ہی سیاست دان ہیں، وزیر بن جاتے ہیں، اور پین دی ۔۔۔۔ ہزار پندرہ سو لوگ کسی چوک پر دھرنا دے کر کہنا شروع کردیں کہ آپ ایمان سے خالی ہیں، آپ کو وزارت سے الگ کیا جائے، تو کیا منظر ہو! منظر کا اگلا حصہ یوں ہے کہ آپ قسمیں کھائیں، حلف اٹھائیں، سرٹفکیٹ پیش کریں، لیکن کوئی مان کے نہ دے۔ پین دی سری آپ کے گھر پہ حملہ کریں اور جن اداروں نے انھیں روکنا ہو، وہ کہیں یہ ہمارے اپنے ہیں، انھیں روک نہیں سکتے، آپ ہی استعفا دے دیں، تو کیا ہو؟

دوسری طرف شومئی قسمت آپ ان میں سے ہیں، جس کو سرکار نے وردی دے دی ہے۔ اب کس کی مجال ہے کہ وہ آپ کے ایمان پر شک کرے، آپ کے غلط کو غلط کہے۔ جو کسی کا دن برا ہو، وہ انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر بھول چوک سے ریمارکس دے ہی بیٹھے تو آخر یہ خدشہ ظاہر کرنے پر مجبور ہو، کہ اب میں نامعلوم کردیا جاوں گا، یا ماردیا جاوں گا۔ پین دی … یہ ہو کیا رہا ہے؟

منہ سے آگ نکالتے یہ مداری ملا، کیا میرے ایمان کا فیصلہ کریں گے؟ پین دی ۔۔۔،  کیوں‌ نہ میں بھی اپنا جتھا بناوں، اپنے مرید اکٹھے کروں، بدزبانی کروں، گالیاں بکوں اور کہوں جو میرے کہے کو نہیں مانتا اس کی پین دی ۔۔۔ بس عرض اتنی ہے ہمیں بتادیا جائے، کیا اس ملک میں پین دی۔۔۔ قانون چلے گا؟ اگر پین دی ۔۔۔۔ قانون چلنا ہے تو پین دی ۔۔۔ اس مکالمے کی، پین دی ۔۔۔ صبر و برداشت کی، پین دی ۔۔۔ کالے قوانین کی، پین دی ۔۔۔ ایسی ذلت کی۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran