مسلم لیگ کو دھرنے نے تقسیم کیا یا مسلم لیگ کی تقسیم نے دھرنا کروایا؟


فیض آباد کے اکیس دنوں کے دھرنے نےجہاں پس چلمن پردہ نشینوں کے چہرے آشکار کر دیےوہاں اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات و واقعات اب کھل کر شریفوں کے اندرونی تضادات کی طرف اشارے دے رہے ہیں ۔ بڑے میاں اور چھوٹے میاں کے درمیان بین السطور تناؤ اور دوسری پیڑی کی سیاسی میراث پر ملکیت کے لئے کشمکش میں مسلم لیگ نون کا گھن پس رہا ہے۔ شریفوں کو مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے چہروں کو بے تاثر رکھنے پر ملکہ حاصل ہے مگراس بار وہ اپنی سیاسی زندگی میں خود اقتدار میں ہوتے ہوئے عتاب سے گزر رہے ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ وہ کسی کو دوش اور الزام بھی نہیں دے سکتے ہیں۔ کبھی گلے شکوے کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی آہ و زاری کرتے، پر بات بنے نہیں بنتی۔

مقتدر حلقوں کے لئے شہباز شریف یا چھوٹے میاں صاحب کا قابل قبول ہونا مشرف کے زمانے سے سنتے آرہے ہیں اور ساتھ یہ تاثر بھی ہے کہ بڑے میاں یعنی نواز شریف اپنی انا اور ضد کی وجہ سے کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔ اب پانامہ کی توپ سے جب بڑے میاں کا شکار کیا گیا تو شہباز شریف کے لئے میدان کھلا ہے اور ان کے لئے اسلام آباد کی غلام گردشوں پر راج کر نا اب دورنظر نہیں آتا، مگر بڑے میاں کے مجھے کیوں نکالا کے سوال نے ان کے اور تخت اسلام آباد کے بیچ ایک حد فاصل کھڑی کر رکھی ہے۔ ان کے کیمپ کا خیال ہے کہ مقتدر حلقوں کے ساتھ پیار و محبت اور صلح صفائی کے ساتھ کھوئی ہوئی سلطنت پھر سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ پا جی یعنی بڑے میاں جی کو اب سیاست سے سبک دوش ہو کر لندن میں گالف کھیلنا چاہیے جہاں ان کے صاحبزادے پہلے سے کاروبار میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کے منازل طے کر رہے ہیں۔ جبکہ بڑے میاں صاحب کی ضد ہے کہ جب تک اپنے اوپر لگے داغ کو صاف نہیں کرتا وہ ملک چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہی سیاست سے کنارہ کش ہوں گے۔

بڑے میاں نے خود کو سیاست میں رکھنے کے لئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف جو قانون سازی کروائی اس میں دوسری جماعتوں اور چھوٹے میاں جی کے لوگوں نے بھی طوعاً و کرہاً ساتھ دیا۔ اس قانون سازی کے دوران ممبران اسمبلی کی اہلیت کے لئے لازمی حلف نامے میں ترمیم سے کھڑے ہونے والے طوفان کے آغاز میں ہی چھوٹے میاں نے مطالبہ کر دیا کہ اس کے ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کو فارغ کیا جائے ۔ کچھ دنوں میں چھوٹے میاں کا یہ مطالبہ ایک مکتبہ فکر کا متفقہ علیہ فتویٰ بن گیا جس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی گئی۔ ادھر بڑے میاں کے کیمپ کے لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ قانون سازی دو ایوانوں میں ہوئی ہے جس میں کسی فرد واحد کو موردالزام ٹھہرانا اور کابینہ سے فارغ کرنے کا مطلب ہوگا کہ غلطی دانستہ طور پر کی گئی ہے جو اعتراف جرم کے مترادف ہوگا۔

بڑے میاں کے داماد نے بھی قومی اسمبلی میں ایک بے موقع تقریر میں ملک کی ایک اقلیت کو لتاڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ مختلف ہیں اور اس دن کے بعد سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنے سسرال کے ساتھ کھڑے ہیں یا ان کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ۔ لاہور میں قانون سازی کےدروران غلطی کے ذمہ داروں کا تعین کرنے اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لانے کے مطالبے کے ساتھ جو جتھہ جمع ہوا اس کے ساتھ چھوٹے میاں کی پنجاب سرکار نے بات چیت کی اور باور کروایا کہ یہ کام وفاقی حکومت کا ہے جس کے لئے ان کو لاہور کے بجائے اسلام آباد میں یہ مطالبہ کرنا ہوگا۔ اس گروہ کے لاہور میں جمع ہونے اور اسلام آباد کی طرف آنے میں کافی وقت لگا جس میں چھوٹے میاں کے کیمپ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نےانھیں روک رکھا تھا جبکہ بڑے میاں کے کیمپ کا کہنا ہے کہ ان کو اس دوران تیار کرکے بھیجا گیا تھا۔

بڑے میاں کی نا اہلی کے بعد اسلام آباد میں نئی بنی عباسی سرکار کسی ایسے ناگہانی صورت حال کے لئے تیار نہیں تھی اور نہ ہی ان کے پاس ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے چوہدری نثار جیسا کوئی زیرک وزیر موجود تھا جو عمران خا ن اور طاہر القادری کے دھرنوں کے بعد خود کو ایسے حالات میں یکتائے روزگار سمجھتا ہے۔ احتجاج کرنے والے فیض آباد پہنچے اوراسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر دھرنے کے لئے براجمان ہوگئے۔ دھرنے کی جگہ کے پشت اور بائیں طرف راولپنڈی اور سامنے اور دائیں جانب اسلام آباد باد واقع ہے۔ دھرنے کے لئے اس جگہے کے انتخاب پر بھی اسلام آباد میں بیٹھے شاہ کے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔

عباسی سرکار نےابتدا میں دھرنے کو سنجیدگی سے نہیں لیا یا ان کو خادم اعلیٰ کی پنجاب حکومت پر زیادہ بھروسہ تھا کہ وہ راولپنڈی کی طرف سے نپٹ لے گی اور ان کا کام صرف شہر اقتدار کی حفاظت کرنا ہے جو ابھی کافی دور تھا۔ فیض آباد میں راتوں رات ایک خیمہ بستی آباد ہوئی اور ایک میلہ سج گیا جس سے شہر اقتدار کا ائیر پورٹ سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ جب دو ہفتے گزرے تو لوگوں کی مشکلات اور بے چینی میں اضافہ ہوا تو اعلیٰ عدالتوں کے دباؤ پر دھرنے کو تتر بتر کرنے کا بادل نخواستہ فیصلہ تو کرلیا مگر اس میں وہ یکسوئی نظر نہیں آئی جو کسی ریاستی ایکشن میں ہونی چاہیے۔

ایکشن لینے کے لئے دو صورتیں ہو سکتی تھیں جس میں ایک یہ کہ کوئی ایسی فورس ایکشن لے جس کا کمان اور کنٹرول ایک ہی ہاتھ میں ہو یا دوسری صورت یہ ہوسکتی تھی کہ پنجاب اور اسلام آباد کی پولیس اور ایف سی میں کوئی ایسا ضابطہ کار طے کیا جائے کہ ایکشن میں یکسانیت ہو اور موثر طور پر کام مکمل ہوسکے۔ جب پولیس کے ذریعے ایکشن کیا گیا تو نتائج وہ نہیں آئے جو دھرنے کو منتشرکرنے کے لئے درکار تھے ۔ دھرنے کے لوگ ایکشن کے دوران ریاستی طاقت پر حاوی ہوگئے تو ایک زیادہ موثرفورس کے لئے التجا بھی کی گئی جس کو ٹھکرائے جانے کے بعد دھرنے والے فاتح ہوئے حکومت شکست خوردہ نظر آنے لگی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ پانچ ہزار جوانوں پر مشتمل تربیت یافتہ سرکاری فورس صرف دو ہزارنہتے لوگوں کے ہاتھوں پٹ کر الٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔

ایک شکست خوردہ حکومت جب مذاکرات کے لئے بیٹھ گئی تو اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا سوائے فریق دوئم کی ہر بات کو ماننے کے۔ ملک کی تاریخ کا انوکھا معاہدہ ہوا جس کے مطابق وفاقی وزیر قانون کو مستعفی ہوکر گھر جانا پڑا۔ اس معاہدے نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا اور ہمیشہ حکوم ت کے لئے کسی بھی ایسے دھرنے یا مظاہرے کے خلاف اقدام کے جواز کو بھی ختم کردیا ہے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اصل بات ایک اور معاہدے میں ہے جو دھرنا والوں نے پنجاب حکومت سے کر رکھا ہے جس کا صرف ذکر وفاقی حکومت کے ساتھ کیے معاہدے میں ہوا ہے۔ اس معاہدے کی رو سےصوبائی وزیر رانا ثناء اللہ کو اہل دھرنا کے علماء کے سامنے پیش ہوکر اپنے ایمان کا ثبوت دینا ہوگا کہ وہ کتنا سچا مسلمان ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے نصاب تعلیم میں دھرنا والوں کے مشورے سے مواد شامل کرنا، یوم اقبال کی سرکاری طور پر چھٹی کے علاوہ توہین مذہب کے مقدمات کو بلا لیل و لعت قائم کرنا شامل ہے۔ ان شرائط کو مضمرات کا پرواہکیے بغیر چھوٹے میاں کی پنجاب سرکار نے من و عن تسلیم کیا ہے جس پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق بڑے میاں صاحب وفاقی وزیر قانون کے مستعفی ہونے پر چنداں خوش نہیں وہ اس کو اپنی اخلاقی و سیاسی شکست سمجھ رہے ہیں جبکہ چھوٹے میاں کے کیمپ میں دھرنے کے خوش اسلوبی سے اختتام پزیر ہونے کو ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ پنجاب سےبہت سارے ممبران صوبائی اسمبلی کے مستعفی ہونے کی خبریں ہیں جن میں ایک مذہبی شخصیت اور اس کے مریدوں کی کافی تعداد ہے جو مسلم لیگ نون سے آئندہ انتخابات نہیں لڑنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف مستعفی ہونے والے شہباز شریف کے موقف کو صحیح جبکہ نواز شریف کو غلط بھی کہہ رہے ہیں جو مسلم لیگ کے اندر دھڑا بندی کا واضح اشارہ ہے۔

اگلے انتخابات میں بڑے میاں اپنے مجھے کیوں نکالا کے سوال کے ساتھ جانا چاہتے ہیں جبکہ چھوٹے میاں میٹرو ، موٹر وے اور گڈ گورننس کی کارکردگی کے ساتھ میدان میں اترنا چاہتے ہیں۔ مستعفی ہونے والے ممبران اسمبلی کی نشستوں پر فروری سے پہلے ضمنی انتخابات ہوگئے تو اس میں مسلم لیگ کی کارکردگی سے یہ معلوم ہو گا کہ مارچ سے پہلے کتنے ممبران مستعفی ہوکر اسمبلیاں توڑنے یا کم از کم سینٹ کے انتخابات کو غیر آئینی بنانے کا جواز پیدا کرسکیں گے تا کہ بڑے میاں کی مسلم لیگ کو ایوان بالا میں آئندہ پانچ سالوں کے لئے اکثریت حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔ اگر مسلم لیگ مارچ تک خود کو یکجا رکھ پائی تو اگلے مرحلے اس کے لئے آسان ثابت ہوں گے ورنہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔

فیض آباد کے دھرنے نے مسلم لیگ کو تقسیم کیا یا مسلم لیگ کی تقسیم کے لئے دھرنے کا کھیل کھیلا گیا اس سوال کا جواب مرغی اور انڈہ کی طرح ہے کہ ان میں کون پہلے پیدا ہوا تھا مگر ایک بات یقینی ہے کہ دھرنے نے ملک بھر میں ایک اکثریتی ووٹ کو تقسیم کردیا ہے جس کا اثر کم و بیش ہر غیر مذہبی وفاقی جماعت پرہوگا۔ ملک کے طول وعرض میں بیٹھے پیر، سجادہ نشین، کھٹ نشین، مخدوم، سید، علماء و مشائخ اگلے انتخابات کے لئے بننے والے سیاسی اتحاد اور جوڑ توڑ میں ایک دفعہ پھر اہم ہوں گے۔ کیا پتہ ان میں سے ہی کوئی مخدوم وزیر اعظم بھی ہو، کیونکہ ناممکن کو ممکن بنانے کا نام ہی تو سیاست ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan