وحشت کے رقص میں صلح کے شیدائی



گزشتہ ہفتے مملکت خداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں، طوائف الملوکی اور انارکی کا رقص وحشت دیکھنے کے بعد دل و دماغ میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ لہٰذا یہ ایک ماتمی تحریر ہے۔ اگر آپ اس تحریر میں سنجیدگی؛ دفاعی، معاشی، سیاسی یا کسی بھی قسم کی تجزیہ کاری ڈھونڈنا چاہتے ہیں تو بیشک مت پڑھیے۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ تجزیے ریاستوں کے مسائل اور ان کے حل پرکیے جاتے ہیں۔ نفسیاتی مریضوں کے ہجوم، خون آشام گدھوں اور بھیڑیوں سے بھرے کسی قطعہ اراضی کو پاگل خانہ جنگل یا قبرستان تو کہا جا سکتا ہے، یہ ریاست کسی صورت نہیں کہلا سکتی۔ لہذا عزت مآب وزیر داخلہ، پروفیسر احسن اقبال صاحب، آپ کیوں انگریزی زبان میں ریاست کے اندر ریاست جیسی ثقیل اصطلاحات استعمال کر کر کے ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ یہاں اس قماش کی کوئی شے اپنے تصور کا بھی وجود رکھتی ہے۔

حالیہ واقعات کی روشنی میں اس ریاست نے اپنا وجود اسی دن کھو دیا تھا جب پارلیمان پاکستان نے اپنی ہی کی ہوئی قانون سازی کو نعوذ باللہ کا ورد کرتے ہوئے، کلیریکل غلطی تسلیم کیا تھا۔ یہ وزرا، سینیٹر، کمیٹیوں کے ممبران، ایم این اے، اپنے اپنے سٹاف اور دانشواروں کی فوج ظفر موج کیساتھ بھی، قوم کو یہ سمجھا نہیں سکے کہ قانون ختم نبوت میں کسی قسم کی ترمیم سرے سے کی ہی نہیں گئی۔ اپوزیشن اور حکومتی ارکان قومی اسمبلی کی میڈیا پر گفتگو سے یہ عقدہ بھی کھلا کہ ان میں سے اکثریت تو آئینی، ترمیمی اور نئی قانون سازی کا فرق بھی نہیں جانتی۔ ہمارے میڈیا کے نور نظر، لال حویلی کے بقراط، فرزند راولپنڈی شیخ رشید صاحب کو تو یہ بھی نہیں معلوم کے قانون ختم نبوت آئین پاکستان کا جزو ہے جس میں کسی قسم کی ترمیم لائی گئی ہے نہ ہی زیر غور ہے۔ اس قوم کے رہنماؤں اور نمائندوں کی نیم خواندہ ابتری کی داد دینی پڑے گی جو مترادف اور ہم معنی الفاظ کے تصور سے بھی آشنا نہیں۔ اور ان بقراطوں، سقراطوں کے ایوان کی کاروائیوں کا ایک منٹ اس مفلس قوم کو ایک لاکھ روپے میں پڑتا ہے۔ عوام کے پیسے کا اس سے زیادہ بے رحم ضیاع تو شاید قدم یونانیوں کی سینیٹ سے لے کر اقوام عالم کی حالیہ پارلیمانی تاریخ تک کھنگالنے سے بھی نہ ملے۔

اور پھر ذرا ملاحظہ فرمایے ہماری عدالت عالیہ کی دانشوریاں۔ جسٹس شوکت صدیقی پیر کے روز بہت برہم ہوئے، بے نقط سناتے رہے فوج اور وزارت داخلہ کو۔ لیکن گستاخی معاف میری قوم کے منصف، پوچھنے والی بات یہ ہے، جب آپ نے دارالحکومت پر قابض افراد کو دہشت گردی کا مرتکب قرار دیا تھا تو معصوم پولیس والوں کی بندوقیں ضبط کر کے، ہاتھ میں ڈنڈے اور آنسو گیس تھما کر کیوں بھیجا دہشت گردوں سے لڑنے؟ ان بیچاروں کو مروانا ہی تھا تو نہتا کر کے مولوی خادم حسین کے آگے ڈال دیتے۔ یہ باقی تکلفات کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہمارے اداروں کی اسٹریٹجک ہم آہنگی کا بہترین اظہار تو تب دیکھنے کو ملا جب غریب پولیس والے دہشت گردوں کے ہاتھوں ڈنڈے کھا رہے تھے۔ ایک افسر جان سے جا چکا تھا اور سپہ سالارا عظم اور ان کے نشریاتی نمایندے ٹویٹر پر حکومت کو امن اور دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے کی افادیت سمجھا رہے تھے۔

یہ دنیا کی شاید واحد فوج ہے جس کو جنگجوؤں اور عسکریت پسندوں سے نبٹنے کے لئے بھیجو تو صلح صفائی کروانے کے شوشے چھوڑنے لگتی ہے۔ ارے وطن کے سجیلے جوانو اگر اتنے امن و آتشی کے پجاری ہو تو ہتھیار پھینک کر، طالبان سے بیٹھ کر محبت کی پینگیں کیوں نہیں بڑھاتے؟ اتنے بڑے داعی ہو امن کے تو ایم کیو ایم والوں کو بھی بخش دو اور لندن سے الطاف بھائی کو واپس بلوا لو۔ جنرل باجوہ صاحب بہادر کو خود جانا چاہیے ایئر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے۔ پھولوں کی مالا اور فوجی براس بینڈ کا دستہ لیکر۔ کیا روح پرور منظر ہو گا جب جنرل باجوہ ہار پہنا کر، ماتھا چوم کر، سریلی دھنوں والی امن کی راگنی پر الطاف بھائی کا سواگت کریں گے ۔ اکیس توپوں کی سلامی ہو۔ اھلا و سہلا مرحبا کا نعرہ مستانہ بلند ہو۔ اسلام آباد کلب میں ایک شاندار بال روم پارٹی منعقد کی جائے بھائی کی شان میں۔

دل کو رنجیدہ اور چھلنی کرنے والی بات تو یہ ہے کہ وحشت کا یہ برہنہ رقص اس ہستی کے نام پر رچایا گیا جو رحمت العالمین کہلاتی ہے۔ پیغمبر اسلام کی عظمت اور حرمت کی توہین کسی قانون نے نہیں بلکہ ان فتنہ اور شر پھیلانے والوں نے کی جنہوں نے اس نبیؐ کے نام پر گلی گلی، شہر شہر آگ لگائی۔ پیغبر اسلام نے تو طائف میں پتھر کھا کر بھی اہل شہر کے لئے ہدایت کی دعا مانگی تھی۔ کیا آج اس نبیؐ کی حرمت کے علمبردار یہ تکفیری درندے ہیں، جو منطق اور دلیل کے جواب میں ماں بہن کی مغلظات بکتے ہیں۔ خدارا اس اجتماعی دیوالیہ پن پر فقط ماتم کیا جا سکتا ہے۔ لعنت بھیجیں تجزیوں پر۔
لکھاری گرفتھ یونیورسٹی آسٹریلیا کا طالبعلم ہے اور پولیٹکل اکانومی کے شعبے میں ریسرچ کر رہا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).