پرویز مشرف اور پاکستان کی ‘ناقص‘ جمہوریت


پاکستان کے سابق فوجی آمر اور طویل عرصہ تک ملک کی فوج کے سربراہ رہنے والے جنرل (ر) پرویز مشرف نے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں لشکر طیبہ کی کارروائیوں کے حامی رہے ہیں اور حافظ سعید سے مل بھی چکے ہیں۔ حال ہی میں حافظ سعید کو طویل نظر بندی کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر رہا کیا گیا تھا کیوں کہ عدالت کے خیال میں ایک شخص کی رہائی سے ملک کے خارجی تعلقات اور مالی مفادات متاثر نہیں ہو سکتے۔ البتہ اس فیصلہ کے بعد امریکہ اور بھارت کی طرف سے سخت احتجاج سامنے آیا تھا۔ امریکہ نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ حفظ سعید کو ان کے جرائم کی سزا دلوانے کا اہتمام کرے۔ بصورت دیگر امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ ملک کے سابق صد کو 9/11 کے بعد امریکہ کے ساتھ پاکستان کے اشتراک اور تعاون کی بنیاد رکھنے والے کی شہرت حاصل ہے۔ لیکن پرویز مشرف اب حافظ سعید کے خلاف امریکی بیان کو پاکستان کی توہین قرار دے رہے ہیں۔

پرویز مشرف نے ان خیالات کا اظہار مقامی ٹیلی ویژن کے ایک ٹاک شو میں باتیں کرتے ہوئے کیا ہے۔ ان سے ان کے حال ہی میں قائم کردہ 23 جماعتی سیاسی اتحاد کے حوالے سے سوال کیا گیا تھا ۔ میزبان نے ان سے پوچھا تھا کہ ’ انہیں ایک لبرل خیالات کے حامل شخص کی شہرت حاصل ہے تو وہ اس سیاسی اتحاد میں مجلس وحدت المسلمین ، سنی اتحاد کونسل اور پاکستان سنی تحریک جیسے مذہبی گروہوں کے ساتھ کیسے بیٹھیں گے‘۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مشرف کا کہنا تھا کہ ’ وہ لبرل تو ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مذہبی گروہوں کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ لشکر طیبہ کے حامی ہیں اور اس گروہ کے لوگ ان کے قدر دان ہیں کیوں کہ اس گروہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی مزاحمت کی ہے۔ میں اس کا بہت بڑا حامی ہوں‘۔ واضح رہے بھارت کی طرف سے پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کرنے اور مسلح جنگجو سرحد پار بھیجنے کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن پاکستان اس الزام کی مسلسل تردید کرتا ہے۔ یہ تردید پرویز مشرف کے دور میں بھی کی جاتی رہی ہے۔ اس لئے سابق صدر اور آرمی چیف جب اس بات کا اقرار کریں گے کہ وہ ایسے گروہوں کی حمایت کرتے رہے ہیں جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے میں مصروف رہے ہیں تو اس سے پاکستان کی سفارتی پوزیشن کمزور ہو گی۔

سابق صدر کا یہ کہنا محل نظر ہے کہ حافظ سعید کے بارے میں امریکہ کا بیان پاکستان کی توہین ہے اور اس پر سخت مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پرویز مشرف خود پاکستان کے ذریعے افغانستان میں امریکی جنگ کے معمار کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے دور میں امریکہ کے خلاف عسکری جد و جہد کرنے کے شبہ میں سینکڑوں لوگوں کو کسی عدالتی فیصلہ یا الزام کے بغیر امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا جنہیں سال ہا سال تک گوانتانامو بے کے عقوبت خانے میں اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ امریکہ کے ایک اشارے پر افغانستان کے بارے میں ملک کی پالیسی تبدیل کرنے والے شخص کو اب سیاسی مقاصد کے لئے بالکل متضاد مؤقف اختیار کرتے ہوئے البتہ کوئی احساس ندامت نہیں ہے کیوں کہ وہ بدستور ملک میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی باتیں اور ملک کے معاملات پر اس کے اثرات پاک فوج کے لئے باعث تشویش ہونے چاہئیں۔ پرویز مشرف نہ صرف یہ کہ طویل عرصہ تک فوج کے سربراہ رہے ہیں بلکہ فوج ہی کی مداخلت اور ’ضمانت‘ پر عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے کی بجائے ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔ انہیں پاکستان کی عدالتیں مفرور قرار دے چکی ہیں۔ اس لئے سیاسی معاملات پر ان کے ایسے بیانات کی روک تھام جن سے براہ راست فوج کی پوزیشن متاثر ہوتی ہے ، بھی پاک فوج ہی کا کام ہے۔

پرویز مشرف نے اسی انٹرویو میں ایک بار پھر یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو قطع و برید کی ضرورت ہے۔ یعنی ان کے نزدیک صرف ایسی جمہوریت پاکستان کے مفاد میں ہے جو ان جیسے عدالتی بھگوڑے کو اقتدار میں حصہ دار بننے کا موقع فراہم کرسکے۔ یا فوج کا واضح کردار متعین کرسکے۔ سابق صدر کو یہ باتیں پاکستان میں رہتے ہوئے کرنا چاہئیں ۔ وہ ایک شہری کے طور پر سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے پاکستان میں نظام کی تبدیلی کی جد و جہد کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ لیکن یہ حق اسی شخص کو حاصل ہو سکتا ہے جو پاکستان کے قانون اور آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے اور خود پر عائد الزامات کا عدالتوں کو جواب دینے کا بھی پابند ہو۔ اس ذمہ داری سے فرار ہونے والے کو ایک غیر ملک میں بیٹھ کر پاکستانی آئین کے تحت کام کرنے والے نظام کے بارے میں باتیں کرنا زیب نہیں دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali