آزادی کی عمر کتنی ہوتی ہے؟


امی نے سکھایا تھا کہ جھوٹ ہرگز نہیں بولنا۔ جتنی مشکل آج ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ بچپن میں ہوتی تھی۔ سب سے زیادہ جھوٹ اس لیے بولا کہ سکول سے چھٹی کی جا سکے۔ وہ مقصد کم بخت پھر بھی پورا نہیں ہوتا تھا۔ چہرے سے ہی امی پکڑ لیتی تھیں کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اب تو دنیا بھی پکڑ لیتی ہے۔ اس وقت انٹرنیٹ بھی نہیں ہوتا تھا‘ جو آج بڑی بڑی راہیں دکھلا دیتا ہے۔ روٹی پکانے سے لے کر بم بنانے تک، ہر طریقہ وہاں دستیاب ہے۔ بہرحال کافی سوچ بچار کے بعد ایک بہانہ سوجھ گیا۔ امی سے کہا کہ پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ ساؤنڈ ایفیکٹس کچھ اس طرح دیے کہ امی بے چاری یقین کر گئیں، چہرے پہ آنسو بھی تھے تو وہ تھوڑی فکرمند ہوئیں، دوا دی اور پورا دن سکون سے نکل گیا۔

اگلے روز پھر وہی مصیبت تھی۔ صبح چھ بجے بستر چھوڑنے کا دکھ وہی جان سکتا ہے جو کبھی چھوڑتا ہے۔ تو بہرحال کل والا بہانہ آج نہیں چل سکتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ پیٹ پر ایک چھوٹا سا نیل نما زخم بن چکا تھا۔ وہ اس لیے بنا تھا کہ بہانے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے ایک زوردار چٹکی بھائی نے خود ہی پیٹ میں کاٹ لی تھی۔ تو ایک آدھا نیل تو اگنور ہو جاتا ہے لیکن روز روز یہ کام کون کرے، جیسے تیسے سکول کا راستہ پکڑ لیا۔

کبھی سوچا ہے کہ ایک بچے کا بچپن کب تک رہتا ہے؟ صرف تین چار برس کی عمر تک، جب تک وہ سکول نہیں بھیجا جاتا۔ اس کے بعد بچے کی زندگی میں کیا ایسا فرق رہ گیا جو اسے چھتیس برس کے انسان سے الگ کر سکے؟ وہ بھی صبح چھ بجے اٹھے گا، یہ بھی اسی ٹائم جھک مارے گا۔ وہ بھی زبردستی بستر سے نکلے گا، یہ کم نصیب بھی اسی طرح اٹھے گا۔ اسے بھی بھاگم بھاگ ناشتہ کرنا ہے اور سکول کو دوڑ لگانی ہے، یہ بھی چائے کے ساتھ ایک آدھا سلائس زہر مار کرے گا اور دڑکی لگائے گا۔ بچہ جب سکول پہنچے گا تو غریب جمائیاں لے رہا ہو گا، چھتیس برس والا بھی دن کے بارہ بجے تک نیند زبردستی بھگا کے روزی روٹی میں لگا رہے گا، پھر بارہ کے بعد دونوں چھٹی کا انتظار شروع کر دیں گے۔ بچہ گھر پہنچے گا تو اس کے دماغ کا دہی بنانے کے لیے اماں ابا موجود ہوں گے، ’میرا چھونا ہوم ورک کب کرے گا؟ (چھونے کو بھی سب پتہ ہوتا ہے کہ اتنی مٹھاس کیوں آ گئی اچانک)‘‘۔

جوان آدمی جب شام کو لوٹے گا تو ای میلیں اور فون اس کا بیڑہ غرق کر دیں گے۔ بچہ بے چارہ بھی شدید بے تابی سے اتوار کا انتظار کرے گا، بڑا بھی کرے گا۔ یہ الگ بات کہ اتوار کو واقعی چھٹی نصیب بھی ہو جائے۔ بچہ اپنے استادوں کے خوف میں گرفتار ہو گا، بڑا اپنے باس کی ٹینشن لیے بیٹھا ہو گا۔ اسے اپنے کلاس فیلوز سے شکایتیں ہوں گی، اُسے اپنے کولیگز سے شکوے ہوں گے۔ کل ملا کے سمجھیے بچہ جب سکول میں آ گیا تو بس آگے پھر کولہو کا بیل بن گیا۔ ساری زندگی اسی چکر میں پڑا رہے گا‘ بھلے پڑھ لے بھلے کما لے۔

ماں باپ عموماً بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے روتے ہیں۔ بیٹا ملک سے باہر جانے لگے تو اس سے لپٹ کے آنکھ میں آنسو آ جاتے ہیں۔ حق ہے۔ اصل رونا اس دن روؤ بابا جس دن بچہ سکولے ڈال دیا۔ بچے کی آزادی چھن جانے کا وہ پہلا دن ہوتا ہے۔ اس کے بعد تو بس چل سو چل والی کہانی ہے، سکول ہے، جاب ہے، شادی ہے، بچے ہیں۔ پھر سب زنجیریں ہیں۔ کوئی مجبوری صبح اٹھا دے گی کوئی رات دیر تک جگائے گی، اپنا وقت کیا بچا؟ تین یا چار برس کی عمر۔ باقی، خلاص!

تو اس دکھ کا واحد حل یہ سمجھ میں آتا ہے کہ بچے کو مرضی کے ٹائم پہ سکول بھیجا جائے تاکہ ممکنہ حد تک وہ اپنی آزادی، اپنا اچھا وقت برقرار رکھ سکے۔ یہ بھی پاسیبل نہیں ہے؟ ٹیکنیکلی اس میں کافی مسائل ہوں گے؟ ٹھیک ہے۔ لیکن کیا سکول تھوڑی دیر سے بھی نہیں شروع ہو سکتے، مثلاً کوئی دس بجے تک؟ یہی بات ایک بچہ کر لے کہ سکول دیر سے لگنے چاہئیں تو اسے ہوا میں اڑا دیا جائے گا۔ کوئی کالم والا لکھے گا تو دیوانے کی بڑ سمجھی جائے گی، ٹھیک ہے بھئی، مان لیا۔ ابھی کیا کریں گے جب ولائتی یونیورسٹیاں اس بات کو ریکمینڈ کریں گی کہ ہاں، بچوں کی تعلیمی قابلیت بہتر بنانی ہے تو سکول کم از کم صبح دس بجے لگنے چاہئیں؟

ایک نئی ریسرچ یہ کہتی ہے کہ سکول ٹائمنگ آگے بڑھانے سے بچوں کی صحت بہتر ہو گی اور دماغی طور پہ بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اور انہوں نے تو یہ تحقیق صبح ساڑھے آٹھ بجے کو بنیاد بنا کر کی ہے۔ اپنے یہاں تو سات بجے بھی سکول لگ جاتے ہیں۔ استغفرللہ۔ تو وہ ریسرچ مزید بتاتی ہے کہ بچے اگر ساڑھے آٹھ کے بجائے دس بجے سکول جائیں گے تو وہ سست نہیں ہوں گے۔ ان کے بیمار ہو جانے کا چانس کم ہو گا نیز ان کا دماغ بہت زیادہ بہتر کام کرے گا۔ ڈاکٹر ڈیوڈ کیلے نے سمجھایا ہے کہ اصل میں سارا رولا صبح سویرے سکول کی ٹینشن میں اٹھ جانے کا ہے۔ پہلے بچہ اس روٹین کی وجہ سے نیند پوری نہیں کر پاتا، پھر وہ سست ہوتا ہے، اس کے بعد تھک ہار کے بیمار پڑتا ہے اور بار بار کی بیماری آخرکار اس میں ایک مستقل سستی لے آتی ہے جس کے بعد اس کا دماغ بھی کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر ریشل وڈم ایک اور سکالر ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف مینیسوٹا میں پڑھاتی ہیں۔ ان کا ایک اور اعتراض ہے۔ وہ یہ کہتی ہیں کہ صبح جلدی اٹھنے کی وجہ سے آج کل کے بچے موٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ بچے جب نیند پوری نہیں کر سکیں گے تو ان کا جسمانی نظام آخرکار ٹھیک نہیں رہے گا۔ یا بھوک زیادہ لگے گی یا کھایا پیا ہضم نہیں ہو گا اور یا پھر موٹے ہوتے چلے جائیں گے۔ انہوں نے سکولوں کا سٹارٹ ٹائم آگے کرنے کا تجربہ کیا۔ جو نتائج نکالے، ایک نظر دیکھیے؛ بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہو گئی۔ سکولوں میں حاضری تقریباً پوری رہنے لگی۔ دماغی طور پہ بچے زیادہ چست پائے گئے اور بڑے بچوں کی ڈرائیونگ میں بھی نمایاں احتیاط دیکھی گئی۔

چھوڑ دیں یار، سب ڈاکٹروں کو چھوڑیں، تحقیقیوں کو سائیڈ پہ کریں، سامنے کی بات کرتے ہیں۔ صبح الارم کی آواز پہ غصہ نہیں آتا؟ کبھی کبھی جب بہت سریلی نیند آئی ہو تو اٹھنے کے بعد باقی سارا دن مسلسل سٹریس میں نہیں گزرتا کہ مصیبت کیا ہے جو بندہ سو بھی نہیں سکتا اپنی مرضی سے؟ جب آپ کو سٹریس ہو سکتا ہے، دن منحوس گزر سکتا ہے تو ایک ننھا منا سا چوزے جیسا معصوم بچہ، اس غریب نے کیا قصور کیا ہے؟ اس سے کوئی جنگیں جتوانی ہیں یا نہریں کھدوانی ہیں جو اتنی جلدی اٹھنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے؟ ریلیکس! خود بھی سکون کریں، بچوں کو بھی آرام سے رہنے دیں۔ سکول ٹائم کو بدلنا اپنے بس میں نہیں ہے تو انہیں ہفتے میں ایک دو چھٹیاں کروا دیں۔ کبھی دیر سے بھیج دیا سکول، کوئی تو فیور ہو۔ آخر کیوں چار، چھ، آٹھ یا دس برس کا ہر بچہ پچاس سال کے بڑوں جیسا روٹین گزارنے پہ مجبور ہو؟ اس نے ساری عمر یہی عذاب کاٹنا ہے، روٹین کا عذاب، ٹائم ٹیبل کا عذاب، ڈیڈ لائن کا عذاب، کلوزنگ کا عذاب، تو کچھ تو ایسا ہو جو اسے بڑے ہو کر یاد رہ سکے کہ ہاں، کبھی ہمارے دن بھی اچھے تھے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain