حب الوطنی، اسلام پسندی، انصاف طلبی


کہتے ہیں، ”حکومت کے اختیارات آئین میں متعین ہیں۔ حکومت میں اخلاقی دم خم ہوتو وہ اختیارات کے لیے رونا دھونا نہیں مچائے گی، اختیارات استعمال کرے گی“

جی درست، مگر یہ بات کہنے میں آسان ہے برتنے میں مشکل ہے۔ کیونکہ اختیار کوئی چھت پہ رکھا ہوا باجرا نہیں ہے جسے چڑیا نے چگنا ہے اور چونچ جھاڑ کے نکل جانا ہے۔ اختیارات کا قضیہ تو دراصل شہد کا چھتہ ہے جو کسی گھنے جنگل میں بہت آگے جاکر ایک اونچے درخت سے چمٹا ہوا ہے۔

آپ نے اخلاقی دم خم کی بات کی نا؟ کیا بھٹو میں اخلاقی دم خم نہیں تھا؟ بینظیر بھٹو میں بھی نہیں تھا؟ بات یہ ہے کہ حکومت جس کی بھی ہو جہاں کی بھی ہو وہ عوامی مزاحمت کے آگے بے بس ہوتی ہے۔ پاکستان میں کسی بھی معاملے جب بھی اختیار کا سوال اٹھے گا، باہر سڑکوں پر تحریکیں اٹھا دی جائیں گیں۔ ان تحریکوں میں مسلسل واقعات رونما ہوتے ہیں، مگر تین چیزیں اس کا محور رہتی ہیں

1۔ حب الوطنی کا بیانیہ
2۔ اسلام پسندی کا بیانیہ
3۔ احتساب کا کلیہ

حب الوطنی اورمذہب کے معاملے میں عسکری اشرافیہ کو اتھارٹی مانا جانا ہے۔ بھٹو کے ساتھ معاملہ اختیارات کا تھا، مگرجو جنگ سڑک پہ لڑی گئی اس کا عنوان ”نظام مصطفی تحریک تھا“۔ اس تحریک نے پورے ملک کو جام کر کھا تھا۔ خانقاہوں آستانوں کے پیر، درس گاہوں کے شیوخ مسجدوں کے امام سب محب وطن سیاسی قیادت کے سنگ سڑکوں پہ تھے۔ ان کے پاوں پڑجاؤ یا ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھ لو وہ ایک ہی بات کہتے تھے
”جب تک ملک میں نظام مصطفی رائج نہ ہوجائے ہم نہیں جائیں گے“

اسی کشمکشِ دہر میں ضیا الحق مصطفی کا نظام بن کرچلے آئے۔ حرم کے جو پاسبان زنان خانوں سے آئے تھے، لوٹ گئے۔ جو کوچہِ سیاست سے اٹھے تھے جنابِ ضیاء کی کابینہ میں شامل ہوگئے۔ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نظام اگست انیس انیس سو اٹھاسی تک نافذ رہا۔ عام انتخابات کا طبل بجا تو ہر منظرمیں بینظیر بھٹو کا عکس دکھائی دے رہا تھا، جو اس بات کا ثبوت تھا کہ لوگوں کے دلوں سے خوف خدا اورعشق مصطفی نکل چکا ہے۔ چنانچہ اسلامی جمہوری اتحاد کی بنیاد رکھ دی گئی۔ خدا کی مصلحت ہی کہہ لیجیے کہ بینظیر جیت گئیں اور“اسلام“ ہار گیا۔ اسلام کو شکست دینے والوں کا انجام برا ہوتا ہے۔ چنانچہ بینظیر صاحبہ نے صبح حلف اٹھایا اور شام کو تحریکِ نجات شروع ہوگئی۔ یہ نجات کس سے حاصل کرنی تھی

1۔ ایک ”فاحشہ عورت“ سے جو کہ اسلامی تہذیب کے لیے خطرہ بن گئی تھی
2۔ ایک سیاست دان سے جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی تھی
3۔ ایک وزیر اعظم سے جو تین دن میں ملک کا خزانہ چاٹ گئی ہے

اس پورے عرصے میں میاں نواز شریف پاکستان میں تسنیم و کوثر سے دھلے واحد سیاست دان تھے۔ ان کی کمائی حلال کی تھی اور سوچ کمال کی۔ وہ اسلامی تہذیب کے امین بھی تھے اور قومی سلامتی کے ضامن بھی۔ ایک وقت آیا کہ ”خدا“ ان سے ناراض ہوگیا۔ کیوں؟ کیونکہ اختیار کا انہوں نے تقاضا کردیا۔ اب میاں محمد نواز شریف پرعائد ہونے والی فرد جرم تین ہیں

1۔ وہ اسلام کا نام ونشان پاکستان سے مٹادینا چاہتے ہیں
2۔ وہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں
3۔ وہ واحد سیاست دان ہیں جن کے منہ کو حرام لگا ہوا ہے

محب وطن شہریوں کا طرز تغافل سلامت رہے، مگر اک عرض تمنا ہے، وہ ہم نے کرنی ہے۔ آج کا دن گزر جائے گا۔ کل کا دن ضرور آئے گا۔ بہتر ہے کہ آنے والے کل میں ہم کہہ سکیں کہ گزشتہ کل ہم درست سمت میں کھڑے تھے۔

بس سن لیجیے!

ہم بہت استعمال ہوچکے۔ نظام مصطفی تحریک میں ہم نے خون دے لیا۔ شفافیت کے نام پر بھٹو کو ہم نے پھانسی چڑھادیا۔ جہاد کے نام پرامریکہ کی جنگ لڑلی۔ تہذیب اسلامی کے نام پر بینظیر کو شکستیں دے دیں۔ احتساب کے نام پرحکومتوں کا دھڑن تختہ کرلیا۔ دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے پاک بھارت معاہدوں میں رخنے ڈال لیے۔ کچھ دیراب ہمیں ٹھنڈی چھاوں میں بیٹھ جانا چاہیے۔ کچھ حساب کتاب کر لینا چاہیے۔ ہمیں دل سے سوچنا چاہیے کہ آج تک کی ان تحریکوں، جہادوں، دھڑن تختوں اور احتسابوں سے مجھے اور آپ کو کیا ملا؟ اس سب کے نتیجے میں کچھ ملا تو ہے، مگر دیکھنا چاہیے کہ کس کو ملا؟

ماضی کی جس تاریخ کو آج میں اور آپ متفقہ طور پر سیاہ تاریخ سمجھتے ہیں وہ اپنے وقتوں کی روشن تاریخ تھی۔ یہ جو آج کی روشن تاریخ ہے اس کے سیاہ ہونے پر آںے والی نسل اتفاق کرے گی۔

ماضِی کی وہ روشن تاریخ بھی محب وطن اورراسخ العقیدہ مسلمانوں کی تاریخ ہے، یہ آج کی روشن تاریخ بھی محب وطن طبقے اور صحیح العقیدہ مسلمانوں کی تاریخ ہے۔ ماضی کی تاریخ آج اس لیے سیاہ ہے کہ ہمیں احساس ہوچکا کہ تب ہم دراصل اپنے آپ سے برسر جنگ تھے۔ آج کی تاریخ کل اس لیے سیاہ ہوگی کہ ہمیں احساس ہوجائے گا کہ خوش نما نعروں کے سحر میں ہم اپنی ہی بنیادیں کھود رہے تھے۔

اگراگلی نسل کا اعتماد کے ساتھ سامنا کرناچاہتے ہیں توازراہ خدا ان خود ساختہ محب وطن طبقوں، نام نہاد اسلام پسند آوازوں اور بظاہر انصاف طلب صداوں کو اطمینان کے ساتھ مسترد کردیجیے۔ یہ ”غداروں“ اور ”ملک دشمنوں“ کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے۔ ورنہ کل کا دن تو آہی رہا ہے۔ اوراب کل کے آنے میں نصف صدی نہیں لگتی، مہینوں میں آجاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).