اسلام آباد دھرنا: کیا فیض آباد چوک پر ملک کے مستقبل کا سودا ہو گیا؟


اس رائیگاں سی عمر کا ایک حصہ کراچی میں گزرا ہے۔ آج کل کبھی کبھی شام کو چھوٹے دھماکوں کی آواز سنتا ہوں تو دل گھبرا سا جاتا ہے حالانکہ جانتا ہوں کہ کراچی میں امن بحال ہو چکا ہے، فکر کی کوئی بات نہیں، کوئی پراپرٹی ڈیلر اپنے نئے پراجیکٹ کی کامیابی پر آتش بازی کا مظاہرہ کر رہا ہے یا کسی شاپنگ مال میں نئی سیل کی خوشی میں آسمان کو رنگا رنگ پھلجھڑیوں سے سجایا جا رہا ہے۔

بچے کو آتش بازی دکھاتا ہوں، اپنے چھوٹے سے بزدل کتے کو پیار کرتا ہوں، اسے آتش بازی سے مزہ لینے کی کوئی تمیز نہیں، وہ دھماکہ ہی سمجھتا ہے اور خوف سے کپکپانے لگتا ہے، اسے پیار کرتا ہوں اور صوفے کے پیچھے چھپا دیتا ہوں (جنھیں کتوں سے محبت پر کوئی اعتراض ہے وہ یاد رکھیں کہ امیر المجاہدین خادم رضوی دھرنے کے دوران اپنے خطاب میں فرما چکے ہیں کہ فتح مکہ کے دوران پیغمبرِ اسلام نے اپنی فوج کے دو ساتھیوں کی ذمہ داری اس کتیا کی حفاظت پر لگائی تھی جس نے ابھی ابھی بچے دیے تھے۔ آئندہ کسی نے کتوں سے شفقت پر اعتراض کیا تو یاد رکھے کہ جواب حوالے کے ساتھ ملے گا اور مادری زبان میں ملے گا۔)

کراچی میں صحافت کے نام پر دانشوری کرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ شہ سرخی بننے کی آس لگائے سارے مظلوم اور سارے احتجاجی خود کراچی پریس کلب پہنچ جاتے ہیں۔ کافی عرصے تک دفتر بھی کراچی پریس کلب کے عین سامنے تھا تو اکثر دفتر کی کھڑکی کا پردہ ہٹاتے تھے اور سٹرک پر کراچی کی تارہ ترین بریکنگ نیوز دیکھ لیتے تھے۔

کھڑکی کے عین نیچے مظاہرین کے استقبال کے لیے ڈائیوو کمپنی کی بنی ہوئی ایک بڑی سی پانی کی توپ کھڑی رہتی تھی۔ میں نے پورے سال تک کبھی اس واٹر کینن کو چلتے نہیں دیکھا۔ بڑا اشتیاق تھا کہ یہ کس طرح چلتی ہے۔ یہ اسی طرح کا تجسس تھا جو گاؤں کے بچوں کو گندم کاٹنے والے ہارویسٹر کے چلنے کے بارے میں ہوتا ہے لیکن کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کا پورا ایک پروٹوکول بے جو صحافیوں اور پولیس دونوں کو پتہ ہے۔ جب بھی کوئی بڑی مچھلی یا درمیانی مذہبی جماعت احتجاج کرتی تھی تو پانی کی توپ پیچھے ہٹا دی جاتی۔

مظاہرین کی حفاظت کے لیے پولیس رکاوٹیں لگا کر احترام سے پیچھے کھڑی ہو جاتی تھی، ٹریفک کو دوسری راہ دکھاتے تھے تاکہ ایمانی ولولے سے سرشار مظاہرین کو تکلیف نہ ہو۔ جب کبھی پرانی ایم کیو ایم مظاہرہ کرتی تھی تو پولیس سلام کر کے پیچھے ہٹ جاتی تھی اور بھائی لوگ سکیورٹی خود سنھبال لیتے تھے۔ لیاری سے کوئی جلوس آتا تو ساتھ ڈھول اور دھوم دھڑکا بھی ہو جاتا۔ جب پاکستان کو عظیم بنانے کے لیے امریکہ چھوڑ کر آنے والے مسیحا ڈاکٹر غلام مجتبیٰ اپنے دیہاڑی دار بچوں کے ساتھ آتے تو مجھے شک ہوا کہ پولیس والے بھی اپنی دیہاڑی مانگ لیتے۔

جب کبھی اپنے سول سوسائٹی والے بھائی اور بہنیں بینر اور موم بتیاں لے کر نمودار ہوتے تو پولیس والے حاجی صاحب کی ریڑھی پر بیٹھ کر حلیم کھاتے اور مستی میں اپنی زبان میں جگتیں لگاتے۔

پھر ایک دن میں نے ڈائیوو کی بنی ہوئی پانی کی توپ چلتے دیکھی۔ پاکستان میں ایک مخلوق ہوتی ہے لیڈی ہیلتھ ورکر۔ نام سے تو یہی لگتا ہے کوئی بھلا کام کرتی ہوں گی۔ تنخواہیں نہ ملنے پر مظاہرہ، صاف ستھرے نعرے۔۔۔ پولیس والے بھی شاید مظاہرین کا استقبال کر کے بیزار ہو گئے تھے۔ پانی کی بوچھاڑ لیڈی ہیلتھ ورکروں پر پڑی تو سمجھ آئی کہ اس چیز کو توپ کیوں کہتے ہیں۔

میں نے زندگی میں پہلی دفعہ سفید وردیوں میں ملبوس محنت کش عورتیں ہوا میں ملعق ہوتی دیکھیں۔ چند ہفتوں بعد اندرون سندھ سے پرائمری سکول ٹیچر آئے جو ذرا سیانے تھے، انھوں نے حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے جھنڈے اٹھائے تاکہ اپنے ہی لوگ لگیں، لیکن پانی کی توپ پہنچانتی ہے۔ ایسی دھلائی کی گئی کہ واپسی کا کرایہ مانگنا بھول گئے۔

کسی ستم ظریف صحافی بھائی نے کہا چلو اس بہانے یہ میلے کچیلے لوگ سال میں ایک دفعہ نہا ہی لیتے ہیں۔

یہ سارے معصوم مظاہرین نہ کسی سے کلمہ سننے آئے تھے، نہ کسی کا استعفیٰ لینے، نہ ملک کو توڑنے، نہ ملک کو جوڑنے، وہ علیحدہ صوبہ یا نظام مصطفیٰ کی بجائے اپنی ماہوار تنخواہ مانگنے آئے تھے پس ثابت ہوا کہ وطنِ عزیز میں سے بڑا جرم ہے اپنی مزدوری مانگنا۔ (ٹی وی نیوز رومز میں کام کرتے میرے صحافی بھائی اتفاق کریں گے لیکن احتجاج نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے پچھلے تین مہینے کی نتخوا ملنے کی جو امید ہے وہ بھی جاتی رہے گی)۔

پانی کی توپ چلتے دیکھ کر میرے دل سے یہ خواہش ہمیشہ کے لیے غائب ہو گئی کہ ریاست تشدد کا استعمال کرے۔ میں کہتا ہوں استعفیٰ دو، لفافہ پکڑاؤ، گال تھپتھپاؤ اور گھر بھیجو، سڑکیں کھلواؤ، باقی بعد میں دیکھی جائے گی۔

مارو، پکڑو، سٹرکوں پر گھیسٹو، زندان خانوں میں ڈالو، پتہ نہیں دل ہے کہ مانتا نہیں۔ ریاست یہ سب کچھ کر چکی ہے، پھر کرے گی، جو کل اپنے تھے وہ نیست و نابود کر دیے گئے جو آج اپنے ہیں وہ اپنی باری کا انتظار کریں۔

جو ہمارے پریشان بھائی اس فکر میں ہیں کہ فیض آباد چوک پر ملک کے مستقبل کا سودا ہو گیا تو وہ تسلی رکھیں۔ اس خاص ترکیب والی قومِ ہاشمی کے مستقبل کا فیصلہ کسی چوک میں نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ اس قوم کے فیصلے پارلیمان میں، یا عدالتوں میں، یا ٹی وی سکرینوں پر، یا وٹس ایپ گروپوں پر ہو رہے ہیں تو آپ تھوڑے بھولے ہیں۔ اس قوم کے مستقبل کے فیصلے پراپرٹی ڈیلروں کے دفتر میں ہو رہے ہیں۔ چند دن کی بات ہے ایسی آتش بازی ہو گی، اتنا چراغاں ہو گا کہ خلا میں گھومتے کیمروں کی آنکھیں چندھیا جائیں گی، پھر ہم ایک دوسرے کے گال تھپتپائیں گے اور کہیں گے کہ کیا ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).